• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں گھروں کا فلیٹ بننا سنگین مسئلہ

صاف اور تازہ ہوا، شفاف پانی اور صاف ستھری زمین انسانی تہذیب کی بنیادی ضرورت ہے اور صدیوں سے اس کے لئے جد وجہد ہوتی رہی ہے ۔انسان ابتداء ہی سے اس کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہا ہے اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر اسی تلاش و جستجو کا نتیجہ ہے۔

دنیا کی تمام بستیوں اور آبادیوں نے وہاں فروغ پایا ہے جہاں یہ سہولتیں وافر مقدار میں موجود تھیں،ان میں سے کسی ایک کی کمی یا فقدان کی صورت میں بستیاں یا تو تباہ و برباد ہوگئیں یا دوسری جگہ منتقل ہو گئیں ۔

کراچی میں گھروں کا فلیٹ بننا سنگین مسئلہ

بد قسمتی سے کراچی شہر کو ہر گزرتے دن کے ساتھ نئے اور گھمبیرمسائل کا سامنا ہوتا ہے،صحت و صفائی کے مسائل ہوں یا قلت آب کا معاملہ ، نکاسی آب کے مسائل ہوں یابجلی کی لوڈ شیڈنگ،کوڑے کے انبار،ٹریفک کا اژدھام ہو یافضائی آلودگی دن بدن بھیانک صورت اختیارکر رہے ہیں لیکن ان مسائل کا تدارک کہیں نظر نہیں آتا۔

کراچی شہر کے بچے کچے ماحولیاتی سکون کوغارت کرنے کا ایک اور نیا سبب چھوٹی چھوٹی رہائش گاہوں کو ملٹی اسٹوری رہائش گاہوں میں تبدیل کرنے کا رجحان ہےجس سے شہر کو کئی نئے مسائل جنم لے رہے ہیں ۔

خبرہے کہ کراچی شہر کی متوسط طبقوں کی آبادی جو زیادہ تر60، 80اور120گز کے گھروں پر مشتمل ہے میںملٹی اسٹوری گھروں کے رجحان میں خطرناک اضافہ دیکھا گیاہےجس سے شہری ماحولیاتی سکون مزید بربادی کا شکار ہے ۔

ملٹی اسٹوری گھروں کا رجحان تو پورے شہر میں ہی چل پڑا ہے اور شہریوں نے اپنے اپنے گھروں میں اضافی منزل بنا کر اسے اپنی آمدنی کا ذریعہ بنالیا ہے تاہم کراچی کے علاقوں فیڈرل بی ایریا ،نارتھ کراچی ،ملیر، لانڈھی، کورنگی، شاہ فیصل، اورنگی ٹائون ، نیوکراچی بلدیہ ٹائون ،پاپوش نگر سمیت متعدد علاقوں میں دڑبے نما مکانات ماحول کی بربادی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ساٹھ یا اسی گز کے مکانات کو ایک یا دو کمروں کے کئی حصوں میں تقسیم کرنا معمول بن گیا ہے،شہریوں نے اسے آمدنی کیلئے اپنے اوپر لاگو کر لیا ہے جس کے نتیجہ میں ایک ،ایک کمرے کے مکانات میں رہنے والے شدید گھٹن میں زندگی گزار رہے ہیںتنگ وتاریک گھروں میں رہائش کے رجحان نے امراض بڑھا دئیے ہیں ۔

اسی کے سبب کراچی شہر میں بلڈ پریشر،ٹی بی،ڈائریا، سانس اور جلد ،پیلیا ،ہیپاٹائٹس جیسے امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں،طبی ماہرین کے مطابق گھٹن زدہ رہائش میں حاملہ خواتین اوراور نوزائیدہ بچے سب سے زیادہ متاثر ہورہےہیں، کراچی میں گزشتہ دنوں پڑنے والی گرمی میں ایسے مکانات میں رہنے والے شدید متاثر ہوئے ۔

اسپتالوں میں آنے والوں کی اکثریت کا کہنا تھا کہ وہ ایک یا دوکمروں کے مکان میں رہتے ہیں ۔گھٹن زدہ مکانات کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ مزید مسائل کو جنم دے سکتا ہے، غربت میں گھرے لوگ گھروں کو تقسیم در تقسیم کر کے اپنی موت کو خود دعوت دے رہے ہیں۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو بلڈنگ رولز کی خلاف ورزی پر سخت نوٹس لینا ہوگا، یہ طرز عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہا تو شجرکاری بھی اس کا سدباب نہیں کر پائے گی۔ انسانی ایکوسسٹم میں ہوا دار گھر لازمی جز ہے ،گھٹن زدہ ماحول میں رہائش نفسیاتی بیماریاں پھیلنے کا بڑا سبب ہے۔


تازہ ترین