• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمیشہ ہنسانے والے نے پہلی بار رُلا دیا

ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی دنیا چھوڑ چلے، انہوں نے تقریباً 96 برس کی طویل عمر پائی اور اُن کی صرف پانچ کتابیں شائع ہوئیں، لیکن اُنہوں نے نہ صرف طنز ومزاح بلکہ اردونثر نگاری کو جس معراج پر پہنچایا ،اُسے عالمی ادب کے سامنے فخر کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے۔ ہمہ جہتی اندازعہد جدید کی دین ہے جو معمولی بات میں بھی نت نئے پہلوپیدا کرتا اور تخیل کے بے شمار دروازے وا کرتا ہے ۔یہی خصوصیت مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں میں نظر آتی ہے جوانہیں صرف مزاح نگار ہی نہیں بلکہ آگہی اور بصیرت سے بھر پور ادبی اسلوب کا رمز شناس نثر نگار بناتی ہے ۔انہیں نہایت معمولی سی بات معصومانہ انداز میں بیان کرکےقاری کو چونکا دینا اور اس کے لب مسکراہٹ بکھیرتے ہوئےکچھ سوچنے پر مجبور کردینا خوب آتاتھا ۔ان کی تحریر کردہ کوئی سطر یا لفظی ترکیب ایسی نہیں جو فکر ونظر کو روشن کرکے سوچنے ،مسکرانے ،ہنسنے اورہنستے ہنستے چپ ہوجانے بلکہ بعض اوقات آبدیدہ ہوجانے پر بھی مجبورنہ کرتی ہو، جس کی مثالیں خصوصاً ’’آب گم‘‘ میںملتی ہیں جو ہنسی کےساتھ یاں رونا ہے مثل قلقل مینا کی تفسیر ہیں ۔غر ض کہ ایک ظر افت نگار کی حیثیت سے وہ ایک نیا دبستان تھے اور ان کی تحریریں اردو ادب کی نثر خصوصاً طنزومزاح کی صنف میں اعلیٰ ترین مقام حاصل کرچکی ہیں ۔ تقریباً پون صدی تک اردو ادب کے شائقین کو ہنسانے والا بالآخر اُنھیں روتا چھوڑ گیا، اب دیدار سے زیادہ گفتار کے تاج محل کا آخری دیدار ہوگا۔ زیرنظر مضامین میں اُردو ادب کے ممتاز محقق اور استاد ڈاکٹر رؤف پاریکھ ، معروف براڈکاسٹر، کالم نگار، رضاعلی عابدی اور ادیب، محمدحمید شاہد، مشتاق یوسفی کی یادیں تازہ کررہے ہیں ۔

تازہ ترین