• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو ادب کا عہد یوسفی ختم، مشتاق یوسفی انتقال کرگئے

اردو ادب کا عہد یوسفی ختم، مشتاق یوسفی انتقال کرگئے

کراچی (اسٹاف رپورٹر)برصغیر کے ممتاز طنز و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی طویل علالت کے بعد بدھ کو مقامی اسپتال میں انتقال کرگئے۔ وہ طویل عرصے سےعلیل تھے انہوں نے 95برس کی عمر پائی ، ان کی نماز جنازہ جمعرات کو بعد نماز ظہر ’’سلطان مسجد‘‘ ڈیفنس میں ادا کی جائے گی۔ مشتاق احمد یوسفی کی وفات سے ’’عہد یوسفی اختتام پذیر ہوا‘‘ مشتاق احمد یوسفی 1923ء کو ہندوستان کی سابق مسلم ریاست ’’ٹونک‘‘ راجستھان میں پیدا ہوئے۔ 1956ء میں یوسفی صاحب پاکستان آگئے اور مقامی بینک میں ملازمت شروع کی اور ترقی کرتے کرتے بینک کے صدر بن گئے۔ مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر 1900ء میں مضمون ’’ضعیف لاغر‘‘سے شروع ہوا۔ جو لاہور سے شائع ہونے والے ادبی جریدے ’’سویرا‘‘ کی زینت بنا۔ اس طرح مختلف رسائل میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے، 1961ء میں مختلف انشائیوں اور مضامین پر مشتمل مجموعہ ’’چراغ تلے‘‘ منظر عام پر آیا، ان کی دیگر کتابوں کے نام خاکم بدہن، زرگزشت، آبِ گم اور شامِ شعریا واں ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ’’ستارہ امتیاز‘‘ اور 2002ء میں ’’ہلال امتیاز‘‘ عطا کیا۔ آرٹس کونسل کے صدر سید محمد احمد شاہ نے تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے ہفتہ 23جون کو منعقد ہونے والی عید ملن پارٹی سمیت تمام پروگرام ملتوی کردیئے ہیں۔ گورنر سندھ ، میئر کراچی نے بھی انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ ان کے سانحہ ارتحال پر اردو کے ممتاز شاعر اور دانشور افتخار عارف نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی، عہد حاضر کے سب سے بڑے نثر نگار تھے، وہ ایک ایسی صدی میں مزاح نگاری کررہے تھے، جب بہت بڑے بڑے نام موجود تھے لیکن یوسفی صاحب ان میں بھی ایک قدآور مزاح نگار کے طور پر ابھرے ، ممتاز شاعر اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد نے کہا ہے کہ اردو دنیا ایک بڑے قلم کار سے محروم ہوگئی، انہوں نے اپنی شگفتہ تحریروں کی وساطت سے تمام زندگی لوگوں کے دلوں پر حکومت کی، معروف ادیب اور مزاح نگار ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے کہا کہ اردو مزاح کی تاریخ میں یوسفی صاحب سے بڑا نثر نگار کوئی اور نہیں، ان کی تحریروں میں گہرائی تھی، اس کی وجہ ان کا مطالعہ تھا۔

تازہ ترین