• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چترال میں بھی جماعت اسلامی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ۔یہاں سے سابق ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی اور ضلع ناظم مغفرت شاہ کے اپنے اپنے دھڑے ہیں ۔مغفرت شاہ کی کوشش تھی کہ قومی اسمبلی کی نشست جے یو آئی (ف) کو دیدی جائے جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست ان کے حصے میں آئے مگر اس کے برخلاف فیصلہ یہ ہوا کہ عبدالاکبر چترالی این اے 1چترال سے ایم ایم اے کے متفقہ امیدوار ہونگے جبکہ پی کے 1چترال سے جے یو آئی (ف) کے ہدایت الرحمان متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے ۔یہاں بھی جماعت اسلامی کے دونوں دھڑے ایک ہو جائیں تو قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے مگر بصورت دیگر مخالفین فائدہ اٹھائیں گے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر یہاں سے پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی منظور ہو جائیں تو ان کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے تمام امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو سکتی ہیں اور ایسی صورت میں یہ مقابلہ یکطرفہ ہو جائے گا ۔مگر ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر یہاں سے ایم ایم اے کے مولانا عبدالاکبر چترالی ،پی ٹی آئی کے عبدالطیف اور مسلم لیگ (ن) کے افتخار الدین میں سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے ۔پی کے ون پر پی ٹی آئی کے اسرارالدین صبور اور ایم ایم اے کے مولانا ہدایت الرحمان کے درمیان کانٹے کامقابلہ متوقع ہے ۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی خیبر پختونخوا سے الیکشن لڑ رہے ہیں ۔بلاول بھٹو زرداری این اے 8مالاکنڈ سے امیدوار ہیں ۔اس حلقے سے 2002ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر مولانا عنایت الرحمان جبکہ 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لال محمد خان ایم این اے منتخب ہوئے ۔ 2013ء میں پی ٹی آئی کا سونامی پیپلزپارٹی کی یہ سیٹ بہا لے گیا اور جنید اکبر لال خان کو شکست دیکر رُکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئے ،اب اگر بلاول بھٹو زرداری یہاں سے الیکشن لڑتے ہیں تو بازی پلٹ سکتی ہے۔عمران خان بیک وقت جن حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں ان میں سے سب سے کمزور پوزیشن این اے 35بنوں میں ہے جہاں ایم ایم اے کے امیدوار کی حیثیت سے سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان دُرانی ان کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔یہ حلقہ جے یو آئی (ف)کا مضبوط گڑھ ہے اور گزشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے پہلی بار یہاں سے اپنا امیدوار کھڑا کیا تو مقبولیت کی زبردست لہر کے باوجود مطیع اللہ 25340ووٹ حاصل کر سکے جبکہ اکرم خان دُرانی نے 77015ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی ۔
جماعت اسلامی کے داخلی انتشار کو ایم ایم اے کی تشکیل نو نے دو آتشہ کر دیا ہے ۔جماعت اسلامی کے وابستگان تو ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان ہوتے ہی یہ واویلا کر رہے تھے کہ ایک ہی سوراخ سے دوسری مرتبہ ڈسے جانے کے لئے تیار رہا جائے ،ایم ایم اے کی مرکزی صدارت کے بعد خیبر پختونخوا کی صدارت بھی جے یو آئی (ف)لے اُڑی تو سینہ کوبی کا سلسلہ تیز تر ہو گیا مگر اب جب جماعت اسلامی کی مقامی سطح کی قیادت بھی ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم پر احتجاج کرنے لگی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ٹھوس منصوبہ بندی اور بنیادی باتوں پر اتفاق رائے کئے بغیر ہی انتخابی ضرورت اور سیاسی مصلحت کے تحت عجلت میں ایم ایم اے کی بحال کا اعلان کر دیا گیا ہے اور وقت گزرنے کیساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے ہمدردوں کا یہ احساس شدت اختیار کرتا چلا جائے گا کہ یہ اتحاد ایک اور گناہ بے لذت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ہاں البتہ ان تمام کمزوریوں اور داخلی انتشار کے باوجود خیبر پختونخوا تبدیلی کے دہانے پر کھڑا محسوس ہو رہا ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ نیا پاکستان بنے یا نہ بنے ،پرانا خیبر پختونخوا بحال ہونے کو ہے اور آئندہ حکومت ایم ایم اے اور اس کے اتحادی ملکر بنانے کی پوزیشن میں ہونگے ۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حالیہ دنوں میں جنم لینے والی ایم ایم اے جمہوریت نواز کیمپ کا حصہ ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ چھوٹی مذہبی جماعتوں کو ایم ایم اے میں شامل نہیں کیا گیا
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین