• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عید قربان پر چھٹی تھی اور اخبار بند تھا سو ایک کالم قربان ہو گیا، مگر لگتا ہے قربانی ضائع نہیں گئی کیونکہ اس دوران اتنا مواد ہاتھ آیا ہے کہ چار کالم بھی لکھے جائیں تو ختم نہ ہوں۔ سو شروع امریکہ کے طوفان سینڈی سے جس نے صدر اوباما کو ایک ایسا شاندار موقع فراہم کیا اپنے مخالف مٹ رومنی کو لاجواب کرنے کا کہ سب عش عش کر اٹھے۔ اوباما سب کام چھوڑ کر نیو جرسی میں اپنے حریف پارٹی کے گورنر کے ساتھ سینڈی کے متاثرین کو مدد دینے میں ایسے جت گئے کہ گورنر کو کئی دفعہ دل سے تعریف کرنا پڑی اور رومنی صاحب ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اگر ایسا طوفان پاکستان میں آتا تو ہمارے لیڈر حضرات کیا کرتے۔ کئی جواب ہو سکتے ہیں مثلاً وزیراعظم سوٹ اور ٹائی پہن کر اپنے سرکاری گھر کے ایک کونے میں متاثرین میں امداد تقسیم کرتے نظر آتے۔ صدر صاحب کو کسی ضروری میٹنگ کیلئے پیرس یا آذربائیجان جانا پڑ جاتا اور باقی لوگ امداد کی اپیلیں کرتے یا فون پر خطاب کرتے نہ تھکتے۔
امریکہ میں تو سینڈی پر قابو پا لیا گیا اور کوئی شکایت کرتا نظر نہیں آ رہا مگر پاکستان میں بہت سے چھوٹے بڑے سینڈی یا سُنڈی نام کے طوفان ہر طرف بڑھ رہے ہیں مثلاً ان دنوں میں میری تین اہم شخصیات سے کافی تفصیل سے بات ہوئی اور جو تجزیہ میں نے کیا وہ ابھی آگے چل کر پیش کروں گا۔ کس نے کیا کہا یہ تو شاید نہ لکھ سکوں لیکن جناب عمران خان، جناب فخر الدین جی ابراہیم اور جناب شعیب سڈل سے جو مکالمہ رہا وہ معنی خیز بھی تھا اور آنے والے دنوں میں جو سینڈی آنے والے ہیں ان کی نشاندہی بھی کر گیا، مگر پہلے یہ خبر کہ 9 نومبر کو سپریم کورٹ کے دیئے گئے 30 دن پورے ہو جائیں گے اور حکومت کو وہ رسید پیش کرنی ہو گی جس میں سوئس حکومت کو صدر زرداری کے کیس کھولنے کا خط اور اس کے موصول ہونے کا ثبوت دینا ہے۔ آج 5 نومبر ہے اور ہماری دفتر خارجہ کی خصوصی نمائندہ ماریانہ بابر کے مطابق ابھی تک وزارت قانون نے دفتر خارجہ سے کوئی رابطہ ہی نہیں کیا ہے یعنی 25 دن تک تو جناب وزیراعظم اور وزیر قانون کی طرف سے مکمل خاموشی رہی ہے جبکہ عدالت عالیہ میں یہ کہا گیا تھا کہ 30 دن خط بھیجنے اور رسید لینے میں لگ جائیں گے۔ اب یا تو بقایا 5 دن میں سارا کام مکمل کیا جائے گا ورنہ 30 دن کی مدت بھی گزر جائے گی اور پھر کوئی عذر لنگ پیش کیا جائے گا۔ دونوں صورتوں میں حکومت کی نیک نیتی مشکوک نظر آئے گی۔ اگر یہ کام 5 دن میں ہو سکتا تھا تو30 دن کیوں مانگے گئے اور 25 دن تک خط لکھنے کے سلسلے میں پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا حالانکہ خط کے مسودے پر عدالت اور حکومت کا اتفاق ہو چکا ہے یعنی دال میں کچھ کالا ضرور ہے یا پھر دال ہی جل کر کالی ہو گئی ہے۔ اس خط کا سارا ملبہ ظاہر ہے وزیراعظم پر ہی گرے گا یا نائیک صاحب کو عدالت عالیہ کھل نائیک قرار دے دے، لیکن وزیراعظم ایک اور سینڈی سے ذرا مشکل ہی سے بچ سکیں گے۔ میری اطلاع ہے کہ اسلام آباد کا ایک پلازہ جو 1988ء میں بک گیا تھا اور اس کے مالکوں نےCDA کے کوئی 20 لاکھ 60 ہزار روپے ادا نہیں کئے یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کے دروازے تک پہنچ گیا ہے۔ تفصیلات ابھی آ رہی ہیں اگر یہ خبر واقعی سچ ہے تو پھر گوجر خان سے تعلق رکھنے والے منتخب حکمران کو اس کا حساب بھی دینا ہو گا۔
یہ چھوٹے چھوٹے طوفان تو آگے بڑھ ہی رہے ہیں مگر جن باتوں پر تمام اہم لوگوں کی نظر ہے وہ بھی قابل غور ہیں مثلاً جب ایک ہفتہ میں تین ہیوی ویٹ لوگوں سے میری بات ہوئی جن کے نام میں نے اوپر لکھ دیئے ہیں تو صورتحال یہ نکلی کہ الیکشن کمیشن کو مضبوط اور موثر کرنے پر زیادہ زور ہے اور فخرو بھائی کو کچھ نئی وٹامن کی گولیاں پیش کی جا سکتی ہیں تاکہ لوگوں کا اعتماد قائم ہو اور وہ بڑے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنے کے قابل ہو سکیں۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات تو ہیں مگر فخرو بھائی ابھی فرنٹ فوٹ پر کھیلنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں عمران خان صاحب سے ان کی ایک طویل ملاقات جلد ہی ہونے والی ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ ان کو یقین دلائیں گے کہ اگر ضروری ہوا تو ان کے حق میں لاکھوں کا مجمع اسلام آباد میں مظاہرہ کرنے کو آ جائے گا، اس لئے کسی بڑے یا چھوٹے چوہے یا مگرمچھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سب حضرات کے ذہن میں جو دوسرا چبھتا ہوا نکتہ ہے وہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی ہے جو ابھی تو بڑے بڑے ایوانوں میں پناہ لئے بیٹھے ہیں لیکن ان کے خلاف اتنے اربوں اور کھربوں کے کیس تیار ہیں کہ اگلی حکومتیں ہاتھ ملتی رہ جائیں گی اگر وہ راہ فرار لے کر غیر ممالک میں گم ہو گئے۔ سو میں یہ بات اب وثوق سے لکھ سکتا ہوں کہ کئی اہم اور بڑے پاور سینٹرز میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث ہوئی ہے کہ کم از کم چند کانٹے کے لوگوں کو بھاگنے سے پہلے روک لیا جائے۔ اس پر کسی کی رائے مختلف نہیں لیکن طریقہ کار پر غور جاری ہے اور جلد ہی اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ لگتا ہے جناب نواز شریف کو بھی اس کی بھنک پڑ گئی ہے اور وہ بھی زورشور سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ چوروں کو بھاگنے نہ دیا جائے۔ عمران خان بھی جلد ہی اس موضوع پر توجہ دینے والے ہیں اور عدالتیں تو پہلے ہی اتنی مصروف ہیں کہ کئی دنوں سے ہر اخبار کے صفحہ اول پر سوائے عدالتی احکامات اور جج حضرات کے جملوں کے سوا اہم خبروں کی جگہ کم ہی نظر آتی ہے۔حکومت کا ان سب چھوٹے بڑے سینڈی یا سُنڈی طوفانوں سے نمٹنے کا کیا پلان ہے، کچھ واضح نہیں۔ بیانات کا تجزیہ کریں تو ہنسی آتی ہے۔ مثلاً عدالت عالیہ نے دوبارہ کراچی میں کیس شروع کیا تو صدر مملکت کے ترجمان نے فرمایا کہ زرداری صاحب نے کراچی کی صورت حال کا نوٹس لے لیا ہے اور پولیس کے آئی جی کو جھاڑ پلا دی ہے کہ جاؤ کچھ کر کے دکھاؤ، باتیں مت بناؤ۔ اگر زرداری صاحب نے اب تک جتنے نوٹس لئے ہیں انہیں جمع کیا جائے تو ایوان صدر کا ایک بڑا حصہ ردی کی ٹوکریوں سے بھر جائے گا یا اگر مشیر تیل جنہوں نے پوری قوم کا تیل نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، فرماتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے CNG کی قیمت کم کر کے زبردست کام کیا ہے۔ یہ کام تو ڈاکٹر عاصم کے کرنے کا تھا اور چار سال سے وہ کرنے کو تیار ہی نہیں تھے، مگر اب فرماتے ہیں عدالت نے اچھا کیا۔ چلیں دیر آید درست آید۔اور احمد نورانی صاحب نے تو یہ پول بھی کھول دیا کہ شایدسپریم کورٹ نے تو CNG کی قیمت کم ہی نہیں کی بلکہ آرڈر آنے سے پہلے متعلقہ وزارت نے خود ہی 20 روپے کم کر دیئے یعنی ٹنکی میں سے بجائے تیل کے روپے باہر آنا خود ہی شروع ہو گئے اور مزے کے بیانات پڑھیں تو نظر عدالت میں 11 لاکھ اسلحہ کے لائسنس اور ان کا ریکارڈ غائب ہونے پر پڑتی ہے۔ اب کراچی میں 11 لاکھ بندوقیں اور پستول نہ معلوم کس کو دے دیئے گئے۔ ذرا یاد کریں جب سندھ کے سابق وزیر داخلہ مرزا صاحب نے TV پر آ کر خود فرمایا تھا کہ 3 لاکھ لوگوں کو انہوں نے لائسنس جاری کئے۔ کیا یہ 3 لاکھ ان 11 لاکھ میں شامل ہیں اور اگر نہیں تو پھر بات 14 لاکھ کی کریں۔ اب ان لاکھوں کے کھیل میں بیچارے کچھ ہزار کراچی کے پولیس والے کیسے حالات پر قابو پا سکتے ہیں۔ جناب صدر تو اپنے بلاول ہاؤس کی تمام اردگرد کی سڑکوں کو بند کر کے محفوظ ہو گئے لیکن باقی دو کروڑ کراچی والے کیا کریں۔ سو اب نبیل گبول صاحب نے جو حال ہی میں حج کر کے مکہ سے لوٹے ہیں، فرما دیا ہے کہ الیکشن سے پہلے فوج کا آپریشن کراچی میں پلان ہو چکا ہے یعنی باقی سب کچھ گیا کھڈے میں۔اس ساری تصویر کو اگر ایک طائرانہ نظر سے دیکھیں تو خدوخال صاف ہوتے دکھائی دیں گے یعنی الیکشن ابھی کہیں افق پر نہیں، چوروں کو بھاگنے نہیں دیا جائے گا،کراچی میں فوجی آپریشن ہو گا۔ وزیراعظم راجہ صاحب کا باجا بج جائے گا۔ اس غیر اعلانیہ صدارتی نظام میں صدر کے اختیارات کم ہو جائیں گے اور ملک میں کہرام جاری رہے گا۔
ایک اہم بات اور لکھتا چلوں۔ میں نے اپنے دفتر والوں کی ڈیوٹی لگائی کہ مجھے 2008ء سے2012ء تک کے صرف ان اخباری خبروں کی کاپیاں بھیجیں جن میں صرف چوری، کرپشن اور لوٹ مار کی تفصیل ہو۔ یقین کریں پہلی قسط جو مجھے ملی ہے وہ 1000 صفحوں سے زیادہ ہے صرف Text کے۔ مزید اس پر بعد میں۔
تازہ ترین