• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ دن کتنا خوبصورت لگتا ہے جس دن صبح کا آغاز کسی بہت اچھی خبر کے ساتھ ہوتا ہے۔ صبح اخبارات کا پلندہ کھولا تو چیختی چنگھاڑتی سرخیاں دل کی دھڑکنیں تیز کرنے کے لئے کافی تھیں۔سب سے زیادہ دکھ بونیر میں خودکش حملے کی خبر پڑھ کر ہوا جس میں ایک مسلمان کے ہاتھوں چھ مسلمان مارے گئے۔ ان چھ مسلمانوں میں مقامی امن لشکر کا سربراہ فاتح خان بھی شامل تھا۔ امن لشکر کا ذکر پڑھ کر مجھے آئین پاکستان کی دفعہ 256یاد آئی جس کے تحت پرائیویٹ آرمی تشکیل دینا غیر آئینی ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ریاستی ادارے امن لشکرکے نام پرائیویٹ آرمی تشکیل دے کر آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ طالبان اور بی ایل اے بھی آئین توڑتے ہیں اور ریاستی ادارے بھی آئین توڑتے ہیں۔ جب دونوں میں فرق ختم ہوجاتا ہے تو انارکی جنم لیتی ہے۔ انارکی کے خطرات سے بھرے ہوئے اخبارات میں ایک اچھی خبر نے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ ایک انگریزی اخبار نے خبر دی تھی کہ ایک ماہ قبل سوات میں سکول سے واپس گھرجاتے ہوئے ملالہ یوسفزئی کے ساتھ زخمی ہونے والی طالبہ کائنات ریاض صحتیاب ہو کر دوبارہ سکول جانے لگی ہے۔ کائنات کو ملالہ اور شازیہ کے ہمراہ گولی ماری گئی تھی۔ کائنات25دن تک زیر علاج رہی اور چلنے پھرنے کے قابل ہوئی تو اس نے اپنے والد سے فرمائش کی کہ اسے دوبارہ سکول بھیجا جائے۔ والد نے اپنی بیٹی کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی لیکن انہیں اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب سکول وین کے ڈرائیور نے طالبان کے خوف کے باعث کائنات کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دینے سے انکار کردیا۔ کائنات کے والد نے پانچ مختلف ڈرائیوروں سے بات کی لیکن کوئی بھی تیار نہ ہوا آخر کار بہادر کائنات ٹیکسی میں بیٹھی اور سکول جا پہنچی۔ بہادر کائنات کی سکول واپسی پوری قوم کے لئے اچھی خبر ہے اور قوم کو یہ اچھی خبر دینے پرمیں کائنات کے بہادر والد کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ایک سچا مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔
کائنات کی سکول واپسی کی خبر میں سے بھی کچھ بیمار ذہن کوئی نہ کوئی سازش تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیسی ستم ظریفی تھی کہ ملالہ یوسف زئی کے ساتھ کائنات اور شازیہ بھی زخمی ہوئیں۔ یہ بچیاں مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہیں لیکن سوشل میڈیا پر کچھ پڑھے لکھے لوگ ان بچیوں پر حملے کو ایک ڈرامہ قرار دیتے رہے۔ طالبان کے ترجمان نے ان بچیوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی لیکن سازشی مفروضوں کے سمندر میں غوطے لگانے والوں نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا نے امریکہ کے کہنے پر اس واقعے کو ضرورت سے زیادہ اچھالا تاکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا جواز پیدا کیا جائے۔ اسلام کے نام پر منافقت کرنے والوں نے میرا ایک جعلی کالم بھی فیس بک اور ٹوئٹر پر جاری کردیا لیکن یہ منافقین رائے عامہ کو متاثر کرنے میں ناکام رہے جس کا سب سے بڑا ثبوت کائنات کی سکول واپسی ہے۔کائنات سوات میں رہتی ہے جہاں چند وین ڈرائیور اسے سکول لے جانے سے ڈرتے ہیں لیکن اس کا اصل سہارا اس کے والدین اور اساتذہ ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ملالہ، کائنات اور شازیہ پر حملے نے صرف کچھ نام نہاد اسلام پسندوں کی منافقت کو بے نقاب نہیں کیا بلکہ سیکولر انتہا پسندوں کا علمی و اخلاقی دیوالیہ پن بھی کھل کر سامنے آگیا۔ سیکولر انتہا پسندوں نے اس واقعے کی آڑ میں یہ پراپیگنڈہ شروع کردیا کہ ہمیں طالبان کا پاکستان نہیں بلکہ قائد اعظم کا پاکستان چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ قائد اعظم کو ایک سیکولر سیاستدان ثابت کرنے کی کوشش شروع ہوگئی۔ ہمیشہ کی طرح قائد اعظم کی گیارہ اگست 1947ء کی ایک تقریر کو بنیاد بنا کرکہا گیا کہ قائد اعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے لیکن جب ان انگریزی میڈیم دانشوروں سے پوچھا جاتا ہے کہ اگر قائد اعظم سیکولر تھے تو انہوں نے ایک گستاخ رسول کے قاتل غازی علم دین کی حمایت کیوں کی؟ انہوں نے ایک غیر مسلم سے شادی کرنے پر اپنی بیٹی کے ساتھ ناراضی کا اظہار کیوں کیا؟ انہوں نے 14اگست 1947ء کو اسمبلی کے اجلاس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو یہ کیوں کہا کہ آپ ہمیں اکبر بادشاہ کی اقلیتوں کے ساتھ جس رواداری کا سبق پڑھا رہے ہیں وہ روا داری ہمیں نبی کریم حضرت محمد مصطفی نے تیرہ سو سال قبل سکھائی تھی؟ سیکولر انتہا پسند دلائل کا جواب دلائل سے دینے کی بجائے مذہبی انتہا پسندوں کی طرح فتوے صادر کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب کو پچھلے کالم میں غازی علم دین کا ذکر پسند نہیں آیا۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں ایک ہندو پبلشر راج پال کو قتل کرنے والے غازی علم دین کے جنازے میں علامہ اقبال کی شرکت کا واقعہ لکھا تھا جس پر قومی اسمبلی کے ایک معزز رکن طیش میں آگئے۔ موصوف کے سیکولر نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور انہیں اپنے نظریات کے اظہار کا پورا حق ہے لیکن انہوں نے الیکشن لڑنے کے لئے کبھی کسی سیکولر جماعت کا ٹکٹ لینے کی ہمت نہیں دکھائی۔ ہمیشہ نواز شریف کا ٹکٹ حاصل کرتے ہیں جنہوں نے اپنے دوسرے دور حکومت میں شریعت بل پیش کیا تھا۔ ان صاحب کا خیال ہے کہ غازی علم دین کی پھانسی کے واقعے کا اقبال کی سوچ پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اس واقعے کا ذکر دراصل تصوراتی شیش محل میں رہنے والے لوگ کرتے ہیں۔موصوف کو زعم ہے کہ وہ زمینی حقائق کے بہت قریب ہیں کیونکہ وہ فوجی افسر بھی رہے، بیوروکریٹ بھی رہے، پھر صحافی بن گئے اور اب سیاستدان بھی بن چکے ہیں۔ میرے پاس اتنے تجربات تو نہیں لیکن بڑی عاجزی کے ساتھ موصوف کو چیلنج کرتا ہوں کہ اپنے حلقہ انتخاب چکوال کے کسی بھی چوراہے پر میرے ساتھ عوامی مناظرہ کرلیں، میں تاریخی دستاویزات کی مدد سے ثابت کردوں گا کہ قائد اعظم نے فروری1948ء میں کہا تھا ”پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی، مجھے نہیں معلوم کہ اس دستور کی شکل وہیت کیا ہوگی لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل ہوگا“۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسلام اور جمہوریت دونوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں لیکن مذہبی انتہا پسند جمہوریت پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں اور سیکولر انتہا پسند اسلام سے محبت کو برداشت نہیں کرتے۔ ایک خود کش حملے کرتا ہے دوسرا ڈرون حملوں کا حامی ہے اور اکثریت درمیان میں پھنسی ہوئی ہے۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کا سامنا ایک زمانے میں قائد اعظم کو بھی تھا۔ قائد اعظم کو ایک طرف سے مذہبی انتہا پسندوں کے فتوؤں کا سامنا تھا دوسری طرف سے جواہر لال نہرو جیسا سیکولر انتہا پسند انہیں سامراج کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا۔1943ء میں قائد اعظم پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ مہاتما گاندھی کے ساتھ اتحاد کرلیں لیکن قائد اعظم نے انکار کیا۔اس انکار پر قائد اعظم کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔26جولائی1943ء کو رفیق صابر مزنگوی نامی شخص نے بمبئی میں قائد اعظم پر خنجر سے حملہ کیا۔ قائد اعظم کے چہرے اور بائیں ہاتھ پر زخم آئے لیکن وہ بچ گئے۔ ملزم کا تعلق خاکسار تحریک سے نکلا اور وہ عدالت میں قائد اعظم کو اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ قرار دیتا رہا۔ خاکسار تحریک قیام پاکستان کے خلاف تھی اور سیکولر نہرو بھی قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ آج قائد اعظم کے پاکستان کو پھر ویسے ہی خطرات کا سامنا ہے۔ رفیق صابر مزنگوی جیسے انتہا پسند صرف اپنے آپ کو مسلمان اور باقی سب کو کافر سمجھتے ہیں اور نہرو جیسے سیکولر انتہا پسند ہمارے قائد اعظم کو ہائی جیک کرنے کے چکر میں ہیں۔ ہمیں ان دونوں کا مقابلہ کرنا ہے اور انشا ء اللہ کائنات جیسی قوم کی بیٹیاں ہمارا روشن مستقبل بنیں گی۔ سادہ سی بات ہے اقبال اور قائد اعظم مسلمانوں کے لیڈر تھے اور اقلیتوں کے حقوق کے بھی محافظ تھے ۔یہ حقوق اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ کائنات کا پاکستان اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان ہوگا۔
تازہ ترین