• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام حالات میں اور روز کے معمول کے مطابق خبروں کے لئے ہماری انگلی صرف پاکستانی چینلز تک ہی محدود رہتی ہے لیکن اس دن محاورے والی جلے پاؤں والی بلی کی طرح میں بھی بی بی سی کا رخ کر رہی تھی تو کبھی سی این این اور الجزیرہ کی خبریں کھوجتی پھر رہی تھی۔ مقصد صرف ایک ہی تھا کہ کسی طرح اس طوفان نوح جیسی نازل ہونے والی تباہی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات اور تسلی بخش تفصیلات حاصل ہو سکیں۔ عجب وحشت تھی جو کسی صورت چین نہیں لینے دے رہی تھی۔ تباہی و بربادی کہیں کی بھی ہو انسان کو بری طرح متاثر کرتی ہے لیکن یہاں تو مسئلہ ہی دوسرا تھا۔ ہمارا بڑا بیٹا اپنے کسی صحافتی پروجیکٹ کے سلسلے میں پچھلے دو مہینے سے پورے امریکہ میں ادھر سے ادھر ایک پوری ٹیم کے ساتھ سفر کر رہا تھا اور عین اس تباہ کن طوفان والے دن نیویارک میں موجود تھا۔ صرف چند گھنٹے پہلے اس نے اپنے موبائل سے بات کرتے ہوئے طوفان کی پیشگی وارننگ کی خبر دی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ متوقع طوفان کے پیش نظر ساری سب ویز بند کی جا چکی ہیں اور نیویارک سے جانے اور آنے والی تمام پروازیں بھی کینسل کر دی گئی ہیں اور چونکہ اس کے ساتھ کام کرنے والی ٹیم کے دوسرے ارکان جو کسی دوسری فلائٹ سے آنے والے تھے وہ نہیں پہنچ سکے تھے اس لئے ہم نے اسے مشورہ دیا تھا کہ ہوٹل میں اکیلے پڑے رہنے سے بہتر ہے کہ طوفان سے پہلے پہلے اپنے کسی دوست کے پاس چلے جاؤ (ہمارے بچوں کے اسکول اور کالج کے کئی ساتھی وہاں مقیم ہیں) اور اسے جلدی جلدی رابطے میں رہنے اور کچھ بسکٹ وغیرہ کا بندوبست کرنے کا کہہ کر اور اسے خدا کے سپرد کر کے ہم بے فکر ہو گئے۔
ہمارے بیٹے کا یہ معمول ہے کہ وہ کراچی میں ہو تو روز دن میں دوبار ضرور ٹیلیفون کرتا ہے۔ ایک دن میں کسی وقت اور دوسرا رات کو ہمارے سونے سے پہلے ،دن کا کوئی وقت مقرر نہیں لیکن رات کو سونے کی حد ہم نے بارہ بجے تک مقرر کررکھی ہے۔ اس ڈیڈ لائن کے بعد ماں باپ کو فون کرنے کا مطلب ہے کہ کوئی بہت ہی ضروری مسئلہ ہے اور کراچی سے باہر اور پاکستان کے اندر ہوتے ہوئے دن میں ایک بار ضرور ہی بات ہو جاتی ہے۔ ضرورت محسوس ہو تو دوسری بار بھی بات کر لیتے ہیں۔ خیر سے موجودہ سہولتوں کے صدقے یہ کچھ ایسا مشکل یا مہنگا مسئلہ نہیں رہ گیا لیکن پاکستان سے باہر اوقات کے فرق اور اخراجات کا سوچ کر یہ سلسلہ کسی خاص پیٹرن کا پابند نہیں رہتا پھر بھی دو دن، تین دن میں ایک بار…اور کبھی کبھی روز بھی بات ہو جاتی ہے۔ کیونکہ امریکہ میں بھی ہماری طرح سے ٹیلیفون کے کچھ پیکیج کافی سستے مل جاتے ہیں۔
بہرحال تمہید ذرا لمبی ہو گئی بات تو سینڈی طوفان کی ہو رہی تھی اور آج یعنی جمعہ کی صبح کو اس تباہی وبربادی والی رات کو بیٹے سے بات کئے پانچواں روز ہے۔ آپ ہماری بے چینی اور پریشانی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ مردوں کو خدا نے بڑا حوصلہ دیا وہ دل میں چاہے کتنے ہی پریشان ہوں، زبان سے یا اپنے رویّے سے اس کا برملا اظہار نہیں کرتے لیکن ماؤں کے دل کو صرف مائیں ہی سمجھ سکتی ہیں۔ حالانکہ اچھی طرح پتہ ہے کہ جیسے ہی ممکن ہو گا وہ پہلا کام فون پر رابطہ کرنے کا کرے گا لیکن پھر بھی میں دن میں دو تین بار گھڑی کو دیکھتے ہوئے حساب لگا کر اس کے مناسب وقت کے اعتبار سے اپنے موبائل سے ضرور رابطہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن ہر بار رابطہ نہ ہو سکنے کی ریکارڈنگ سنتی ہوں تو دل بیٹھ جاتا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ فیس بک پر اس کی موجودگی اور امریکہ کے دوسرے شہروں میں رہنے اور اپنے عزیزوں کی مہربانی سے اس کے خیریت سے ہونے کی خبر ہم تک ضرور پہنچ چکی ہے لیکن خود اس پر کیا بیتی اور کیا بیت رہی ہے، اس سے بات کئے بغیر…اور آواز سنے بغیر جاننا مشکل ہے۔
باقی دنیا پر کیا بیتی، اس کی خبریں ٹیلی ویژن کی مہربانی سے پاکستان میں سب کو ہیں لیکن آفت زدہ قرار دیئے گئے نیویارک میں بجلی فیل ہونے کی خبر سن کر پور ی رات نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور رہی۔ بجلی کا جانا ہمارے ہاں تو معمول کی بات ہے لیکن امریکہ جیسے ملک میں پاور بریک ڈاؤن کا مطلب ہے زندگی کا مکمل بریک ڈاؤن۔ اتنی شدت کی سردی میں جب کہ زندگی کا مکمل نظام ہی بجلی کا مرہون منت ہے اور چاروں طرف پانی ہی پانی ہو اور تیز ہواؤں کا شور، وہاں لوگوں پر کیا گزری ہو گی۔ اس کی تفصیل تو اب خیر سے بیٹا ہی بتائے گا۔ خدا اسے اپنے حفظ و امان میں رکھے۔گھر سے دور بغیر کسی پیشگی تیاری کے پتہ نہیں اس کے شب و روز کیسے گزر رہے ہو ں گے۔ دور بیٹھی ہوئی ماں تو صدقے اور منتوں سے ہی اپنے دل کو تسکین دینے کی کوشش کر سکتی ہے ۔ ہاں یہ تسلی ضرور ہے کہ وہ ایک ایسے شہر اور ملک میں ہے جہاں اسٹیٹ اور انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح سمجھتی ہے اور ہر معاملے میں مددگار بھی ہوتی ہے، یہ اور بات ہے کہ کچھ چیزیں خود انسانوں کے اختیار سے بھی باہر ہوتی ہیں۔ جہاں رب دوجہاں یہ احساس دلاتا ہے کہ خود کو عقل کُل سمجھنے والا یہ انسان کتنا بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ کچھ چیزیں البتہ جو ہمارے اختیار میں رہتی ہیں وہ ہمارے اپنے رویّے ہیں۔ اتنی بڑی تباہی اور بربادی کی داستانیں سننے اور دیکھنے کے بعد بھی آپ کوکہیں روتے ہوئے لوگ، بلکتے ہوئے بچے اور فریاد کرتے ہوئے عوام نظر نہیں آئے ہوں گے۔ آپ صرف اندازہ کر سکتے ہیں کہ بعض حالات میں لوگوں پر کیا کچھ بیت گئی ہو گی لیکن دیکھنے کو کیا ملتاہے؟ صرف امیدکی کرنیں یعنی پولیس، انتظامیہ اور رضا کار کس طرح لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کے لئے ان کی مدد کر رہے ہیں۔
لوگوں کی کسمپرسی اور بے چارگی کی خبریں اگر کہیں سے پہنچی بھی تو صرف ہمارے پاکستانی نمائندوں کی زبانی اور پاکستانی اخبارات کے ذریعے سے، ورنہ تو امریکہ کی سیاسی پارٹیاں بھی اپنے اپنے اختلافات بھلا کر مل جل کر لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لئے کوشاں ہو گئی ہیں۔
خدا کرے پاکستان یا کوئی دوسرا ملک ایسے ہولناک طوفان سے کبھی آشنا ہو، جس کی تباہی و بربادی کا اندازہ کئی سو ارب ڈالر تک لگایا گیا ہے اور مرنے والوں کی مجموعی تعداد کا ابھی پوری طرح اندازہ نہیں ہو سکا۔ تفصیلی خبریں ذرا دیر بعد سامنے آتی ہیں۔ کبھی زندگی موت اور مشکلات سے نمٹنے کے رویے بڑی جلدی پتہ چل جاتے ہیں اور یہی قوموں کی مجموعی زندگی کا تعین بھی کرتے ہیں۔
تازہ ترین