معاشرے انسانی و اخلاقی قدروں کی وجہ سے مہذب کہلاتے ہیں۔ اگر قدریں مفقود ہو جائیں تو شہروں اور جنگلوں میں فرق ختم ہو جائے۔ مذہب ہمیشہ سے اخلاقی قدروں کا سب سے بڑا منبع رہا ہے۔ دنیا کا ہر شخص کسی نہ کسی مذہب کا پیروکار ہے۔ مذہب صرف مخصوص عبادات اور ارکان کی ادائیگی کا نام نہیں بلکہ ایک خاص ضابطے کی پیروی ہے۔ ایک ایسا نقشہ جو منزل کی طرف جانے میں رہنمائی کا باعث بنتا ہے۔ اس کا زیادہ رجحان باطن کی تطہیر، ذات کی پہچان، اپنی جداگانہ صلاحیتوں کی دریافت، کائنات سے جڑت کے ذریعے خالق کائنات تک رسائی اور صالح زندگی کے اصول معلوم کرنا ہے۔ یہ اصول ہی اخلاقی قدریں کہلاتے ہیں۔ کسی بھی مذہب کا مطالعہ کریں اس میں سب سے زیادہ اخلاقی قدروں کی تلقین ملے گی اور اس حوالے سے تمام مذاہب میں بہت گہری مماثلت موجود ہے۔ یہ قدریں آفاقی نوعیت کی ہیں کیوں کہ یہ صدیوں کے تجربات، رویوں، دانش اور الہامی تصورات سے اخذ کی گئی ہیں۔ ہر مذہب انسان کی توقیر کی علمبرداری کی بات کرتا ہے۔ خدمتِ خلق کو افضل سمجھتا ہے۔ عورتوں کے احترام، بچوں سے شفقت اور بزرگوں کی عزت پر زور دیتا ہے۔ دنیا کا ہر مذہب انسان کو قتل کرنے، اس کی تذلیل کرنے، صحت کے لئے مضر اشیاکا استعمال کرنے، جھوٹ بولنے، دغا کرنے، ظلم کرنے اور ناانصافی کو برا فعل سمجھ کر اس کی ممانعت کرتا ہے۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ مذہب ہمیشہ اخلاقی اقدار کا مصدور رہا ہے۔ جب انسان جبلّی سطح پر ہوتا ہے تو اسے دانش، دلیل اور مکالمے کے بجائے برائی کے برے نتیجے کے خوف اور رب کی ناراضگی کو جواز بنا کر اس کی جبلت کے شر کو کنٹرول کیا جاتا ہے لیکن جب انسان شعوری سطح کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے تو وہ ان قدروں کی افادایت سے ہم آہنگ ہو چکا ہوتا ہے۔ آج جو لوگ مذہب کے منکر ہیں وہ بھی کسی نہ کسی ضابطے کے پیروکار ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے مذہب کو ضابطے کا نام دے دیا ہے تے بے جا نہ ہوگا کیوں کہ مذہب بنیادی طور پر صالح زندگی گزارنے کا ضابطہ ہی ہے۔
ہم ہمیشہ ایک عظیم قوم ہونے کے زعم میں مبتلا رہتے ہیں اور یہاں بھی ہمارے فخر کی بنیاد ہمارے اپنے اعمال کے بجائے ہماری دینی اقدار اور ہمارے نبی ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کی وہ خوبیاں ہیں جو پوری کائنات کے انسانوں کے لئے ایک مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف ایک اعلیٰ ضابطۂ حیات گھر میں رکھنے اور عظیم ہستی سے نسبت ہونے سے ہم ایک اچھا اور معتبر انسان بننے کے اہل ہوسکتے ہیں۔ غور کیا جائے تو ہم بیک وقت دو زندگیاں بسر کر رہے ہیں، ایک وہ جس پر ہم ذہنی اور دلی طور پر یقین کے علمبردار ہیں اور دوسری وہ جو عمل سے جڑی ہے مگر ہماری دینی اقدار سے قطعاً مختلف ہے۔ ہماری فکر اور عمل مخالف سمت رُو بہ سفر ہیں۔ ایسے میں وجود کا توازن برقرار رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ویسے تو مجموعی طور پر پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے معاشرے میں اخلاقی قدریں رُو بہ زوال ہیں۔ بدلتی دنیا کے تقاضوں اور مادیت کی جکڑ نے ہمارے لوگوں کی سوچ کو خود غرضی کی طرف مائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس سے نفرت، عناد اور طبقاتی فرق کو ہوا ملی ہے جب کہ امن، رواداری اور برداشت جیسی قدریں معدوم ہوتی جا رہی ہیں لیکن سیاسی افق پر اخلاقیات کے حوالے سے منفی تاثر زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ مخالفین پر شدید الزامات کا سلسلہ بہت پرانا ہے مگر پہلے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے بات زیادہ پھیلتی نہیں تھی مگر اب ایک ذرا سی ٹویٹ معاشرے میں ہلچل مچا دیتی ہے۔ اوپر سے گالم گلوچ اور فریق مخالف کی شخصیت پر الزامات عائد کرنا سب سے بڑا ہتھیار اور سیاسی حربہ بن گیا ہے۔ عملی اقدامات کے بجائے دوسرے کی اخلاقی کمزوری کو اچھال کر رائے عامہ کو اپنی سمت راغب کیا جاتا ہے اور یہاں بھی موضوعِ بحث مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیگمات یعنی عورتیں ہی ہیں۔ مرد ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہتے بلکہ لڑائی میں اکثر مخالف شخص کی رشتہ دار خواتین کی تذلیل کرتے ہیں جو کبھی بھی ہماری معاشرتی اقدار میں شامل نہیں رہا۔ آخر ہم نے اتنا پڑھ لکھ کے کیا کیا؟ جب ان پڑھ تھے تو فطری اصولوں کی پاسداری کرتے تھے۔ دوست ہو یا دشمن عورت کی تکریم کرتے تھے مگر اب ہر سیاسی جماعت عورتوں کے بارے میں ایسی ایسی پھلجڑیاں چھوڑ رہی ہے کہ سُن کر شرمندہ ہونے کے سوا چارہ نہیں۔ بڑے بڑے سیاسی رہنمائوں کی تقریریں سن کر خود پر حیرت ہوتی ہے کہ ہم نے ایسے لوگوں کو رہنما بنایا جن کا نہ کوئی وژن ہے اور نہ ہی کوئی مقصد۔ صرف اقتدار میں رہنا مقصود ہے۔ ابھی گرمی کی شدت اور مزاج کی حدّت میں اضافہ ہو گا اور انتخابات کے قریب مزید حالات خراب ہوں گے، الزامات کا لمبا ڈرامہ چلے گا۔ چوہدری نثارکے بیانات میں ہمیشہ ایک ابہام پایا جاتا رہا ہے جو فیصلہ سازی کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمیشہ رازوں کے افشا کرنے کی دھمکی ان کا پسندیدہ بیان رہا ہے مگر اکثر پریس کانفرنسوں میں جب لوگ کوئی چٹ پٹی خبر یا علیحدگی کا فیصلہ سننے کی اُمید لے کر آتے ہیں وہ اگلی تاریخ پر ٹال کر چلے جاتے ہیں۔ تاہم اب 34سال بعدآئندہ دنوں میں رازوں سے پردہ اٹھانے کی بات کر کے انہوں نے پھر بہت سے اہلِ دانش کو متفکر کر دیا ہے۔ کم از کم اُس شخص کو زیب نہیں دیتا جس نے 34سال ساتھ گزارے ہوں۔ بہرحال اگر انہیں ہمیشہ ہی نواز شریف اور مسلم لیگ سے برے سلوک کا سامنا رہا ہے تو انہوں نے اتنا طویل عرصہ ان کے ساتھ کیوں گزارا؟ بہت پہلے اپنا رستہ الگ کیوں نہ کر لیا؟ ایسے میں دوسرے فریق کی نہ جانے کیا رائے ہے مگر غلطی تو ان کی بھی ہے کہ جانتے بوجھتے بقول ان کے اتنے بُرے لوگوں سے نباہ کرتے رہے۔ اس ساری صورت حال میں جمائمہ ایک عظیم عورت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اُس نے طلاق، انگلینڈ میں رہنے کے وعدے پر قائم نہ رہنے اور دیگر اختلافات کے باوجود کبھی عمران خان کے خلاف عوامی سطح پر ایک لفظ نہیں کہا۔ صرف اپنے بیٹوں کے باپ کا احترام نہیں کیا بلکہ پاکستان کے حوالے سے بھی مختلف پلیٹ فارموں پر پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی اور احتجاج کیا، عمران کی دونوں بیویوں کے بارے میں کبھی ناپسندیدہ کلمات نہ کہے نہ ہی انہیں موضوعِ بحث بنایا۔ کاش ہم جو اعلیٰ ضابطوں کی علمبرداری کے دعویٰ دار ہیں ان لوگوں کے عمل میں انسانی قدروں کو دیکھیں اور اپنا محاسبہ کریں۔ یہ ووٹرز کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنما کی تقریر کے دوران ذاتیات پر بات کرنے والوں کا بائیکاٹ کریں اور انہیں سیاسی موضوعات اور آئندہ کے لائحہ عمل پر گفتگو کرنے کی جانب راغب کریں۔ سچی بات یہ ہے کہ اصل طاقت ووٹر کے پاس ہے۔ کبھی رہنما لوگوں کی تربیت کرتے تھے اب ووٹرز کو رہنمائوں کو سیدھے رستے پر لانے کے لئے کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ گالم گلوچ کا سلسلہ بڑھتا جائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)