• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات 2018ء کے امیدواروں کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اثاثوں کی جو تفصیلات جمع کرائی گئیں ان کا خاصا حصہ اگرچہ بعض مبصرین کو امیدواروں کے معیار زندگی اور وقتاً فوفتاً سامنے آنے والی اطلاعات سے مطابقت رکھتا محسوس نہیں ہوتا مگر متعدد امیدوار ماضی کے گوشواروں سے ٹپکتی خستہ حالی اور افلاس کے شکار نہیں معلوم ہوتے۔ماضی میں فراہم کردہ بعض تفصیلات ایسی ہوتی تھیں کہ امیدوار جس چھت کے تلے زندگی گزارتا،جس گاڑی میں سفر کرتا اور جو دیگر سہولتیں استعمال کرتا ہے ان میں سے کوئی بھی اس کی اپنی ملکیت نہیں بلکہ عزیزوں، دوستوں اور قدر دانوں کی بدولت میسر ہیں۔ انتخابات سے قبل اثاثوں کے گوشواروں اور دیگر کوائف کی طلبی کا اصل مقصد یہ ہے کہ رائے دہندگان ان معلومات کو سامنے رکھ کر ان لوگوں کی مالی حیثیت کا تعین کرسکیں جنہیں وہ ووٹ دینے جارہے ہیں تاکہ بعد میں انہی لوگوں کے جو مالی حالات سامنے آئیں ان سے موازنہ کرنے میں آسانی ہو۔ اثاثوں کی درست کیفیت ظاہر کرنے میں اگرچہ امیدوار کو عار نہیں ہونا چاہئے مگر مبصرین کا اندازہ ہے کہ چونکہ ان کوائف سے قومی خزانہ کو ادا کئے گئے ٹیکسوں کے بارے میں تخمینے لگانے میں بھی مدد ملتی ہے اس لئے ماضی میں بعض امیدوار الیکشن کمیشن کو ایسی اطلاعات فراہم کرتے رہے جن کا عوامی حلقوں میں لطیفے کے طور ذکر ہوتا رہا ہے۔ اس بار بھی تجزیہ کاروں کی ایک معقول تعداد گوشواروں میں ظاہر کئے گئے اثاثوں کو محض ضابطے کی کارروائی قرار دے رہی ہے اور تاثر یہ ہے کہ متعدد امیدواروںنے ملک کے اندر اور ملک سے باہر جن اثاثوں کے بارے میں الیکشن کمیشن کو مطلع کیا ہے وہ ایسے اثاثے ہیں جن کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے تاکہ ضرورت کے وقت کام آسکے۔ اس بار اہم شخصیات نے الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے اثاثوں کی جو تفصیلات ظاہر کیں ان کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا بنی گالہ کا گھر 300کنال کا ہے جس کی مالیت 75؍ کروڑ روپے ہے۔ انکے ذرائع آمدن زراعت، بطور رکن قومی اسمبلی تنخواہ اور بینک منافع ہے جبکہ 168؍ ایکڑ زرعی زمین کے مالک اور فارن اکاؤنٹس ہولڈر بھی ہیں۔انہوں نے گزشتہ سال تین لاکھ روپے سے زائد زرعی ٹیکس ادا کیا۔ 2015ء سے لیکر 2018ء تک 28 غیر ملکی دورے کئے جن میں سے زیادہ تر اسپانسرڈ تھے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے 2015ء، 2016ء اور 2017ء میں بالترتیب 19لاکھ، 21لاکھ اور 26لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا۔ آصف علی زرداری بھی 75؍ کروڑ روپے کے مالک ہیں جبکہ جائیداد اس کے علاوہ ہے ، ان کے پاس 349؍ ایکڑ زرعی اراضی ، دبئی میں پراپرٹی ہے جبکہ اسلحہ اور لائیو اسٹاک پر انہوں نے خطیر رقم خرچ کی تاہم وہ ڈیفالٹر نہیں۔ ان کے صاحب زادے بلاول بھٹو زرداری ارب پتی ہیں، ان کے پاس 5؍ کروڑ روپے نقد ہیں تاہم کوئی گاڑی نہیں ، بلاول کے پاس متحدہ عرب امارات کے 2 اقامے ،دبئی میں ویلاز ہیں ،ایک بطور تحفہ ملا جبکہ ایک کے مالک ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد کی صاحب زادی مریم نواز 84کروڑ کی مالک ہیں ان کے پاس 1506 کنال ایک مرلہ زرعی زمین ہے ،5؍ ملز میں شیئر ہولڈر ہیں، وہ 168ایکڑ زرعی زمین کی مالک ہیں، اثاثوں میں انہوں نے 14 جائیدادیں بھی ظاہر کی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال زرعی آمدنی پر 17لاکھ 3 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا۔اس بار متعدد امیدواروں کی فراہم کردہ اثاثوں کی تفصیلات سابقہ گوشواروں کے برعکس حقائق سے قریب محسوس ہونے کی وجہ عوامی شعور کا ادراک ہو یا احتساب کا خوف۔ مناسب یہی ہے کہ اثاثے درست طور پر ہی ظاہر کئے جائیں تاکہ عوام کا نظام پراعتماد بڑھے جبکہ ذرائع معلومات بڑھ جانے کے باعث اب بہت کچھ چھپانا ممکن نہیں۔ انٹرنیٹ کی سہولت کے باعث عام آدمی کے لئے امیدواروں کے کوائف جاننا زیادہ آسان ہوگیا ہے اس لئے اس کی دلچسپی بھی ان گوشواروں میں بہت بڑھ چکی ہے وہ اس باب میں بہتر طور پر تحقیق بھی کرسکتا اور رائے بھی دے سکتا ہے۔

تازہ ترین