• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ جمعہ کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے 16سال سے زیر سماعت اصغر خان کیس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 1990کے انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی عمل کو آلودہ کرنے پر سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی کیخلاف کارروائی کی جائے۔ عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ اس بارے میں تحقیقات کرے اور ثابت ہونے پر سیاستدانوں سے رقوم کو سود سمیت وصول کیا جائے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ 1990کے الیکشن میں ایوان صدر کے ذریعے دھاندلی کر کے سیاسی عمل کو آلود ہ کیا گیا جنرل اسلم بیگ ، جنرل درانی اور یونس حبیب نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایوان صدر میں سیاسی سیل موجود تھا۔ اس فیصلے کے بعدہرکوئی کریڈٹ لینے کی کوشش میں ہے۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ ایئرمارشل(ر) اصغرخان 16سال تک اپنی پٹیشن کے فیصلے کیلئے جدوجہد کرتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے 4سال قبل چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا کہ میری خواہش ہے کہ مقدمہ کا فیصلہ میری زندگی میں ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش تو پوری کر دی اب اس فیصلہ کو حکمران پی پی اپنی سب سے بڑی فتح قرار دے رہی ہے حالانکہ متعدد بار عدالت کے طلب کرنے کے باوجود اس حکومت نے تو متعلقہ دستاویزات جمع نہ کرائیں بلکہ اس کیس میں اپنی لیگل ٹیم کے ذریعے فیصلے میں تاخیری حربے استعمال کیے گئے ۔وہ جیسے وزیراعظم نے اس فیصلہ کے بعد فرمایا کہ تاریخ نے سچ اگل دیا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آنیوالے دنوں میں باقی کا سچ بھی سامنے آجائیگا ۔ بات تاریخ کے سچ اُگلنے اور کریڈٹ لینے کی ہو رہی ہے تو تاریخ کی درستگی کیلئے یہ عرض کرتا چلوں کہ ادارہ جنگ نے سب سے پہلے دستاویزی ثبوتوں کیساتھ ”انتخابات 90ء کا وائٹ پیپر “ نامی کتاب شائع کی جسمیں مختلف طریقوں سے کی جانیوالی دھاندلی کو بے نقاب کیا گیا۔ اصغر خان کو 90سال کے عمر میں اطمینان ہوا کہ الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے انہوں نے 16سال پہلے جو نشاندہی کی تھی وہ درست ثابت ہوئی ۔میں نے 22سال پہلے لکھا تھا کہ ” جس منظم طریقے سے دھاندلی کی گئی ، کسی ایک شخص کو ذمہ دارنہیں ٹھہرایا جا سکتا وہ سب لوگ جو الیکشن کے انعقاد میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہوئے سب ذمہ دار ہیں۔ ان میں ووٹر، ووٹ حاصل کرنیوالے افراد ، الیکشن کمیشن ، نگران حکومتیں، عدالتیں ، بعض حساس ادارے، غیر ملکی طاقتیں، ایجنسیاں اور بیوروکریسی ، پھر سب سے زیادہ مفادات پہلے کی طرح اس دفعہ بھی بیوروکریسی کے تھے“ ۔ کتاب کی اشاعت کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے قومی اسمبلی میں اس کتاب کا حوالہ دیا کہ الیکشن چرائے گئے ہیں۔لیکن مجھے سچ لکھنے کی سزا یہ دی گئی کہ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنرنے طلب کر لیااور تقریباً دس ماہ تک الیکشن کمیشن میں میرے اوپر کیس چلتا رہا۔ اسکے بعد خاموشی ہوگئی۔ آج اللہ تعالیٰ کا پھر شکر گذار ہوں کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے یہ مہر ثبت کر دی کہ 1990 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی۔
اس وقت کے حالات اور آج کے حالات میں بہت فرق آچکا ہے۔ آج تو میڈیا نے طویل جدوجہد کے بعد کچھ آزادی حاصل کی ہے اور اس آزادی کا نتیجہ ہے کہ سازشی کردار بے نقاب ہو رہے ہیں او ر اسی کی مرہون منت آج پاکستان کی تاریخ میں ایک آزاد الیکشن کمیشن قائم ہوگیا اور اس کے چیف شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ بس ہم نے یاد دہانی کے طور پر انہیں یہ عرض کرنا ہے کہ دھاندلی صرف 1990ء کے انتخابات میں ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد آج تک ہونیوالے انتخابات میں مختلف طریقوں سے دھاندلی ہوتی رہی۔ 1990کے انتخابات میں دھاندلی کیلئے جو طریقے اپنائے گئے ان میں مردم شماری، ووٹر لسٹوں میں جعلی ووٹوں کا اندراج، جعلی شناختی کارڈ (اس وقت توکھلے عام جعلی شناختی کارڈ بنانے کی مشینیں لگی ہوئی تھیں)، حلقہ بندیوں میں ہیر پھیر، کاغذات نامزدگی میں دھاندلی، مرضی کی اور جعلی پولنگ اسکیمیں، پولنگ سٹیشن کے عملے کا کردار ، رضا کاروں کی بھرتی (جتنے بھی رضا کار بھرتی کیے گئے وہ آئی جے آئی کے امیدوار وں کی طرف سے تھے)۔ پوسٹل بیلٹ کی دھاندلی، خواتین کے جعلی ووٹ، بیلٹ پر مرضی کی مہریں لگوانا، پیسے کا بے دریغ استعمال، سرکاری مراعات، پولنگ ایجنٹوں کی خریداری، غنڈہ گردی، نتائج کا ضائع کرنا او ر نتائج کے ردبدل میں سب سے گندا کردار بیوروکریسی نے ادا کیا، کوئی بھی نتیجہ ریٹرنگ آفیسر کے پاس جانے سے پہلے متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر کے پاس جاتا اور وہاں سے تبدیلی کے بعد ریٹرنگ آفیسر کااعلان ہونا ۔ اس وقت نگران حکومت غیر جانبدار نہ تھی ۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی ترقیاں کبھی نہ ہوئی تھیں جتنی اُس وقت ہوئیں۔ بیوروکریٹس روئیداد خان اور جلال حیدر زیدی کو مشیر لیاگیا ان دونوں نے مختلف سیاسی قوتوں کو اکٹھا کرنے میں مدد کی اور صوبوں میں بیور وکریسی کے ذریعے مبینہ طور پر یہ پیغام پہنچایا کہ ”یہ بیوروکریسی کی حکومت ہے اور ہم اس کیلئے کام کر رہے ہیں“ میں صرف ایک مثال درج کر رہا ہوں کہ اس وقت کے وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی جو 1988 کے الیکشن میں 41 ہزار 360ووٹوں سے ہار گئے تھے وہ 1990کے الیکشن میں 66ہزار 337ووٹوں سے جیت گئے۔ اس طرح انہوں نے کل ایک لاکھ 7ہزار 69ووٹ لیے۔ عوام کے سوچنے کیلئے صرف یہی کافی ہے کہ کیا 20ماہ کے اندر ایک لاکھ 7ہزار افراد نے اسی امیدوار کو اچھا جان لیا؟ کیسے؟
آج سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اُس وقت قائم کی گئی حکومت قانونی تھی؟ عام آدمی تو سیدھا سا جواب دے گا کہ نہیں۔ دوسرا یہ کہ جن سیاستدانوں نے پیسے وصول کیے اُن سے بمعہ سود واپس لیے جائیں۔ شاید یہ کام مکمل ہو جائے لیکن آثار ایسے ہیں کہ اب اس فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوگا اگر عملدرآمد ہوتا ہے تو پھر کبھی الیکشن نہیں ہونے دیئے جائینگے کیونکہ اس کیس میں ( ر) جنرل اسلم بیگ اور اسد درانی کے جو کردار سامنے آئے ہیں پھر محترمہ بینظیر بھٹو نے ہی جنرل درانی کو جرمنی میں سفیر مقرر کیا تھا اور جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نواز گیا تھا؟ دوسرا یہ کہ گزشتہ چار سال کے واقعات کے تناظر میں ایف آئی اے کسی طرح بھی قابل اعتبار اور غیر جانبدارکردار ادا کرنے کی اہل نہیں رہی اور سیاستدان بڑی آسانی سے اپنے آپ کو کلیئر کرالیں گے۔ اس لئے اب تو الیکشن کمیشن کا ایک بڑا امتحان شروع ہوگیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ شفاف انتخابات کیلئے جن طریقوں سے آج تک دھاندلی ہوتی رہی ہے ان کا سد باب کرے اور ایک خود مختار ادارہ کے طور پر اپنی اتھارٹی منوائے۔ کیونکہ عدالتی فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سربراہ مملکت کی حیثیت مکمل طور پر غیر جانبدارہے اورکسی پارٹی کی جانب میلان یا جھکاؤ ظاہر نہیں ہونا چاہئے۔ مگر اس وقت ملک کے صدر ایک پارٹی کے کوچیئرمین بھی ہیں اور ایوان صدر ہی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہ چیز آئندہ الیکشن میں دھاندلی کی پھر سب سے بڑی وجہ ہوگی۔ بس چور اچکوں سے اس قوم کو نجات دلانے کا یہی ایک راستہ ہے کہ آئین کی دفعہ 62 اور 63پر مکمل طور پر عملدرآمد کروایا جائے۔ اسی طرح ایوان میں آنے کے چور دروازے بند ہو سکتے ہیں اور جمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی ممکن ہو جائیگی۔
تازہ ترین