• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشتاق احمد یوسفی سے گہری نیاز مندی کا شرف مجھے بھی حاصل ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ میں کراچی جائوں اور اپنے دیرینہ دوست اشرف شاہین یا کسی اور کے ساتھ یوسفی صاحب کی طرف نہ جائوں۔ چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ اشرف شاہین جب لاہور ہوتا تھا شاہین اس کے نام کا حصہ تھا مگر جب سے کراچی گیا ہے، وہ اپنے نام کے ساتھ شاہین نہیں لکھتا، میاں لکھا کرو، شناختی کارڈ میں جنس کے خانے میں کبھی دیکھا ہے کہ کسی نام نہاد مرد نے بھی خود کو مرد نہ لکھا ہو، تم تو لاہور میں بھی شاہین تھے، کراچی میں بھی شاہین ہی ہو۔ چلو تمہاری خبر کبھی بعد میں لوں گا، میں یوسفی صاحب کے بارے میں اظہارِ خیال کر لوں، مگر میرے دوست مجھ سے یہ توقع بالکل نہ رکھیں کہ میں ان کی وفات کے حوالے سے رونے رلانے کے موڈ میں ہوں۔ یہ موڈ مجھ پر تب طاری ہوتا اگر وہ اپنی کتابیں بھی ساتھ لے گئے ہوتے، ان کی کتابیں یعنی وہ تو آج بھی میرے ساتھ ہیں، جب چاہوں ان سے مل لوں۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ اب ہم عہد یوسفی میں نہیں رہے، لا حول ولا، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ان کا عہد ان کے خاکی وجود تک ہی تھا، وہ گئے تو اپنا عہد بھی ساتھ لے گئے۔ ہمارے پنجاب کے بعض دیہات میں ایک عجیب و غریب رسم ہے اور وہ یہ کہ جب کوئی بزرگ طویل العمری کے ساتھ بھرپور زندگی گزارتا ہے تو اس کی وفات پر بینڈ باجے بجائے جاتے ہیں اور اس کے ورثا میت کے آگے بھنگڑے ڈالتے ہوئے اسے قبرستان تک لے کر جاتے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی نے 97برس ہمارے ساتھ گزارے اور ہنستے ہنساتے رہے، مگر ان کے ہنسانے اور میرے ایسے کے ہنسانے میں بہت فرق تھا، ان کی مزاحیہ تحریر میں گہری معنویت ہوتی تھی۔ میں پہلے دن سے ان کا قاری تھا مگر عاشق ’’آبِ گم‘‘ پڑھ کر ہوا۔ جب میں نے ان کی یہ کتاب پڑھی تو کچھ سمجھ نہیں آئی کہ اسے ادب کے کس خانے میں رکھوں، کیا یہ سرگزشت ہے، کیا یہ محض طنز و مزاح ہے، کیا یہ خاکوں کی کتاب ہے، کیا یہ کوئی ناول ہے اور یا یہ کسی مفکر کی تحریر ہے جو کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرتا رہتا ہے کیونکہ ’’آبِ گم‘‘ میں ان تمام اصناف کے اجزا موجود تھے۔ میں اس وقت بھی حیرت زدہ رہ گیا جب میں نے کراچی کے پسماندہ ترین علاقوں کی تصویر کشی اس میں دیکھی، لگتا تھا کہ یوسفی صاحب نے ساری عمر شاید انہیں جگہوں میں بسر کی ہے جن میں دروازوں کی جگہ ٹاٹ کے ٹکڑے لٹکائے گئے ہوتے ہیں۔ مجھے اس حیرت کا سامنا قراۃ العین کو پڑھتے ہوئے بھی ہوا تھا، ایک بڑا ادیب ہر طرح کی زندگی بغیر تجربے کے گزارنے کا اہل ہوتا ہے۔
یوسفی صاحب کو لاہور سے بہت محبت تھی۔ وہ میرے ساتھ یہاں بھی ایسی ایسی جگہوں میں گئے جہاں میں انہیں لے جانے سے کتراتا تھا مگر ایک دن عزیر کی فرمائش پر وہ گڑھی شاہو میں ’’حافظ جوس کارنر‘‘ گئے اور ہم نے باہر ایک بنچ پر بیٹھ کر انار کا جوس پیا۔ مجھے یوسفی صاحب کے اس دنیا سے رخصت ہونے کا دکھ ان کے جسد خاکی کے نظروں سے دور ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ ہمارے ادبی گھرانے میں اب فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، پطرس بخاری، انتظار حسین، اشفاق احمد، مختار مسعود، عبداللہ حسین، احمد فراز، ابن انشاء، ن۔ م۔ راشد، مجید امجد، ممتاز مفتی، جوش ملیح آبادی اور قدرت اللہ شہاب کے علاوہ اور کتنے ہی مشاہیر چلتے پھرتے نظر نہیں آئیں گے۔ ان کے دم سے ہمارے آنگن کی رونقیں قائم تھیں۔ اب ہم ان کی کتابوں کو سینے سے لگائیں گے، ان سے سینہ نہیں ملا سکیں گے۔ یہ لوگ صرف ادیب نہیں تھے، یہ ایک تہذیب کے وارث بھی تھے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا ماضی قریب میں یوسفی صاحب اور انتظار صاحب سے ملنے اگر ان کے گھر گیا ہوں تو وہ باہر گاڑی تک چھوڑنے نہ آئے ہوں اور گاڑی چلنے تک وہاں کھڑے نہ رہے ہوں۔ یہ لوگ ادب میں نئے آنے والوں کو خوشدلی سے خوش آمدید کہتے تھے۔ اب ہمارے پاس لاہور میں ظفر اقبال ہی رہ گئے ہیں مگر ان کے ہونہار تخلیقی فرزند آفتاب اقبال انہیں شہر سے کوسوں دور اپنے فارم ہائوس میں لے گئے ہیں۔ ہر شخص کے لئے کوئی نہ کوئی خوشی ایسی ہوتی ہے جو اسے سب خوشیوں سے عزیز ہوتی ہے۔ مجھے یقیناً اس بات پر فخر ہے کہ مجھے صدرِ پاکستان کی طرف سے تمغۂ امتیاز، پرائیڈ آف پرفارمنس، ستارئہ امتیاز اور ہلالِ امتیاز ایسے اعلیٰ ترین ایوارڈ میری مزاح نگاری پر مل چکے ہیں، مگر مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوئی تھی جب ایک دن فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف یوسفی صاحب تھے جو مجلس فروغ اردو ادب قطر کی ایوارڈ کمیٹی کی پاکستانی شاخ کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے یہ فون مجھے یہ بتانے کے لئے کیا تھا کہ کمیٹی نے اس سال کے ایوارڈ کے لئے آپ کا نام فائنل کیا ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے دیں کہ مجھے کچھ دیر کے لئے لگا جیسے میں خواب دیکھ رہا ہوں کیونکہ اس سے پہلے یہ ایوارڈ ان صاحبانِ قلم کو ملا تھا جن سے ہم نے لکھنا سیکھا تھا۔
یوسفی صاحب صرف کتابوں ہی میں نہیں، اپنی گفتگوئوں میں بھی پھلجھڑیاں چھوڑتے تھے۔ وہ اگر میں لکھنے بیٹھ جائوں تو یہ ایک کالم میں نہیں کسی کتاب ہی میں سما سکتے ہیں۔ میں چلتے چلتے کراچی آرٹس کونسل کے ’’مستقل‘‘ مدار المہارم احمد شاہ کو خراجِ تحسین اور شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی دلنواز شخصیت کے سبب یوسفی صاحب کو اس سال بھی اپنی سالانہ ادبی کانفرنس میں لانے میں کامیاب ہو گئے اور یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی تاہم تحریروں سے ملاقات کا سلسلہ جاری ہے، چلیں آخر میں آپ کی ملاقات بھی یوسفی صاحب سے کرائے دیتا ہوں۔
مونگ پھلی اور آوارگی میں خرابی یہ ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کر دے تو سمجھ میں نہیں آتا، ختم کیسے کرے۔
دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ نہ آئے، تو دوگنا مزا آتا ہے۔
جس بات کو کہنے والا اور سننے والا دونوں ہی جھوٹ سمجھیں، اس کا گناہ نہیں ہوتا۔
انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔
خدا جانے حکومت آلو کو بزورِ قانون قومی غذا بنانے سے کیوں ڈرتی ہے، زنانہ لباس کی طرح یعنی برائے نام۔
صاف اِدھر سے نظر آتا ہے اُدھر کا پہلو
مسلمان کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کر کے کھا نہ سکیں۔
محبت اندھی ہوتی ہے چنانچہ عورت کیلئے خوبصورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہے۔
گالی، گنتی، سرگوشی اور گندہ لطیفہ اپنی مادری زبان ہی میں مزا دیتا ہے۔
انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر اپنے دل میں رکھتاہے۔
بدصورت انگریز عورت نایاب ہے، بڑی مشکل سے نظر آتی ہے، یعنی ہزار میں سے ایک۔ پاکستانی اور ہندوستانی اسی سے شادی کرتا ہے۔
تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، مداری کی ڈگڈگی سے نہیں۔
یورپین فرنیچر صرف بیٹھنے کے لئے ہوتا ہے جبکہ ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہی نہیں، جس پر لیٹا نہ جا سکے۔
بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔
پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔
لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت اور دوسری طرف سے مرد آ رہا ہو تو نکاح کے علاوہ گنجائش ہی کوئی نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین