• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیدائش جے پور کی تھی ، درس گاہ علی گڑھ یوینورسٹی رہی، تعلیم فلسفے کی حاصل کی، لگے ہاتھوں ایل ایل بی بھی کر لیا، پہلی ملازمت ڈپٹی کمشنری ٹھہری، روزگار بینکاری کے شعبے سے پایا، پاکستان کے چار بڑے بینکوں کے صدر رہے اور پھر بینکنگ کونسل کے چیئرمین بھی بنے، جثہ دھان پان سا، قد ساڑھے پانچ فٹ سے بھی نکلتا ہوا اور رنگت ایسی کہ کبھی خود پر فخر کی نوبت نہیں آئی۔ فارغ البال تھے لہذا منہ دھونے میں بہت وقت اور رقبہ صرف ہوتا تھا۔ آواز ایسی کہ خود کو بھی سرگوشی معلوم پڑتی تھی، لہجہ لیکن ایسا تیکھا کہ کاٹ دور تک جاتی تھی۔ یہ ہے حضرت یوسفی کی ذات گرامی کا خلاصہ۔ اس سوانح عمری کو پڑھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص مزاح کا ایسا شہسوار نکلے گا کہ جس پر اردو فکاہیہ ادب تو کیا موقوف سارا اردو ادب ہمیشہ ناز کرے گا۔
یہ بات پرانی ہو گئی کہ ہم اردو ادب کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں اب محاورہ کچھ یوں درست بیٹھتا ہے کہ اردو ادب یوسفی کے آغوش میں جی رہا تھا۔ جس محنت سے یوسفی نے مزاحیہ نثر کی پرواخت کی اس محنت سے تو آج کل کوئی اولاد کی پرورش نہیں کرتا ۔ ایک ایک لفظ موتیوں میں پرویا ہوا، گلابوں میں سمویا ہوا، آب زم زم سے دھویا ہوا۔ یوسفی نے ترکے میں پانچ کتابیں چھوڑی ہیں۔ یہی ترکہ ورثہ ہے اردو کا ، یہی پانچ کتابیں آبرو ہیں اس زبان کی۔
یوسفی اپنے فن میں اتنے غرق تھے انہیں اپنے آپ پر فخر کرنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ جہاں موقع دیکھتے اپنی ہی بھد اڑاتے، خود پر طنز کے تیر چلاتے، جی بھر کر اپنا مذاق اڑاتے۔
یوسفی کی تحریروں میں اصلاحی پیغامات کی شدت سے کمی ہے، ناصح کے بہروپ کی طرف انکی طبیعت ہی نہیں آتی۔ قوم کو راہ راست پر لانے کا بیڑا انہوں نے کبھی نہیں اٹھایا، صراط مستقیم پر چلنے کی تلقین کی بھی کوئی روایت نہیں ملتی۔ وہ تو کہتے ہیں کہ " اگر برا کام بھی میانہ روی سے کرنا ہے تو اس سے بہتر ہے آدمی کوئی نیکی کر لے"۔ یوسفی کی زنبیل میں جو تیرتھے وہ طنز کے زہر میں بجھے ہوئے تھے، شگفتگی کی کمان پر تنے ہوئے تھے، مزاح کی مچان پر ڈٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے اصلاح احوال کے روایتی نسخے پیش کرنے سے بہتر اس بات کو جانا کہ ہنسا جائے، خوب ہنسا جائے،اپنے آپ پر ہنسا جائے، اپنے جذبات پر ہنسا جائے، اپنے حالات پر ہنسا جائے ۔
لفظ کو برتنے کا جو ہنر یوسفی کو تفویض ہوا تھا اسکے پیچھے محنت شاقہ کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ برکت تو ودیعت ہوتی ہے،اس میں کمال کسب نہیں ہوتا یہ جمال یار کی عطا ہوتی ہے۔ اردو فکاہیہ نثر پر نظر ڈالیں تو کیا ، کیا ستارے نظر آتے ہیں،شفیق الرحمان ، کرنل محمد خان، پطرس بخاری اورابن انشا کی کہکشاں میں یوسفی چاند کی مانند تھے سب ستارے انکی کشش میں انکے ہی گرد گردش کرتے تھے۔ اس لئے کہ انکے ہاں شفیق الرحمٰن کا بانکپن بھی تھا، کرنل محمد خان کی ذہانت بھی، پطرس کی کاٹ بھی اور ابن انشاکی برجستگی بھی۔ یوسفی سی مکمل تحریر کب کسی اور کا نصیب بنی ہے۔
عام زندگی میں یوسفی اپنی تحریر سے مختلف تھے ۔ بات بات پر جملہ نہیں کہتے تھے۔ ملاحت سے بات کرتے تھے ، حلم سے جواب دیتے تھے ، مخاطب کو توجہ دیتے تھے، انکسار سے ملتے تھے۔ لیکن یہ کیفیت ابتدائی ہوتی تھی ذرا معاملات بے تکلفی کی جانب بڑھے تو اچانک ایک پھلجھڑی سی چلتی اور محفل قہقہوں سے روشن ہو جاتی۔ سنجیدہ بات جلدی سے کرتے اور اس پر غور فکر کو موقع بھی نہ دیتے تھے۔ بس اس لمحے سے برق رفتاری سے آگے گزر جاتے تھے ۔ شاید اس لئے کہ آگے مزاح کے توشہ دان میں کہیں نعمتیں تقسیم کرنے کو دھری ہوتی تھیں۔ وہ کب اپنے مہمانوں کو ان نعمتوں سے محروم رکھتے تھے۔ میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہی دنوں ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا تھا اور یوسفی صاحب نے گھر سے نکلنا ترک کر دیا تھا۔ نصف صدی کا ساتھ تھا۔ بات محبت کی تھی۔ احترام لازم تھا ۔ کہنے لگے " جب سے میری اہلیہ کا انتقال ہوا ہے اب میں بستر پر نہیں سوتا ، زمین پر لیٹتا ہوں۔ اب زیادہ دوری برداشت نہیں ہوتی۔ جملہ ایسا تھا کہ محفل کا رنگ ہی بدل گیا۔ قہقہے سناٹے میں بدل گئے۔ یہ کیفیت یوسفی کو برداشت نہیں تھی۔ غیر متبسم چہرے انہیں گوارہ نہیں تھے ۔ اسی جملے کی روانی میں کہنے لگے" اب لوگ کہتے ہیں گھر سے نکلا کریں ۔ جو مجھے یہ کہتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہاں جائوں کوئی پتا بھی بتا دیں اور ہاں، فون نمبر بھی دے دیں تو عنایت ہو گی” بات پھر قہقہے پر ہی ختم ہوئی۔ یوں لگتا یوسفی اپنے غم کا " دف " بھی اپنے آپ پر کسے جملے سے ہی مارتے تھے۔
اسلام آباد کی ایک تقریب میں یوسفی صاحب مہمان خصوصی تھے۔ مہان خصوصی کے استقبال کے لئے ایک سابق پولیس افیسر نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ پولیس آفیسر شاید یوسفی کو بہت سینئر آفیسر سمجھے۔ انہوں تعریف کے ضمن میںتمام حدیں پار کر لیں۔ مبالغہ اور غلو اس قدر عروج پر تھا کہ عشاق یوسفی بھی جھینپ جھینپ دانتوں تلے ہنسی کو دباتے رہے۔ اس خطبہ استقبالیہ کے بعد جب یوسفی کو اسٹیج پر دعوت دی گئی تو نہایت انکسار سے گویا ہوئے " بھیا ہمارے ہاں زندہ افراد کی اتنی تعریف کی روایت نہیں البتہ مجھے آپ کی جلد بازی پر حیرت ضرور ہے۔"
اپنی بڑائی کے قصے، اپنی عظمت کی کہانیاں ، اپنی ذہانت کے ثبوت یوسفی نے نہ کبھی گفتگو میں پیش کئے نہ انکی تحریر میں کہیں ایسا شائبہ ملتا ہے۔ انکسار انکی شخصیت کا بنیادی وصف تھا اور یہی کیفیت انکی تحریر میں بھی نمایاں نظر آتی تھی۔ انکے کردار بھی سپر مین بننے سے اجتناب کرتے تھے۔ عام سے لوگ تھے، عام سی زندگی گزارتے تھے مگر یوسفی عام آدمی کی کجیوں ، کمیوں، لاپروائیوں اور آوارہ گردیوں سے ایسے ایسے مزاح پارے تراشتے تھے کہ قاری کتاب کے اور صاحب کتاب کےعشق میں مبتلا ہو جاتا تھا اور اردو سے محبت کرنے والا جو ایک دفعہ عشق یوسفی میں گرفتار ہوا وہ اس کے سحر میں تمام عمر رہتا ہے۔ اس کے کرداروں میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کے مکالموں پر تنہائی میں بھی ہنستا ہے۔ قہقہوں کی دنیا میں حیات کو جاوداں کرتا ہے۔
فنکار کا کمال یہ ہے اپنے فن میں خوب محنت کرے مگر جب وہ فن قاری / ناظر کے سامنے پیش ہو تو اس میں محنت تو نظر آئے مگر یبوسیت کی کیفیت نہ ملے، مشقت نہ نظرآئے۔ یہی یوسفی کا کمال ہے۔ اپنی تحریر میں جابجا اردو ، فارسی ، عربی ، انگلش اور فرنچ ادب کا تڑکہ لگاتے ہوئے بھی انکی تحریر کی برجستگی قائم رہتی ہے۔ جملہ کاٹ رکھتا ہے۔ مفہوم بھی ادا ہو جاتا ہے اور قہقہہ بھی قضا نہیں ہوتا۔اب یو سفی نہیں رہے۔ اردو ادب کا ایک باب ختم ہوا۔ افتخار اردو رخصت ہوا۔ فکاہیہ نثر کا دروازہ بند ہوا۔ ان سا لکھنے والا نہ تخت اردو پر پہلے کوئی براجمان ہوا ہے نہ پھر کسی کو یہ سعادت نصیب ہو گی اب سمجھ نہیں آتی کہ انکے انتقال پر ہنسا جائے کہ رویا جائے ۔ ہنسا اس لئے نہیں جا سکتا کہ اب اردو میں ایسا مزاح نگار کوئی اور نہ ہوگا۔ فکاہیہ ادب کا اک قرینہ دفن ہوا۔ ایسے حال پر کیسے کوئی ہنس سکتا ہے اور مرگ یوسفی پہ رویا اس لئےنہیں جا سکتا کہ چشم نم کی یوسفی کے ہاں ممانعت ہے۔ آنسوئوں کو قہقہوں میں بدلنے کی ہمیشہ تلقین کی ہے۔ ماتم کی کیفیت سے انکار ہے۔ الم کے اظہار کی مناہی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں عشق یوسفی میں مبتلا لوگ اس مرحلے میں کہاں جائیں ۔ روئیں یا پھر قہقہے لگاتے، لگاتے مر جائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین