اردو ادب میں مزاح نگاری کو ایک نئی جہت عطا کرنے والے مشتاق احمد یوسفی اب ہم میں نہیں رہے۔ کہا جارہا ہے کہ ’’اردو ادب کا عہد یوسفی ختم، مشتاق یوسفی انتقال کرگئے‘‘ بجا کہ خالق دو جہاں کے وعدے کے مطابق ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ بہر طور چکھنا ہے۔ تاہم جسمانی موت خیالات و افکار کوبھی لقمہ اجل بنا دیتی ہے یہ بات غور طلب ہے! اگر ایسا ہوتا تو سقراط سے لیکر غالب تک کب کے فراموش کئے جا چکے ہوتے، یوں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ’’مشتاق یوسفی انتقال کر گئے‘‘ عہد یوسفی موجود ہے اور تب تک رہے گا جب تک پھکڑ پن اور لغومزاح کے بجائے شائستہ اور شگفتہ مزاح پڑھا جاتا رہے گا‘‘ 1921ء میں تولد ہونے والے مشتاق یوسفی کا وطن ٹونک جے پور، راجستھان تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کیا۔ پی سی ایس کا امتحان پاس کر کے 1950ء تک بھارت میں ڈپٹی کمشنر رہے۔ 1950ء میں ہجرت کر کے کراچی آ گئے اور بینکنگ کے شعبہ سے منسک ہوگئے۔ ادبی سفر 1955میں مضمون ’’صنف لاغر‘‘ سے شروع ہوا، سلسلہ چل نکلا، مضامین اور انشایئے جو شائع ہوئے ان کی تالیف سے ان کا پہلا مجموعہ ’’چراغ تلے‘‘ 1961ء میں منظر عام پر آیا، ان کے کل پانچ مجموعے چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آب گم اور شامِ شعرِ یاراں اردو مزاح نگاری کے ماتھے کا جھومر بن کر دمکتے رہیں گے۔ ڈاکٹر فتح پوری نے بجا کہا تھا کہ ہم مزاح نگاری کے عہد یوسفی میں زندہ ہیں اس میں اتنا اضافہ کر لیں کہ عہد یوسفی میں ہی زندہ رہیںگےکہ افتخار عارف نے کہا تھا ’’یوسفی صاحب اور نہ ان کی کتابیں کبھی بوڑھی ہوں گی‘‘ بلاشبہ معیار کو میعاد کا کوئی خوف نہیں ہوتا سو عہد یوسفی کو بھی کوئی دھڑکا نہیں۔ یوسفی مرحوم کو بے شمار ایوارڈز سے بھی نوازا گیا اور حق تو یہ ہے کہ اس سے ان ایوارڈز ہی کی قدر و قیمت بڑھی۔ بہرکیف یوسفی صاحب کے نہ رہنے سے ظرافت نگاری ضرور مضمحل ہوگی، دعا ہے کہ اللہ رب العزت سب کو ہنسانے والے پر رحم فرمائے۔