• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین اپنے اندر کے خزانے اگلنے لگی ہے اور ہماری سیاست کے چھپے گوشے بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں۔ شاید انہیں ’چھپے گوشے‘ کہنا درست نہ ہو، کیونکہ سیاست دانوں کے لیے دولت کا کھیل بہت پرانا اور سب پر عیاں ہے۔ فصلی بٹیروں کی کہاوت بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی عمر۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستان کو وجود میں آئے چند مہینے بھی نہ گزرے تھے کہ پنجاب کی کابینہ میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی۔ اس وقت افتخار حسین ممدوٹ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے جن کے خلاف میاں ممتاز دولتانہ اور سردار شوکت حیات نے محاذ قائم کر لیا تھا۔ ان دنوں لاکھوں کی تعداد میں بھارت سے مہاجروں کے لُٹے پُٹے قافلے لاہور آ رہے تھے اور والٹن کیمپ میں میلوں تک پھیلے ہوئے تھے۔ قائداعظم والٹن کیمپ تشریف لے گئے اور مہاجرین کی زبوں حالی دیکھی، تو ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپکنے لگے۔ انہوں نے اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ اس نے سر چھپانے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے آزاد وطن عطا کر دیا ہے۔ ان سخت آزمائشوں کے وقت میں بھی سیاست دانوں کے دل نہیں پسیجے جو اقتدار کی جنگ کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔
یہ واقعہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے کہ راتوں رات مسلم لیگ کے بطن سے ری پبلکن پارٹی نے جنم لیا اور اس کے بعد سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ 1956ء کا دستور نافذ ہوا، تو اسکندر مرزا صدارت کے منصب پر فائز ہو گئے اور انہوں نے دو سال کی قلیل مدت میں چار وزیراعظم تبدیل کیے۔ وہ بڑی عیاری سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کا کھیل کھیلتے رہے، مگر آخرکار اپنی ہی چالاکیوں کا شکار ہوئے۔ انہوں نے 8؍اکتوبر 1958ء کی رات مارشل لا نافذ کیا اور جنرل ایوب خاں کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے منصب پر بٹھا دیا۔ بیس روز بعد نصف شب تین جرنیل اُن کے کمرے میں داخل ہوئے، انہوں نے پستول تان کر اُن سے استعفیٰ لیا اور ایوانِ صدر سے نکال باہر کیا۔ بعدازاں وہ لندن روانہ کر دیئے گئے جہاں انہیں ہوٹلوں میں کام کرنا پڑا۔ ملکی مفادات اور اس کے وقار کو ضعف پہنچانے والوں کا آخرکار یہی انجام ہوتا ہے۔
ہماری ستر سالہ تاریخ میں سب سے خطرناک موڑ وہ تھا جب 1970ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے اپنے مخالف ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنز تک آنے ہی نہیں دیا اور جو آئے انہیں ناقابلِ تصور تشدد کا نشانہ بنایا۔ مغربی پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پیپلزپارٹی سے متاثر نوجوانوں اور خواتین نے بڑی تعداد میں جعلی ووٹ بھگتائے۔ ان دنوں شناختی کارڈ تھے نہ فہرستوں میں ووٹروں کی تصویریں چسپاں تھیں جبکہ انتخابی اسٹاف نظریاتی طور پر تقسیم تھا۔ اس تمام تر صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی جماعتوں کے بجائے علاقائی جماعتیں دھاندلی زدہ مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خاں نے اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لیے دونوں علاقائی جماعتوں کے مابین مکالمہ نہ ہونے دیا جس نے فوجی آپریشن اور بعدازاں پاکستانی فوج کی شکست کا سامان پیدا کیا۔ مسٹر بھٹو اقتدار میں آئے، تو انہوں نے ’نئے پاکستان‘ کا نعرہ بلند کیا، قوم کو ایک متفقہ دستور دیا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیادیں رکھیں، مگر وہ 1977ء میں شفاف انتخابات کی ایک اعلیٰ مثال قائم نہ کر سکے۔ اس کے برعکس اپنی جماعت کو دو تہائی اکثریت دلانے کے لیے سرکاری مشینری بے دریغ استعمال کی اور یہی بات اُنہیں تختۂ دار تک لے گئی۔ ان واقعات سے ایک ہی سبق ملتا ہے کہ ہمارے لیے دیانت دارانہ، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں، اس لیے ریاست کے تمام اداروں اور تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کو اس امر کی سرتوڑ کوشش کرنی چاہیے کہ انتخابات کے معاملات میں کسی قسم کی آمیزش نہ ہونے پائے۔
آج سے بتیس روز بعد عام انتخابات منعقد ہوں گے جو اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ ایک ایک قدم سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے اور کسی قسم کا دنگا فساد نہ ہونے پائے۔ شفاف انتخابات کے انعقاد کی آئینی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے جسے نگراں حکومتیں انتظامی معاونت فراہم کرنے کی پابند ہیں، لیکن وہ جس ماحول میں قائم ہوئی ہیں، وہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا۔ مرکزی اور پنجاب کی نگراں حکومتوں میں وزیرِداخلہ وہ اشخاص ہیں جو تحریک انصاف کی سرگرمیوں میں نظر آتے رہے ہیں۔ ہماری زیادہ تر توقعات پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری سے وابستہ ہیں کہ وہ ایک وسیع البنیاد کابینہ تشکیل دیں گے اور اقربا پروری سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں گے، مگر اُن کی کابینہ کے بارے میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ وہ ایک مشہور کلب کے حلقۂ منتظمین پر محیط ہے۔ پھر انہوں نے اپنے بھانجے ضیا رضوی کو خزانے کا قلمدان سونپ دیا ہے جس پر اخبارات میں تنقید ہو رہی ہے۔ انہیں ایک مثالی کردار اَدا کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں گہرے تاریخی شعور سے بہرہ ور کیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تو ہم ایک بہت بڑے حادثے سےبال بال بچے ہیں۔ وہاں دولت کی طاقت سے جناب منظور آفریدی کو نگراں وزیراعلیٰ بنانے پر اتفاق ہو گیا تھا۔ پیسے ہی کی طاقت سے اُن کے بڑے بھائی سینیٹر بنے ہیں۔ منظور آفریدی کی تعیناتی کے خلاف زبردست ردِعمل آیا اور تب وہاں فاضل جج جناب دوست محمد نگراں وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوا۔ سندھ میں ایک ایسے صاحب نگراں وزیراعلیٰ بنے ہیں جو تینوں جماعتوں کے منظورِ نظر ہیں اور مقتدر طاقتوں کو خوش رکھنے کا فن جانتے ہیں۔
انتخابات میں وقت کم رہ گیا ہے، مگر جناب عمران خاں اصل معاملات پر سنجیدگی سے توجہ دینے کے بجائے الزام تراشی کی سیاست کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ کسی قدر آمرانہ طور طریق اختیار کرتے جا رہے ہیں۔انہوں نے نادرا کے چیئرمین سے اس جرم کی بنیاد پر استعفیٰ لینے کا مطالبہ کیا ہے کہ انہوں نے ووٹروں کی فہرستیں بعض لوگوں کو فراہم کی ہیں۔ یہ مطالبہ ایک بھونڈا مذاق معلوم ہوتا ہے کہ ووٹروں کی فہرستیں مہیا کرنا ایک آئینی ذمہ داری ہے۔ وہ یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ پنجاب اور سندھ میں اوپر سے نیچے تک پوری بیورو کریسی تبدیل کر دی جائے اور خیبر پختونخوا کے گورنر جناب ظفراقبال جھگڑا سے بھی استعفیٰ لیا جائے، کیونکہ وہ فاٹا کے معاملات میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور نگراں حکومتوں کو اس پہلو کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے کہ اگر تمام بیوروکریسی اتھل پتھل کر دی گئی، تو لا اینڈ آرڈر کیسے قائم رکھا جا سکے گا۔ نئے آنے والے افسروں اور تھانے داروں کو اپنے اپنے علاقے پر گرفت قائم کرتے کرتے بڑا وقت لگے گا اور سماج دشمن عناصر اور دہشت گردوں کو اس خلا میں اپنے مقاصد پورے کرنے کا موقع مل جائے گا۔ کسی سطح پر تو تسلسل کا اہتمام کرنا ہوگا۔ سنگ دلی کی انتہا یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے ذمہ دار افراد یہ بات برملا کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف اپنی اہلیہ کی علالت کو سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس طرح کی الزام تراشی پر اللہ تعالیٰ اُن سے ناراض ہو سکتے ہیں اور وہ منہ کے بل گر سکتے ہیں۔ فضول باتوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں کو اپنے داخلی معاملات کو درست کرنا اور مستحق اور دیانت دار امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے پر پوری توجہ دینی چاہیے کیونکہ عوام اس بار الیکٹ ایبلز کو شکست دینے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔

تازہ ترین