• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’رپورٹ کارڈ‘‘ کی ریکارڈنگ کے دوران ہی خبر مل گئی کہ مشتاق احمد یوسفی انتقال کرگئے۔ ٹی وی چپ تھا لیکن ٹکرز چل رہے تھے اور میرا دھیان اس ناقابل تلافی نقصان کی طرف تھا جو اردو ادب کے نصیب میں لکھا جاچکا تھا..... عائشہ کے سوال بہت دور سے سنائی دے رہے تھے۔ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے ان کی زندگی میں لکھا ’’ہم اردو مزاح کے عہد ِیوسفی میں جی رہے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر اسلم فرخی کہتے ہیں’’یوسفی کا طرز ِ بیاں سر تا سر ادبیت، ذہانت اوربرجستگی میں ڈوباہوا ہے۔ وہ بات سے بات پیدا نہیں کرتے بلکہ بات خود کو ان سے کہلوا کر ایک طرح کی طمانیت اورافتخار محسوس کرتی ہے۔‘‘ اسی طرح ڈاکٹر احسن فاروقی، ممتاز حسن، ڈاکٹر نور الحسن نقوی جیسے جید لوگوں نے انہیں جی بھر کے خراج تحسین پیش کیا۔ میں کیا، میری بساط کیا۔ ان کے رخصت ہونے پر مجھے عجیب سا خیال آیا کہ آج قہقہہ مر گیا اور مسکراہٹ بیوہ ہوگئی ہے۔ میں کچھ دیر تو ضبط کئے بیٹھا رہا لیکن پھر رہا نہیں گیا۔ عائشہ بخش کا سوال کچھ اور تھا۔ میرا جواب یوسفی صاحب کا انتقال اور قحط الرجال کے آخری باب پر مشتمل تھا۔ ان کا طنز و مزاح یونیک ترین تھا کہ مزاح کے ساتھ ماتم اور طنز دو دھاری تلوار جیسا کہ زخم نہ لگے لیکن خون بہنے کی بجائے سہنے کی حد تک رستا رہے۔ ایسے موقعوں پر محاورہ یہ ہےکہ خلا مدتوں تک پر نہ ہوگا۔ مجھے یقین ہےکہ یہ خلا پر ہو ہی نہیں سکتا۔ یوسفی صاحب کچھ کچھ مشکل تھے کیونکہ انہیں سمجھنے کے لئے اوربہت سی باتوں کی سمجھ بہت ضروری ہے۔ ان کی بے پناہ برجستگی پر مجھے اکثر وہ گورا یاد آجاتا جس نے کہا تھا کہ ’’میری برجستہ تقریر کے پیچھے کئی کئی دن کی تیاری ہوتی ہے۔‘‘ ایسی برجستگی کےلئے اک ایسی مستقل تپسیا کی ضرورت ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔جمعرات کی صبح اخبار دیکھے تو اک اور طرح کا دکھ مرے انتظار میں تھا۔ ہم عجیب لوگ ہیں ہمارے پیمانے اور معیار غریب تر کہ ایک معمولی سا سیاستدان مرجائے تو لیڈیا سپرلیڈ بنتی ہے۔ عظیم ترین ادیب رخصت ہو تو اسے تین کالمی قبر میں اتار کر سمجھتے ہیں جیسے توپ چلا دی ہو۔ اس سے زیادہ لکھنے کی سکت نہیں اس لئے یوسفی صاحب کی آخری مہم ’’شام شعرِیاراں‘‘ سے ایک اقتباس پر اکتفا کروں گا جس میں وہ اپنی اہلیہ مرحومہ کی رخصتی اور اپنی ’’تیاری‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ اس باب کا عنوان ہے۔کہیں اوڑھ چَدریا سجنی گئیکوئی کفنی پہنے راہ تکت ہےکفن پہنے راہ تکتے یوسفی صاحب لکھتے ہیں۔’’کمرے کے ایک کونے میں میری آرام دہ ’’آرم چیئر‘‘ ہے جس پر صبح نو بجے سے رات کے دو بجے تک (تین گھنٹے کا وقفہ برائے لنچ، قیلولہ اور ڈنر) بیٹھا رہتا ہوں۔ دیکھئے پھروہی سوال نہ کیجئے گا کہ 14گھنٹے اس پر بیٹھے کیا کرتے ہو؟یہ کرسی میرا جو گیا مرگ چھالا ہے اوریہی میرا راج سنگھاسن اور تخت طائوس۔ اس کوہر دو معنی میں بوریائے فلاکت بھی کہہ سکتے ہیں۔ چناں چہ مرزا اس کرسی کو میری تصویر کسمپرسی کہتے ہیں۔اس سے تین انچ کےفاصلے پر میرا 6x3فٹ بیڈ ہے جس پر ٹھیک دو بجے زرد چادر اوڑھ کر سونے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میرے بےحد پسندیدہ بسنتی رنگ کی یہ چادر مرحومہ نے بڑے شوق سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے سی تھی۔ ہلکے زرد رنگ کی دوہری چادر میں ہلدی سے بھی زیادہ پیلے رنگ کی اریب گوٹ بڑی کتر بیونت کے بعد لگائی تھی۔ آخری دن دمِ وداع یہی چادر اوڑھے ہوئے تھیں۔ رخسار بھی ہمرنگ چادر ہوچلے تھے۔سب نے کہا، یہ چادر بھی فقیر فقراکو دے دلا دو۔ سومیں نے سب سے اتائولے بائولے سوالی، دھجاداری بیراگی کو یہ کفنی سونپ دی۔ کہیں اوڑھ چَدریا سجنی گئی، کوئی کفنی پہنے راہ تکت ہے۔روبینہ نے جب تیسری دفعہ بھری محفل میں مجھے فہمائش آمیز مشورہ دیا کہ آپ ایک سیکرٹری یا اسسٹنٹ کیوں نہیں رکھ لیتے جو ان کتابوں کو ڈھنگ سے رکھے، ڈسٹنگ کرے، دیکھ ریکھ کرے، کیٹلاگ بنائے، سارا گند، سارا دلدر نکال پھینکے۔ کمرے کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنائے۔’’دلدر کا نصف بدتر حصہ تو میں خود ہوں۔ جی چاہے تو اسے Augean Stables کہہ سکتے ہیں۔ برا نہیں مانوں گا۔ ایک عمر ایسی بھی آتی ہے جب انسان ان نفاستوں، ایسے بکھیڑوں سے لاتعلق اور بے نیاز ہو جاتا ہے۔ یہ عرفان حیات اور روشن ضمیری کی منزل ہے۔‘‘مرزا محفل میں فقرہ پہ فقرہ یوں چست کرتے ہیں جیسے پالی میں اصیل مرغے لڑا رہے ہوں۔ ہمارے فقرے کا پوٹا چیر کے رکھ دیتے ہیں۔ عرفان حیات سے متعلق ہمارا فقرہ شرارتاً ان تک پہنچایاگیا تو پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنسے۔ شام کو ملاقات ہوئی تو اپنے ردعمل کو دہراتے ہوئے فرمایا ’’معاف کرنا Pompous آدمی کی مثال ایک ایسے قوال کی ہے جسے اپنے ہی گانے پر حال آجائےاور مجھ جیسے لوگ پن چبھو چبھو کر دیکھ رہے ہوں کہ ڈھونگ تو نہیں رچارہا۔ تم جسے عرفان حیات کہہ رہے ہو وہ درحقیقت خوف و دہشت ممات ہے اور جسے تم روشن ضمیری سمجھ بیٹھے ہو وہ علامت و ملامت پیری ہے! تم اپنی کوٹھریا کو کتاب محل اورعشرت کدہ کہتے کہتے اب بودھ گیا کہنے لگے ہو۔ اپنے خلجان پر نروان کا دھوکہ ہونے لگا ہے۔‘‘قارئین!اللہ پاک یوسفی صاحب کو جنت میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ اور قارئین کو صبرکہ اس کے علاوہ کوئی رستہ بھی تو نہیں۔’’کہیں اوڑھ چَدریا سجن گیا‘‘

تازہ ترین