وطن عزیز میںعام انتخابات قریب آچکے ہیں مگرنیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن (نادرا) کی مجرمانہ غفلت سے انتخابی فہرستوں کا ڈیٹا غیر متعلقہ افراد کے ہاتھ لگنے سے شفاف انتخابات کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے؟ اگر چہ نادرا حکام نے وضاحت کی ہے کہ یہ ڈیٹا صرف ایک انگریزی اخبار میں شائع ہوا ہے ۔لیکن یہ وضاحت ناکافی ہے۔ نادرا جیسے قومی ادارے کی جانب سے انتخابی فہرستوں اور اہم معلومات کا افشا کرنا آئندہ انتخابات پر منفی اثرات ڈالے گا۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے نادرا کے اس غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کی مذمت کی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ ووٹرز کا اہم ڈیٹا لیک ہونا انتہائی تشویش ناک امر ہے اسکی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں اور اس مجرمانہ غفلت پر ملوث افراد کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر کارروائی کی جانی چاہیے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں صاف شفاف انتخابات کروانے کے لئے عملی اقدامات کرے۔ اگر فی الواقع نادرا کی جانب سے کسی سیاسی جماعت کو ووٹرز کا ڈیٹا لیک کرکے معلومات دی گئی ہیں تو یہ الیکشن کے سارے عمل کو مشکوک بنانے کے مترادف ہے۔ تاہم نگران وزیراعظم ناصر الملک کو اس سنگین معاملے کا فوری نوٹس لینا چاہئے۔ کچھ سازشی عناصر چاہتے ہیں کہ آئین سازاداروں میں پہنچنے کے لیے چور لٹیروں، ڈاکو، بھتہ خور اور دیگرجرائم پیشہ افراد کی راہ ہموار ہوجائے، اسلئے وہ مختلف حیلوں بہانوں سے آئین کے آرٹیکل 62اور63کے خلاف سرگرم ہیں۔ جمہوری تسلسل اور سیاسی استحکام کیلئے ملک میں بروقت انتخابات ناگزیر ہیں۔ عام انتخابات میں عوام چوروں اور لٹیروں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے نظام کو مسترد کردیں گے۔ مٹھی بھر اشرافیہ ملک کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، اس سے نجات کا وقت آن پہنچا ہے۔ عوام کے نمائندوں کو باکردار، محب وطن اور بے لوث ہونا چاہئے۔ المیہ ہے کہ ہمیں70برسوں میں محب وطن قیادت میسر نہیں آسکی۔ ایسے لوگوں کو آگے لایا جانا چاہئے جو حقیقی معنوں میں عوام کے نمائندے ہوں اور وہ ذاتی مفادات پر ملکی مفادات کو ترجیح دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اداروں کا تقدس پامال کیا گیا۔ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، لوڈشیڈنگ جیسے سنگین مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ سابقہ حکومت کی کارکردگی صرف کرپشن اور اثاثوں کو بیرون ملک منتقل کرنے اور مفادات سمیٹنے تک ہی محدود رہی جس سے عوام میں شدید مایوسی پھیلی ہے۔ ملکی معاشی ترقی کے راستے میں قرضوں کے پہاڑ کھڑے ہیں چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے اپنے حالیہ ریمارکس میں بجاطور پر درست فرمایا ہے کہ ’ہماری آنے والی پانچ نسلیں بھی مقروض ہوچکی ہیں قرضوں سے نجات کے لئے پوری قوم کو مل کر کام کرنا ہوگا۔‘ امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ہر پاکستانی ایک لاکھ چوبیس ہزار روپے سے زائد کا مقروض ہوچکا ہے۔ حکومتیں بدلتی رہیں مگر عوام کی حالت زار کبھی نہیں بدلی۔ دونوں بڑی جماعتوں کو عوام کے مسائل اور انکے حل سے کوئی غرض نہیں۔ ملک سے غربت کی بجائے غریب مکاؤ پالیسی کو اختیار کئے رکھا۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اعتراف کرچکے ہیں کہ ملک میں غربت کی شرح 29فیصد ہے۔ ایک طرف غریب عوام فاقوں کی بدولت خودکشیوں پر مجبور ہیں تو دوسری طرف حکومتی شاہانہ اخراجات ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے حکمرانوں او ر عوام کو سادگی کا کلچر اپنانا ہوگا۔ ملکی بجٹ کا ایک بڑا حصہ قرضوں پر لگنے والے سود کی مد میں چلا جاتا ہے۔ پاکستان میں کرپشن کے ناسور کو ختم کرنا ازحد ضروری ہے۔
اب کچھ تذکرہ ہو جائے فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف گزشتہ دنوں لاہور میں ہونے والے خصوصی سیمینار کا۔ اسرائیلی فوج مظلوم اور نہتے فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رہی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسرائیل امریکی سرپرستی میں فلسطینی معصوم بچوں، خواتین اور نوجوانوں کو شہید کررہا ہے۔ اسی تناظر میں ملی یکجہتی کونسل پنجاب کے زیر اہتمام (پلاک) قذافی اسٹیڈیم میں ’’بیت المقدس فلسطین کا ہے“ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ متحدہ مجلس عمل کے مرکزی رہنما جناب لیاقت بلوچ سمیت اہم رہنماؤں نے خطاب کیا۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل پنجاب کے صدر اور امیر جماعت اسلامی پنجاب جناب میاں مقصود احمد کا کہنا تھا کہ یہود و ہنود مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں پر جو ظلم وبربریت کی جارہی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ المیہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے علمبردار ممالک اور این جی اوز خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ فلسطین، برما، کشمیر، عراق، شام ہر جگہ مسلمانوں کو شہید کیا جارہا ہے۔ دنیا کو اپنا دہرا معیار بدلنا ہوگا۔ حکومت پاکستان مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے مثبت اور بروقت اقدام کرے۔ عالم اسلام میں بحیثیت ایٹمی قوت پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس لیے یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر عالم اسلام کو متحد کریں۔ امریکہ کی جانب سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنا بہت بڑی سازش ہے۔ بحیثیت امت مسلمہ ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جماعت اسلامی کے رہنما فرید احمد پراچہ کا کہنا تھا کہ فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے مگر اقوام عالم ٹس سے مس نہیں ہو رہیں۔ قبلہ اول اور کشمیر کے آزادی کے لیے تمام اسلای ممالک کو متحد ہونا چاہیے۔ علامہ ثاقب اکبر نے کہا کہ ترکی نے اس مسئلے پر سب سے پہلے آواز بلند کی۔ طیب اردوان کی کاوشوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل پاکستان جو پاکستان کی مذہبی جماعتوں اور اداروں کا باوقار پلیٹ فارم اور اتحاد ہے، ایک عرصے سے ملت اسلامیہ کے اتحاد و وحدت کے لیے مصروف عمل ہے۔ ملی یکجہتی کونسل نے ہمیشہ عالم اسلام میں مسلمانوں کے ساتھ ان کے مسائل پر اظہار یکجہتی کیا ہے۔ آج فلسطینی مسلمان اور القدس عالم اسلام کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں خواجہ معین الدین کوریجہ یوں گویا ہوئے کہ ملی یکجہتی کونسل اپنا دینی فریضہ انجام دے رہی ہے۔ ہمارا آج کا پروگرام مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ہے۔ ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سفارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے اس اہم معاملے کو عالمی سطح پر اٹھائے۔ بیرونی دشمنوں کی سازش ہے کہ امت مسلمہ کو بدحال کرکے اسلام پسندوں کا راستہ روکا جائے۔ ان شاءاللہ وہ کبھی اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ امریکی اشیر باد سے اسرائیل فلسطین اور بھارت کشمیر میں مظالم کررہے ہیں۔ دنیا کو اپنی آنکھوں سے تعصب کی پٹی اتارنا ہوگی۔ دہرے معیارات بدلنے ہوں گے ورنہ دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ جائے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)