• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرفردا … راجہ اکبردادخان
پاکستانی ایجنسی’’آئی ایس آئی‘‘ اور بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہان جنرل (ر) اسد درانی اور اے ایس دولت کی مارچ 2018 میں شائع ہوئی کتاب SPY Chornicals RAW-ISI and The illusion of PEACE.چھپتے ہی اتنی اہمیت کر گئی کہ اس میں درج تفصیلات پہ بحث کی خاطر سابق وزیراعظم عباسی کو قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی ضرورت پڑ گئی جس کے اختتام پہ کوئی اعلامیہ جاری نہ ہوسکا۔ اسی طرح کا ایک اجلاس حال ہی میں سابق وزیراعظم محترم نواز شریف کے ایک اخباری بیان’’روزنامہ ڈان‘‘ میں چھپا کے نتیجہ میں بھی ہوا۔ جس کے بعد اعلامیہ میں اس بیان کو قومی سلامتی کونسل نے مسترد کرتے ہوئے غلط قرار دیا۔ وزیراعظم عباسی نے بھی اس موقع پہ یہی موقف اختیار کیا۔ دونوں اجلاس میں اعلیٰ ترین عسکری قیادت اور کئی اہم وزرا بھی موجود تھے۔ اجلاس وزیراعظم عباسی کی صدارت میں ہوئے۔ حال ہی میں وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے محترم نواز شریف کا ایک طویل سیاسی کیریئر ہے اور وہ تین دفعہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ملکی سلامتی اور سیاست کے حوالہ سے انکا مقام تیس سال قبل ریٹائر ہوئے ریٹائرڈ جنرل اسد درانی سے کہیں زیادہ معتبر ہے۔ محترم نواز شریف کا وہ اخباری بیان بھارت کے ساتھ قومی سلامتی ایشوز سے براہ راست جڑا ہوا تھا۔ انہی وجوہات کی بنا پہ قومی سلامتی کونسل نے اسے مسترد کردیا اور وزیراعظم عباسی نے حکومتی حیثیت میں بھی اسے مسترد کیا۔ 300صفحات پہ مشتمل انگریزی میں لکھی مگر جاسوسی زبان میں پہ کتاب 30کے قریب موضوعات پہ محیط ہے جن میں سے 20موضوع مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مختلف ادوار میں ہوئی کوششوں اور Missed Chances کے حوالے سے دو اہم شخصیات کی گفتگو ہے۔ دونوں طویل عرصہ سے قومی سلامتی کے مختلف اداروں سے جڑے رہے ہیں۔ دونوں اپنے بیک گرائونڈ کی وجہ سے ہر بات نپے تلے انداز میں کرتے ہیں۔ اس کتاب کے مندجات کو بنیاد بناکر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلا لینا ایک غیر سیاسی اور غیر دانشمندانہ قدم تھا۔ یہی وجوہات تھیں کہ اجلاس سے نہ تو کوئی اعلامیہ جاری ہوا۔ نہ ہی دیگر سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے کتاب کے مٹیریل کو قابل تبصرہ سمجھا۔ گھر جاتی حکومت کا یہ ایک افسوسناک Parting Shot تھا۔ کتاب ان دو سپائی ماسٹرز کی خوشگوار ماحول میں آسان گفتگو ہے۔ جہاں یہ دونوں حضرات مسئلہ کشمیر پہ ’’ سٹیٹس کو‘‘ کو ختم کرنے کے حوالے سنجیدہ بھی نظر آتے ہیں اور اس حوالے سے کئی دہائیوں پہ پھیلی مختلف کوششوں کی ناکامیوں کو تنقیدی انداز میں دیکھتے ہوئے ہر لمحہ اسی فکر میں ڈوبےنظر آتے ہیں کہ مقوضہ کشمیر کو کس طرح بدل دیا جائے کہ ریاست کے لوگ کھلے عام ایک دوسرے سے مل سکیں۔ تجارت کرسکیں۔ کوئی ان کے ریاستی اور شہری حقوق سلب نہ کرسکے۔ ریاست میں امن لوٹ آئے اور قتل و غارت ختم ہو جائے۔ کیونکہ جاسوس ایجنسیوں کے سربراہ ہر ملک میں اپنے اپ کو ’’بادشاہ گر‘‘ سمجھتے ہیں۔ اور یہ دونوں بھی مختلف نظر نہیں آتے۔ پچھلے پچاس سال میں ہونے والے اہم واقعات کا بالعمومOne Liners میں پیغامات کا سلسلہ بنے ہوئے ہیں۔ دولت کا پس منظر کیونکہ فوجی نہیں ہے۔ اس لئے وہ جنرل درانی سے زیادہ کھلے انداز میں بات کرتا ہے۔ جنرل صاحب محترم کے طرز تکلم میں اتم درجہ کا ٹھہرائو دیکھنے کو ملتا ہے اور ان کی گفتگو میں کہیں بھی بے احتیاطی نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کتاب میں ہر موضوع پر نپی تلی بات کی ہے۔ پاک بھارت تعلقات اور کشمیر کے اندر چلنے والی تحریک سے جڑے کئی پرتشددواقعات پر جنرل موصوف نے کشمیریوں کے موقف کو مضبوط اور دوسروں کو سمجھ آنیوالے انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کتاب کو ’’’ٹریک ٹو‘‘ ڈپلومیسی کا حصہ سمجھنا چاہئے کیونکہ یہ ڈپلومیسی اکثر میڈیا اور غیر حکومتی سیاستدانوں کی نظروں سے اوجھل چلتی رہتی ہے۔ دونوں حکومتوں کے اعلیٰ جاسوس پہلے بھی ملتے رہے اور آئندہ بھی ملتے رہیں گے کتاب میں ذکر ہے ’’کشمیر پہ موجود‘‘’’سٹیٹس کو‘‘ ختم کرنے کیلئے دونوں ریاستوں کے اندر خواہش موجود ہے۔ دونوں بھٹو، سوارن سنگھ مذاکرات کی ناکامی، واجپائی کی لاہور آمد۔ آگرہ میں جنرل (ر) مشرف اور واجپائی ملاقات کی ناکامی۔ کشمیر کے حل کی طرف Missed Oppertunitiesکا نام دیکر اس بات پہ مصر ہیں کہ کشمیریوں اور پاکستان کیلئے Get, What You Can from Bharatاپروچ کو اپنانا ضروری ہے کیونکہ اسی طرح ہی حالات میں بہتریاں ابھر سکیں گی۔ کتاب پاک بھارت تعلقات حوالہ سے واقعات کے گرد زیادہ اور شخصیات کے گرد کم گھومتی ہے۔ مجموعی طور پہ یہ دو اہم افراد کا پاک بھارت امن اور بحوالہ کشمیر ایک حقیقت پسندانہ تبصرہ ہے جو ریاستی اور حکومتی ماحول کے ڈر خوف کے بغیر نیک نیتی سے لکھا گیا ہے۔ اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ بھارت کے اعلیٰ ترین سیاسی حلقوں میں اب یہ پختہ احساس ہوچکا ہے کہ اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا ضروری ہے اور اسے بہتری کی سیڑھی پہ ایک قدم سمجھا جانا چاہئے۔ کتاب میں ’’را‘‘ کے چیف کا بیانیہ بھی ’’کشمیر ہمدرانہ‘‘ ہے جس کا اظہار اس کے کئی مواقع پہ امن کوششوں کی ناکامیوں پہ سامنے آتا ہے۔ دونوں حضرات اپنے حکومتی اثر و رسوخ کے باوجود حقیقی فیصلے کروانے میں اپنی ناکامیوں کا بار بار ذکر کرتے ہیں ۔ کتاب سے ایک اہم بات یہ بھی سامنے آتی ہے۔کہ جنرل(ر) درانی کشمیر کے حل کیلئے Third Optionکو Do able پہلے بھی سمجھتے تھے اور آج بھی سمجھتے ہیں اور کتاب میں پاکستان کی طرف سے اس حوالے سے کوئی منتقی پالیسی اختیار نہ کرنے پہ کئی بار اپنی مایوسی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ Third Option کے Proponantسابق قائد لبریشن فرنٹ امان اللہ خان (مرحوم) کی پرامن قائدانہ صلاحیتوں کے معترف ہیں اور بغیر تحفظات کے اس آپشن کے حامی ہیں۔ دولت کی اس معاملہ پہ خاموشی کو نیم رضا مندی سمجھنا درست ہوگا۔ اگر امان اللہ خان جنرل درانی کیلئے قابل قبول ہیں تو دولت ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ وہ حالیہ سالوں میں بدلے ہوئے حالات میں فاروق عبداللہ کے اس موقف سے بہت متاثر ہے کہ وہ(عبداللہ) بھارتی آئین کے اندر کشمیر کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔ جس سے غالباً ان کی مراد کشمیری معاملات میں زیادہ خود مختاری اور پرانے ریاستی سٹرکچر کی بحالی ہو سکتی ہے۔ دولت جنرل(ر) پرویز مشرف کی کشمیر پہ کئی غیر روایتی پالیسیوں کے بھی مداح ہیں اور ان کے کشمیر پہ چار نکاتی فارمولے کو قابل عمل حل سمجھتے ہیں۔ وہ آگرہ کانفرنس کی ناکامی پہ بہت رنجیدہ نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسے ماحول پاک بھارت تعلقات میں کم ہی بن پاتے ہیں۔ دولت جنرل(ر) درانی کی نسبت زیادہ پر جوش نظرآتے ہیں کہ ریاست کے اندر موجود صورتحال کو بدلنے کیلئے چھوٹے بڑے تمام اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس اپروچ کے بھی بڑے حامی ہیں کہ کشمیریوں کو بھارتی حکومت سے جو رعایت بھی ملے دونوں ہاتھوں سے لے لینی چاہئے، باقی حصے میں بھی ایسے واقعات ہیں۔ جنہیں گلی محلہ کے بیشتر نوجوان اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کتاب پہ قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانا اس معتبر ادارہ اور پاکستان کی کوئی خدمت نہ تھی ۔
تازہ ترین