• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چاند پر اراضی کی فروخت

دنیا کے مختلف ممالک میں ایسے کئی شہر، قصبات، گاؤں یا جزائر ہیں جو اپنے انوکھے پن یا عجیب و غریب واقعات کی وجہ سے معروف ہیں۔ زمین پر تو ہوٹل دیکھے ہیں لیکن جرمنی کے ایک دوردراز قصبے میں ایک شخص نے درختوں کی شاخوں پر رہائشی ہو ٹل بنایا ہے ۔ منرل واٹر اور مشروبات کی پلاسٹک کی بوتلیں جو خالی ہونے کے بعد ناکارہ سمجھ کرکوڑے دان کی نذر ہوتی ہیں، میکسیکو میں ایک فن کار نے ان کی مدد سے جزیرہ تخلیق کیا ہے، ایسے ہی مزید چند وقاعات جو دل چسپ ہونے کے علاوہ حیران کن بھی ہیں، نذر قارئین ہیں۔

پلاسٹک کی بوتلوں سے بنا جزیرہ

چاند پر اراضی کی فروخت

دنیا میں کئی چھوٹے جزائر ہیں جو اپنی کسی نہ کسی خصوصیت کی وجہ سے معروف ہیں لیکن میکسیکو میںایک آرٹسٹ نے ساحل سمندر کے قریب خالی بوتلوں کی مدد سے ایک خوبصورت تیرتاہوا جزیربنایا ہے۔ لوگپلاسٹک سے بنی ہوئی معدنی پانی یا مشروبات کی بوتلیں خالی ہونے کے بعد ناکارہ سمجھ کر کچرادان میں پھینک دیتے ہیں لیکن 61سالہ ’’ رچرڈ ساوا‘‘،نے انہی فالتو بوتلوں کی مدد سے جزیرہ تخلیق کرلیا۔ رچی کا تعلق برطانیہ کے شہر مڈل بارو، یارک شائر سے ہے، گزشتہ تین عشرے سے وہ میکسیکو میں آرٹسٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔1998ء میں انہوں نے پہلی مرتبہ سمندر میں ایک جال میں ریت بھر کرپلاسٹک کی بڑی بوتلوں کی مدد سےکینکن سٹی کے ساحل کے قریب ایک جزیرہ تخلیق کیا تھاجس ایک دو منزلہ گھر،شمسی توانائی سے چلنے والا چولہا اور ایک ٹوائلٹ بھی موجود تھا، اس کا نام انہوں نے ’’خواتین کا جزیرہ ‘‘ یا اسپائرل آئی لینڈ رکھا- 2005میں ’’ایملی‘‘ نامی طوفان کی وجہ سے وہ تباہ ہوگیا اورپلاسٹک کی بوتلیں بہہ کرساحل پر جمع ہوگئیں۔ رچی نے ہمت نہیں ہاری اور انہوں نے اس کی دوبارہ تعمیر شروع ساحل پر پڑی بوتلوںکوتلوں کو اکٹھا کیا، مزید بوتلیں جمع کیں ، انہیں وزنی بنانے کے لیے ان میں ایئر پمپ کی مددسے ہوا بھر کر مکمل طور سے سر بمہر کردیا گیا۔ اس طرح اس نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ تلوں کو اپنے منصوبے کے لیے کارآمد بنایا۔ ساحل کے کنارے سے سمندری ریت بوریوں میں بھری،اس ریت کو سابقہ طریقے کے مطابق جال میں ڈال کر سمندر کی تہہ میں بچھایا گیا ۔س جزیرے کی بنیادیں پلاسٹک کی بوتلوں، لکڑی اور ریت سے تعمیر کی گئی ہیں، اسے مکمل کرنے میں انہیں سات سال لگے، اس جزیرے کو رچرڈ کی طرف سے ’’جوائیکسی آئی لینڈ‘‘ کا نام دیاگیا ہے۔ جزیرے میں ایک تین منزلہ گھربنایا گیا ہے ، جس میں دو بیڈ روم، گرم پانی کا ٹب، تین شیل شاورز، ایک باورچی خانہ اور انٹرنیٹ کنکشن کی سہولت بھی موجود ہے، گھر کے چاروں اطراف پام کے درخت، مینگروز، پھلوں کےدرخت اور دیگر پودے لگائے گئے ہیں۔ رچرڈ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ مینگروز کےدرخت فضا کو خوش گوار بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں جب کہ خوراک کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انہوں نے اپنے جزیرے پر ہی سبزی اور پھل اگائے ہیں۔

پرندوں کی خودکشیاں

چاند پر اراضی کی فروخت

بھارت کی ریاست آسام کے ضلع ’’ڈیما بساؤ‘‘ میں’’بوریل ہلز کے پہاڑی علاقے میں’’جیٹنگا‘‘ نامی چھوٹا ساگاؤں ہے جس میں 2500افراد رہتے ہیں ۔ یہ گاؤں انتہائی سرسبز و شاداب ہےلیکن تقریباً 112سال سے، یہاں پرندوں کی اجتماعی خودکشیوں کے پراسرار واقعات،رونما ہورہےہیں۔ستمبر سے نومبر کے مہینے کےدوران سورج غروب ہوتے ہی گاؤں کے پانچ مربع کلومیٹر کے رقبے میں آسمان پر پرندوں کے غول جمع ہوتے ہیں اور وہ اچانک زمین پر گرنا شروع ہوجاتے ہیں، اس دوران درختوں، مکانات کی چھتوں سے ٹکرا کر یا تو ہلاک و زخمی ہوجاتے ہیں۔ پہلی مرتبہ یہ واقعہ 1905میں اس وقت پیش آیا جب اس گاؤں میں ’’زیمی قبیلے‘‘ کے افراد آباد تھے۔ ایک مرتبہ کسی شخص کی بھینس گم ہوگئی توو ہ شام کے وقت گاؤں کے لوگوں کے ساتھ اس کی تلاش میں نکلا۔تاریکی وجہ سے انہوں نے گیس لائٹ اٹھا رکھی تھیں۔ بھینس تو گاؤں والوں کو نہ مل سکی لیکن جب وہ جنگل کے قریب پہنچے تو انہیں ایک پراسرار صورت حال سے دوچار ہونا پڑا۔اچانک آسمان سےپرندوں کی بارش شروع ہوگئی اور آدھے گھنٹے کے اندر سیکڑوں پرندے ان کے قریب یا تو مردہ پڑے تھے یا زخمی حالت میں تڑپ رہے تھے۔ گاؤں کے لوگ اسے کوئی ناگہانی آفت سمجھ کر بھینس کی تلاش چھوڑ کر اپنے گھروں کی طرف بھاگے۔ اس کے بعدتین ماہ تک سورج غروب ہونے کے بعد رات دس بجے تک مسلسل پرندوں کی خودکشیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ گاؤں والوں نے اس دوران شام کے وقت گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا۔ان میں سے بعض افراد کا کہنا تھا کہ آسمان پر بدروحیں رہتی ہیں، جو ان پرندوں کو مار کر زمین پرپھینک دیتی ہیں ۔ ان واقعات سے دیہاتی اتنے خوف زدہ ہوئے کہ وہاں سے نقل مکانی کرنے لگے،جس کے بعدان کے کے مکھیا نےپورا گاؤں جیتن قبیلے کے ہاتھوں فروخت کرکے خود بھی اس علاقے کو خیرباد کہہ دیا۔ جیتن قبیلے کے آباد ہونے کے بعد دوسرے سال بھی یہ سلسلہ جاری رہا لیکن گاؤں کے نئے باسی اس صورت حال سے خائف نہیں ہوئے بلکہ شام کے وقت وہ ڈنڈے اور لاٹھیاں لے کر باہر نکل جاتے اور زمین پر گرنے والے یا درختوں پر اٹکنے والے پرندوں کا شکار کرکے انہیں پکا کر کھاتے،یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اس حوالے سے یہ گاؤں سیاحوں کی دل چسپی کا باعث بن گیا ہے۔ وائلڈ لائف کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ پرندےغیر ممالک سے ہجرت کرکے آسام میں داخل ہوتے ہیں اور طویل اڑان کی وجہ سے ان کی طاقت پرواز ختم ہوجاتی ہے اور وہ تھک کرزمین پر گرنے لگتے ہیں لیکن عوام کی جانب سے اس مفروضے کو مسترد کردیا گیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پرندے کہیں بھی تھک کر گر سکتے ہیں لیکن انہوں نے صرف جیٹنگا گاؤں کا انتخاب ہی کیوں کیا ہے، یہ گتھی آج تک نہیں سلجھ سکی ہے اور مذکورہ علاقے میں پرندوں کی خودکشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

چاند پر پلاٹوں کی فروخت

زمین پر تو اراضی پر قبضہ کر کے فروخت کا کاروبار عام ہے اور اس کاروبار کرنے والوں کو’’ لینڈ مافیا ‘‘کہاجاتاہے لیکن چین میں ’’لی جی ‘‘ نامی شخص نے اکتوبر 2005میں پراپرٹی کے کام کو دیگر سیاروں تک وسعت دینے کا منصوبہ بنایا اور ’’لیونارایمبسی‘‘ کے نام سے کمپنی قائم کرکے چاند پرپلاٹوں کی فروخت کے لیے بکنگ شروع کی۔ اس کمپنی کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب 2005میں چین نے چاند کی طرف خلائی مشن بھیجنے کا اعلان کیا تو لی جی نے قمری سفارت خانے کے نام سے کمپنی قائم کرکے عوام کے سامنے چاند پر رہائش کے لیے ’’پرکشش‘‘ منصوبہ پیش کیا۔اس کے سی ای اواس بات کے دعویدار تھے کہ چین میں اس قسم کے کسی منصوبے کے خلاف قانون موجود نہیں ہے لہٰذا اصولی طور پر یہ کمپنی اپنا کام جاری رکھ سکتی ہے۔ لی جی نے اس سلسلے میں دس ہزار چینی یوآن یعنی 1200امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور مختلف امور کے لیے ملازمین بھرتی کیے گئے۔ ستمبر 2005میںکمپنی کی جانب سے چاؤیانگ کے ضلع میں ’’بیجنگ لیونارویلیج ایروناٹکس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹیڈ ‘‘ کے نام سے ایک پروجیکٹ بھی رجسٹرڈ کرایا گیااور5اکتوبر سے پلاٹوںکی بکنگ کا آغاز ہوا ۔ چاند پر ایک ایکڑ پلاٹ کی قیمت 298یوآن یعنی 37امریکی ڈالر مقرر کی گئی۔ صرف تین دن کےدو ران 34خریداروں نے چاند پر 49ایکڑ زمین کی بکنگ کرائی اور کمپنی کو 14000ہزار یوآن یعنی 1728امریکی ڈالر کا منافع ہوا ۔ ان خریداروں کولیونار ایمبسی کی جانب سے ایک سند بھی جاری کی گئی جس کی رو سے انہیں اراضی کا مالک قرار دیتے ہوئے یہ استحقاق بھی دیا گیا کہ چاند پر بسنے کے بعد وہ اپنے رہائشی پلاٹ سے متصل تین مربع کلومیٹر کے رقبے کی حدود میں پائی جانے والی تمام معدنیات بہ شمول ہیلم گیس کے استعمال کے بھی حق دارہوں گے۔ ’’مون لینڈ مافیا‘‘ کے اس کاروبار کی بھنک جب بیجنگ میونسپل ایڈمنسٹریشن برائے صنعت و تجارت کو پڑی توانہوں نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کی جس سے معلوم ہوا کہ چاؤیانگ کی ضلعی حکومت کی طرف سے مذکورہ فرم کو خلائی سفر اور چاند پر اراضی کی فروخت کی اجازت دی گئی تھی ۔ وفاقی حکومت نے فوری طور سے کمپنی کا لائسنس معطل کرکے اسے کام سے روک دیا۔

نمک سے خائف رہنے والا جرنیل

چاند پر اراضی کی فروخت

فیلڈ مارشل نکولس جو 1716ء میں فرانس کی مسلح افواج کا کمانڈرانچیف تھا، اس کا شمار بہادر جرنیلوں میں ہوتا تھا۔ اس نے کئی جنگیں لڑیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ وہ ایک عظیم فاتح تھا لیکناس کے ساتھ وہمی انسان بھی تھا۔ اُسے ہر وقت یہ وہم رہتا تھا ۔ وہ نفسیاتی طور سے نمک سےخائف رہتا تھا اور اسے ہم ہوگیا تھا کہ اگرکھانے کے دوران نمک دانی نمک گرگیا تو اس کی موت واقع ہوجائے گی۔ چنانچہ کھانے کے دوران وہ ہمیشہ نمک دانی اپنے سے دور رکھتا تھا۔ لیکن حیرت انیز طور سے اس کا یہ وہم سچ ثابت ہوا ۔ایک عشایئے دوران کسی مہمان کا ہاتھ میز پررکھی ہوئی نمک دانی سے ٹکرایا اور نمک دانی میز سے نیچے جا گری،نکولس یہ منظر دیکھ رہا۔اسی وقت اسے دل کا دورہ پڑا، دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھیں پھٹ گئیں اور تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ کرسی سےگر کر مرگیا۔

زولو قبیلہ، جہاں مرد اور عورتیں گھٹنوں کے بل چلتے ہیں

چاند پر اراضی کی فروخت

جنوبی افریقہ میں شمالی زیورلینڈ کے علاقہ میں زولو قبیلہ رہتا ہے جس کے بیشتر مرد اور خواتین ایک پراسرار بیماری کا شکار ہیں اور وہ سیدھے کھڑا ہوکر چلنے کی بجائے ،چھوٹے بچوں کی مانند گھٹنوں کے بل چلتے ہیں۔۔طبی محققین نے اس بیماری کی وجوہات کا سراغ لگا کر اس کے علاج کی کافی کوششیں کیں لیکن وہ ناکام رہے۔ اس قبیلے میں بچے بالکل نارمل پیداہوتے ہیں لیکن جوں ہی وہ پندرہ سےسولہ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں ان کے کولہوں کی ہڈیاں نرم پڑجاتی ہیں اور وہ سیدھے کھڑے نہیں ہوسکتے اور نہ ہی چل پھر سکتے ہیں اس طرح وہ تمام عمر گھٹنوں کے بل چلتے ہیں۔

جگنو کی مدد سے روشنی بکھیرنے والی لالٹین

چاند پر اراضی کی فروخت

برقی توانائی سے قبل ساری دنیا میں روشنی کے لیےلالٹین اور چراغوں کا استعمال کیا جاتا تھا جو مٹی کے تیل سے جلتی تھیں۔ ایک زمانے تک ان کا استعمال اسٹریٹ لائٹس کے لیے بھی کیا جاتا رہا۔ لیکن برقی قمقموں کے جگممگاہٹ سے روشنی حاصل کرنے کے بعد ان کا استعمال متروک ہوگیا۔ لیکن جزائر غریب الہند میں آج بھی ایسی عجیب و غریب قسم کی لالٹین استعمال کی جاتی ہے جو ایک کدو سے بنائی جاتی ہے، جس میں سوراخ ہوتے ہیں اور ان میں سینکڑوں کی تعداد میں جگنو ڈال دیئے جاتے ہیں جب وہ اپنی روشنی نکالتے ہیں تو کدو میں کئے گئے سوراخوں سے روشنی باہر آتی ہے جس سےہر طرف اجالا ہوجاتا ہے۔

درختوں کی شاخوں پر ہوٹل

چاند پر اراضی کی فروخت

آٹو بھان روڈ کے اختتام پر جرمنی اور پولینڈ کی سرحد پر’’ہائی بارس‘‘ شہر کے قصبے زین ٹین ذورف کے نزدیک نہر کے درمیان ایک ٹیلے پر چھوٹا سا جزیرہ ’’کلچرل آئی لینڈ‘‘ ہے جسے انسانی ہاتھوں کی مدد سے عجیب و غریب شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔اس میںجانوروں کی شبیہ سے مزین ایڈونچر پارک بنایا گیا ہےجب کہپورے جزیرے میں درختوں کی شاخوں سے مختلف النوع عجائبات بنائے گئے ہیں جب کہ ان میں سب سے دل چسپ عجوبہ ’’ٹری ہوٹل‘‘ ہے۔ جرمنی آنے والے سیاح اس جزیرے کی شہرت سن کر اس کی سیر کے لیے دوردراز کا سفر طے کرکے، دشوار گزار اور کٹھن راستے پر پیدل چلتےہوئےرسوں سے بنا ہوا پل عبور کرکےجزیرے میں پہنچتے ہیں، جہاں حیران مناظر ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ پانچ ہیکٹر رقبے پر مشتمل ’’کلچرل آئی لینڈ‘‘ جرگن برکمین‘‘ نامی فنکار کی تخلیق ہے۔ یہاں اس نےان عجئبات کے علاوہ بلند و بالا درختوں کی مضبوط شاخوں پرسیاحوں کی رہائش کے لیے ہوٹل بھی تعمیر کیا ہے، جہاں سیاحوںکو تمام رہائشی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ’’بام ہاس‘‘ یا ٹری ہاؤس ‘‘ ہوٹل میں ایک چھوٹے اپارٹمنٹ کی طرز پر نوکیبن نما کمرے بنے ہوئےہیں جن کی تعمیر لکڑی کے تختوں کی مدد سے زمین سے 27فٹ بلندی پرکی گئی ہے۔ ہر کیبن دوسرے کیبن سے قدرے فاصلے پر ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ لکڑی کےشہتیروں سے بنائے گئے ڈھلوان راستوں کے ذریعے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ کمروں تک پہنچنے کے لیے لکڑی کی سیڑھیاںچڑھ کر جانا پڑتا ہے۔ہر کیبن دوحصوں پر مشتمل ہے جس میںایک حصے کو کمرہ استراحت بنایا گیا ہے جہاں بیڈ اور میز کرسیاں ڈالی گئی ہیں جب کہ دوسرے میں سنک، باتھ روم اور بالکونی بنائی گئی ہےں جس میں آرام کرسیاں ڈالی گئی ہیں ، جن پر بیٹھ کر سیاح گردونواح کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ ہ پولینڈ اور جرمنی کی سرحد کا بھی نظارہ کرتے ہیں۔رہائشی کیبنوں سے ذرا فاصلے پر گھنے درختوں کے درمیان چٹانی پتھروں پر ایک بڑے سے دیگچے کی صورت میں باتھ ٹب رکھا ہےجس میں اترنے کی لیے لکڑی کی سیڑھی رکھی ہوئی ہے۔ یہاں قیام کرنے والے سیاح ٹب کے نیچے آگ جلاتے ہیں اور سیڑھیوں کے ذریعے اس میں اتر کر غسل کرتے ہیں۔ ایک کیبن کا کرایہ 191ڈالر یومیہ ہے جس میں ناشتے کی قیمت بھی شامل ہے، اس کے علاوہ دوپہر اور رات کے کھانے کے لیے ریستوران بھی موجود ہے۔

4 کے پھیر میں جرمنی کا بادشاہ

چاند پر اراضی کی فروخت

ننانوے کےپھیر کے بارے میں تو سنا تھا لیکن جرمنی کا بادشاہ چارلس پنجم کی زندگی چار کے پھیرے میں گزری۔اس نے 1316سے 1376تک ملک پر60سال حکومت کی۔ اس کی پوری زندگی چار کے ہندسے کے گرد گھومتی رہی۔ وہ روزانہ دن میں چار مرتبہ کھانا کھاتا تھا، چار زبانیں بولنے کا ماہر تھا، اُس کی بیویوں کی تعداد بھی چار تھی۔ صرف یہی نہیں اس نے اپنی ملکاؤں کی رہائش کے لیے چار محل بنوائے تھے جن میں سے ہر محل کی منزلیں تھیں اور ہر منزل پر چار کمرے تھے ۔ اس کے تاج میں چار ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ جب وہ بستر مرگ پر تھا تو اس کا علاج چار طبیبوں نے کیا، جو اس کی وفات کے وقت اس کے پاس موجود تھے۔اس کا انتقال 29 نومبر 1376ء کو چار بج کر چار منٹ پرہوا۔

تازہ ترین