• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کی چند ممتاز جلسہ گاہوں کی سیاسی تاریخ

2018ء عام انتخابات کا سال ہے۔ انتخابات سے قبل جلسے جلوسوں کا مقابلہ ہونا ایک عام سی بات ہے۔ یہ جلسے جلوس ہی تو ہیں، جن کے ذریعے سیاسی جماعتیں اپنی طاقت کا برملا اظہار کرتی ہیں، ان کے ذریعے وہ عوام الناس پر یہ دھاگ بٹھا دینا چاہتی ہیں کہ سیاست کے میدان میں ان کی جماعت کا صرف وجود ہی نہیں بلکہ یہ دیگر جماعتوں پر حاوی بھی ہے۔ جلسے جلوس کا انعقاد ہو یا اجتماع ہو، ان کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا، بالآخر ان ہی کے ذریعے عوام میں شعور بیدار اور سیاسی تربیت کی جاسکتی ہے۔ عوام ان جلسے جلوسوں میں شرکت کرکے اس بات کا عملی ثبوت دیتے ہیں کہ وہ اب بھی زندہ ہیں، سیاسی بصیرت رکھتے ہیں اور اپنے رہنما کے ہمہ وقت ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ اس سے قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جلسہ چھوٹا ہے یا بڑا۔ بنیادی چیز رہنماؤں کی تقریروں کا عوام کے دلوں میں اُترنا ہے۔ 

وہ جلسے جلوس جن میں سیاسی تقریروں کا مقصد اگر مخالفن پر کیچڑ اُچھالنے کے بجائے عوامی مسائل کا سنجیدہ اور دیر پا حل تلاش کرنا ہو تو یہ عوام پر زیادہ گہرا اثر مرتب کرتے ہیں اور ایسی ہی تقریریں عوام کے دلوں کی گہرائیوں تک اُتر جاتی ہیں۔ یہ تقاریر ہی تو ہیں جن کے ذریعے بہ خوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی سیاست دان کتنا باشعور، دانشور، دور اندیش اور بہترین مقرر ہے، ان ہی اندازوں اور یقین دہانیوں کی بنیاد پر عوام اپنے رہنما کو ووٹ دیتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب تقریریں، جلسے جلوس کھلے میدانوں میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ ایسے میدان جو وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہوتے تھے، جنہیں سیاسی مباثرین ’’سیاسی اکھاڑے‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ایسے اکھاڑے جن میں عوام کا سمندر صرف اس لیے اُمڈ آتا تھا کہ اپنے قائد اور رہنما کی جوشیلی تقریر سن سکیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی جلسوں نے میدانوں سے شاہراہوں، گلیوں اور پلوں کا رخ کرلیا ہے، جہاں کم لوگ بھی زیادہ نظر آتے ہیں۔ بہت ممکن ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اب ماضی کے کئی سیاسی اکھاڑے دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث کھنڈر بن چکے ہیں یا پھر ان میں جلسہ کرنے پر پابندی عائد ہو چکی ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ایسے ہی چند اہم سیاسی اکھاڑے، جلسہ گاہوں کی مختصر داستان پیش کر رہے ہیں، جو اب یا تو کرکٹ، فٹبال تک محدود ہوگئے ہیں یا پھر انہیں عوام کو سستی تفریح مہیا کرنے کی خاطر پارکس میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

موچی دروازہ

لاہور کی قدیم ترین جلسہ گاہوں میں سے ایک ’’موچی دروازہ‘‘ بھی ہے۔ جو سیاسی حوالے سے ملکی تاریخ کا اہم باب بن گیا ہے۔ قیام پاکستان سے جمہوریت کی بقا تک کئی اہم بڑے جلسوں اور تحریکوں کا چشم دید گواہا رہا ہے۔ اس لیے جمہوری ادوار میں سیاست دانوں کے عظیم الشان جلسے اور سیاسی احتجاج کی بڑی بڑی تحریکیں یہیں سے جنم لیتی رہی ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ، جس نے لاہور نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا، بالکل ایسے ہی یہ کہا جاتا ہے کہ، جس سیاسی جماعت نے موچی باغ میں جلسہ نہیں کیا گویا اس نے سیاست میں قدم ہی نہیں رکھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہر سیاست داں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک بار یہاں جلسہ ضرور کرے۔ اگر اس کا جلسہ کامیاب ہوگیا تو وہ دیگر جماعتوں پر دھاگ بٹھانے میں کامیاب ہو گیا، بصورت دیگر اسے اور اس کی جماعت کو سخت محنت کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 80ء کی دہائی تک اگر کسی بھی سیاست دان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ لگانا ہو تو موچی باغ میں عوامی مجمع کو دیکھ کر بہ خوبی لگایا جاتا۔ المختصر اس تاریخی میدان میں برصغیر پاک و ہند کے نامور سیاستدانوں اور رہنماؤں نے خطاب کیا۔ جن میں علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح، جواہر لال نہرو، خان عبد الغفار خان، حسین شہید سہروردی ، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، شہباز شریف سمیت کئی اہم سیاست داں شامل ہیں۔

اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ، اس کا قدیم نام ’’موتی دروازہ‘‘ تھا۔ کنہیا لال ’’تاریخ لاہور‘‘ میں موچی دروازے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ، ’’یہ دورازہ اکبری عہد میں اکبر بادشاہ کے ملازم ’’موتی رام جمعدار‘‘ کے نام سے موسوم تھا، جو تا حیات اس دروازے کی حفاظت پر معموررہا۔ اس دور میں جب بیرونی حملہ آوروں نے لاہور کا رخ کیا، تو اس نے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے شہر کی حفاظت کی، اپنی حکمت عملی اور ذہانت کی بدولت حملہ آوروں کو دروازے سے داخل نہ ہونے دیا، اس کی ان ہی خدمات کو سرہاتے ہوئے دروازے کا نام اس کے نام سے منسوب کردیا گیا‘‘۔ لیکن سکھوں کے دور میں اس دروازے کا نام موتی سے بگڑ کر موچی مشہور ہو گیا۔ جس کی ایک بنیادی وجہ مورخین کے مطابق، اس اندرون موچی دروازے میں ’مورچیوں‘ کا قیام بتائی جاتی ہے۔ جب سے اب تک یہ دروازہ موچی دروازے کے نام سے ہی پہچانا جاتا ہے۔

صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی یہ دروازہ سیاسی اہمیت کا حامل ہے اور ملکی سیاسی تاریخ کا اہم مرکز تصّور کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ، جلسے کی کامیابی میں جگہ کا انتخاب بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ موچی دروازے کا نام سنتے ہی سب سے پہلے جس جلسے کا منظر نامہ ذہن میں آتا ہے، وہ 1965ء میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ایوب خاں کے خلاف ہونے والا جلسہ ہے۔ جس میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی۔ جن میں بیشتر افراد مادر ملت کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے دور دور سے آئے تھے۔ اس لیے انتخابی جلسے میں اسٹیج روایت سے ہٹ کر پولیس چوکی، موچی گیٹ کے عقب کی بجائے مسجد کے سامنے بڑے بوڑھ کے درخت کے نیچے بنایا گیا تھا، تاکہ دونوں اطراف سے لوگ مادر ملت کو دیکھ سکیں۔ اس جلسے کی صدارت کے فرائض معروف سیاست داں میاں ممتاز دولتانہ نے انجام دیئے تھے، جب کہ سردار ظفراللہ ایڈووکیٹ اسٹیج سیکریٹری تھے۔

اسی موچی دروازہ میں مولانا مودودی نے خرابی صحت کے باعث جماعت اسلامی کی امارت سے دستبرداری کا عندیہ دیا۔ لاہور میں ’’تحریک استقلال‘‘ کے ابتدائی جلسوں میں سب سے بڑا جلسہ بھی اسی موچی دروازہ میں ہوا، جس میں پیپلز پارٹی سے دوبدو جنگ کی سی کیفیت رہی۔ جلسے کے بعد تحریک استقلال ایک بڑی پارٹی کے طو ر پرانتہائی تیزی سے ابھری۔

سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے کے باوجود لاہور کے عوام میں بے حد مقبول ہونے والے رہنماؤں میں حسین شہید سہروردی کے علاوہ شیخ مجیب الرحمٰن اور مولانا بھاشانی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے 1970ء میں موچی باغ میں بڑے اور کامیاب جلسے کیے۔ یہ ان جلسوں کا ہی نتیجہ تھا کہ اس حلقے سے 1970ء کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی جماعت نے بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کی۔ دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کو شکست کا سامنا ہوا۔

ملک کی چند ممتاز جلسہ گاہوں کی سیاسی تاریخ

1971ء میں اقتدار سنبھالنے سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں میں لوگ دیوانہ وار شامل ہوتے تھے۔ اسی موچی دروازہ میں نواب اکبر بگٹی نے عوام سے وہ تاریخ ساز خطاب کیا، جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں بلوچستان کا گورنر مقرر کردیا۔

1993ء میں بے نظیر بھٹو نے یہاں جلسہ کیا تھا۔ بعدازاں وقت کی گرد نے گزشتہ کئی دہائیوں سے موچی باغ کو سیاسی منظر نامے سے اوجھل کردیا۔ آج اس کے گرد کار پارکنگ، میدان میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اور دھوبیوں کے ناجائز قبضے ہیں۔ جس سے موچی گیٹ کا حسن مانند پڑ گیا ہے اور سیاسی جلسے بھی اب شاز و نادر ہی یہاں منعقد ہوتے ہیں۔

ککری گراؤنڈ

ککری گراؤنڈ کا تاریخی احوال ہمیں کراچی کی تاریخ پر مبنی کتاب’’کراچی سندھ جی ماری‘‘ میں واضح طور پر ملتا ہے۔ جس میں ’گل حسن کلمتی‘ لکھتے ہیں کہ 1911 ء تا 12ء تک یہ گراؤنڈ لیاری ندی کی گزر گاہ تھا، بعدازاں مختلف وجوہات کی بنا پر ندی کا رخ تبدیل ہوگیا، جس کے باعث اس مقام پر گڑھا بن گیا، جسے کنکروں سے بھر کر میدان بنا دیا گیا۔ کنکروں کی بہتات کی وجہ سے اس کا نام ’’کنکری گراؤنڈ‘‘ پڑ گیا، جو بعد میں بگڑ کر ’’ککری گراؤنڈ‘‘ ہوگیا۔ قیام پاکستان سے قبل ہی اس گراؤنڈ کو سیاسی اہمیت حاصل ہوگئی تھی ، جس کا اندازہ یہاں تحریک پاکستان کے عظیم رہنما مولانا محمد علی جوہر کے اس جلسے و خطاب سے لگایا جاسکتا ہے، جس کے بعد اس گراؤنڈ کا نام تبدیل کر کے ’’مولانا محمد علی جوہر پارک‘‘ رکھ دیا گیا۔ لیکن یہ آج بھی ککری گراؤنڈ ہی کے نام سے مشہور ہے۔

قیام پاکستان کے بعد یہ میدان ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کئی اہم سیاسی رہنماؤں کا جلسہ گاہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی و رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے ریلی کا اہتمام کیا، جس نے لیاری کی گلیوں اور سڑکوں پر چکر لگائے، یہ جلوس ککری گراؤنڈ میں جمع ہوا، جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے جلسے سے خطاب کرنے کے بعد کراچی میں پارٹی کا پہلا دفتر قائم کرنے کا اعلان کیا جس کے باعث لیاری پاکستان پیپلز پارٹی کا قلعہ سمجھا جانے لگا، گو کہ اس پارک میں ملک بھر کے کئی اہم رہنماؤں نے سیاسی جلسوں سے خطاب کیا، جن میں میاں نواز شریف، عمران خان، میر غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری، اور نواب اکبر خان بگٹی شامل ہیں۔ لیکن جو چھاپ پیپلز پارٹی نے لیاری پر چھوڑی ہے اسے مٹانے میں کوئی بھی سیاسی جماعت تاحال کامیاب نہیں ہوئی۔

پیپلزپارٹی کے ابتدائی دنوں کے رکن رحیم بخش آزاد المعروف آزاد ابّا، جنہیں کراچی کی سیاسی تاریخ پر دسترس حاصل تھی، کے مطابق، تحریک آزادی کے رہنما مولانا عبداللہ سندھی، محمد صادق کھڈے والا اور مولانا مودودی جیسے رہنماؤں نے ککری گراؤنڈ میں کئی اہم و تاریخ ساز جلسے کیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ، ’’ککری گراؤنڈ، کھیل کے میدان سے سیاسی اکھاڑہ اس وقت بنا جب 1962ء جنرل ایوب خان کے مارشل دور میں افسر شاہی نے یہ زمین کراچی پورٹ کے حوالے کرنے کی کوشش کی، جس پر لیاری کے باسیوں نے ناراضی کا اظہار کیا۔ اسی دوران ون یونٹ کے خلاف یہاں ایک جلسہ منعقد کیا گیا، جس سے عطااللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری سمیت اہم بلوچ رہنماؤں نے خطاب کیا‘‘۔

1986ء میں جب ملک کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے واپس وطن پہنچیں تو انہوں نے بھی سندھ میں پہلا جلسہ ککری گراؤنڈ میں ہی کیا تھا۔ یہی گراؤنڈ تھا جہاں بے نظیر بھٹو شہید اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی شادی کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔

بدقسمتی سے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پارک کے اطراف موجود بڑے بڑے درخت کاٹ کر ان کی جگہ دُکانیں تعمیر کر دی گئیں، جن کی وجہ سے پارک کی خوبصورتی ماند پڑ گئی۔ آج اس پارک میں کرکٹ، فٹ بال اور باکسنگ اسٹیڈیم کے علاوہ جمنازیم ہال بھی ہے جہاں بچے کھیلتے کودتے نظر آتے ہیں, جب کہ بوڑھے افراد یہاں تاش کھیل کر وقت گزارتے ہیں۔ دوسری جانب یہاں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ہیں جو داخلی دروازے سے ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ اب پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں کم و بیش ہی یہاں سیاسی جلسوں کا انعقاد کرتی ہیں، کیوں کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر کے مطابق، ’’آج پارٹی میں کوئی ذوالفقار علی بھٹو نہیں ہے، جو اتنے وسیع گراؤنڈ کو لوگوں سے بھر سکے‘‘۔ اس لیے سیاسی جماعتوں نے عوامی شاہراہوں کو جلسہ گاہوں کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

نشتر پارک

کراچی کی مشہور شاہراہ ایم اے جناح کی پارسی کالونی میں واقع ’’نشتر پارک‘‘ ملک کی سیاسی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ تحریک پاکستان کے رہنما ’’سردار عبدالرب نشتر‘‘ کے نام سے منسوب نشتر پارک، جو کہ کسی زمانے میں ’’پٹیل پارک‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اس وقت یہ پارک کانگریس کے رہنما ’’والابھ بھائی پٹیل‘‘ کے نام سے منسوب تھا۔ گوکہ آج یہ صرف مذہبی اجتماعات کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے، لیکن 60 اور 70 کی دہائی میں اس پارک کا شمار ملک کے بڑے سیاسی اکھاڑوں میں کیا جاتا تھا۔ نامور صحافی عبدالحمید چھاپڑا کے مطابق، ’’نشتر پارک میں منعقد ہونے والے جلسوں میں اہم اور تاریخی جلسہ 1965ء کے صدارتی انتخابات سے قبل مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ایوب خان کے خلاف ہونے والا جلسہ ہے۔ جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔ واضح رہے کہ اس پارک میں صرف 40 ہزار افراد کی گنجائش ہے، نیز سہولتوں کی عدم فراہمی کے باوجود بڑی تعداد میں عوام نے اس جلسے میں شرکت کر کے اسے کام یاب بنایا تھا۔ ملک کی مختلف جلسہ گاہوں میں کامیاب جلسوں کے باوجود محترمہ فاطمہ جناح کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ ایوب خان بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوئے۔

4 جنوری 1970ء کو پی پی پی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو نے نشتر پارک میں ریلی سے خطاب کیا، جو کہ 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ان کی انتخابی مہم کا حصہ تھا۔ بھٹو کے علاوہ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے بھی ستر کے عام انتخابات سے قبل یہاں کام یاب جلسے کیے۔ ان جلسوں میں شیخ مجیب الرحمٰن کا جلسہ اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ، اس میں بنگالیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی، جو اس سے قبل کراچی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔

1970ء میں انتخابات کے دوران جماعت اسلامی کی جانب سے منعقد ہونے والا اجتماع بڑا اور انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس اجتماع میں شریک ہونے والے جماعت اسلامی کے سابق ڈپٹی سیکریٹری عبدالرشید بیگ (مرحوم) کے مطابق، ’’اُس وقت کراچی میں قومی اسمبلی کی صرف چھ نشستیں تھیں۔ 30 اپریل کو ہر حلقے کے امیدوار کی قیادت میں ریلیاں ایم اے جناح روڈ پر پہنچیں اور وہاں سے نشتر پارک روانہ ہوئیں، جہاں جلسہ منعقد کیا گیا۔ جو ایک بہت بڑا اجتماع تھا۔ لیکن یہ ہی اجتماع جماعت اسلامی کا دشمن ثابت ہوا، کیوں کہ جماعت کی مقبولیت دیکھتے ہوئے دوسری مذہبی جماعتیں بھی میدان میں لائی گئیں اور ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت جماعت اسلامی کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔‘‘

1976ء میں اس وقت کے صدر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بننے والی اتحادی جماعت ’’پاکستان نیشنل الائنس‘‘، جس میں نیشنل عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت سات جماعتیں شامل تھیں، نے جلسہ کیا۔ اس جلسے کا شمار بھی نشتر پارک میں ہونے والے بڑے جلسوں کیا جاتا ہے۔

1986ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین نے نشتر پارک میں مہاجروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے جلسے کا انعقاد کیا، جہاں انہوں نے مہاجرین کے لیے علیحدہ سیاسی جماعت مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قیام کا اعلان کیا۔ بعدازاں اس جماعت کا نام تبدیل کر کے متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا۔ اس جلسے کے بعد کئی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اہم جلسے جلوس کیے لیکن اس کے باوجود یہ جلسہ گاہ ایم کیو ایم کے زیر اثر ہی سمجھی جاتی رہی۔

شہر کے قدیم علاقے سولجر بازار میں واقع نشتر پارک میں بارہ ربیع الاول، عید میلادالنبی کے موقعے پر 11 اپریل 2006ء کو ہونے والے بم دھماکے کی یاد آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس پارک میں منعقد ہونے والے اجتماع میں تقریباً ساٹھ افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس جلسے میں سنی تحریک کے سربراہ عباس قادری سمیت مرکزی قیادت، تحریک اہلسنت کے رہنما و ممتاز عالم دین حاجی محمد حنیف بلو اور سابق صوبائی وزیر اور رکن صوبائی اسمبلی حافظ محمد تقی بھی شہید ہوگئے تھے۔ بیشتر افراد کا یہ ماننا ہے کہ شہر میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر نشتر پارک میں سیاسی جلسے نہیں ہو رہے ہیں۔ اب اس پارک کو صرف محرم الحرام کی مجالس اور بارہ ربیع الاول کے جلسے جیسے مذہبی اجتماعات کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ مرحوم عبدالرشید بیگ نے اپنے ایک انٹرویو میں ملکی سیاست سے مایوس ہو کر کہا تھا کہ، ’’آج کل جلسوں کا نہیں جلوسوں کا دور ہے، اس لیے جلسے نہیں جلوس نکالے جاتے ہیں۔ اب سیاسی جماعتیں ان جلوسوں کے لیے کسی سیاسی اکھاڑے کے بجائے اہم شاہراہوں کا انتخاب کرتی ہیں، جن میں ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ لیاقت قابل ذکر ہیں‘‘۔

مینارپاکستان گراؤنڈ

گلشنِ اقبال پارک کہیں، منٹو پارک کہیں، یا پھر اقبال باغ کہہ لیں، یہ تینوں نام ایک ہی باغ کے ہیں۔ یہ لاہور میں 67 ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا شہر کا اہم ترین باغ ہے، جسے نہ صرف سیاسی اعتبار سے بلکہ تاریخی اعتبار سے بھی اہمیت حاصل ہے۔ یہ وہی باغ ہے جہاں 1929ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے لاہور سیشن کے بعد ہندوستان کی آزادی کا سرکاری سطح پر اعلان کرتے ہوئے بھارتی پرچم لہرایا اور مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے مطالبے کو مسترد کردیا، جس کے ٹھیک گیارہ برس بعد اسی مقام پر23 مارچ 1940ء کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی جانب سے قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت تاریخ ساز جلسے کا انعقاد کیا گیا، جس میں قرارداد لاہور (بعدازاں اس قرار داد کو قرار داد پاکستان کہا گیا) متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ اس عظیم اجتماع میں ہندوستان بھر سے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے شرکت کی تھی۔ اس قرار داد کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ اور آزاد وطن کی تحریک کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، جسے آگے چل کر تحریک پاکستان کا نام دیا گیا۔ قرارداد کی منظوری کے ٹھیک سات برس بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ قیام پاکستان کے بعد منٹو پارک میں عین اسی مقام پر 60 میٹر اونچا مینار تعمیر کیا گیا، جس کا نام تحریک پاکستان کی یاد میں ’’مینار پاکستان‘‘ رکھا گیا۔ بعدازاں اِسی مینار کے نام سے منسوب کر کرتے ہوئے اس گراؤنڈ کو ’’مینار پاکستان گراؤنڈ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ منٹو پارک لاہور کو پاکستان کے تاریخی سفر میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ہر دور میں سیاسی جماعتوں نے یہیں سے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ یہاں ہونے والے جلسوں نے قومی سیاست پر لازوال نقوش چھوڑے ہیں۔ پاکستان کی ہر سیاسی و مذہبی جماعت نے یہاں جلسے و اجتماعات کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 1970ء میں جب عام انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کو پاکستان کی کُل نشستوں میں سے 33 فیصد سے زائد نہ مل سکیں، تو انہوں نے یہیں کھڑے ہو کر شیخ مجیب الرحمٰن کو مخاطب کر کے دھمکی دی تھی کہ ’’مغربی پاکستان سے جو رکن اسمبلی مشرقی پاکستان اجلاس میں شرکت کے لئے جائے گا ہم اُس کی ٹانگیں توڑ دیں گے‘‘۔

10 اپریل 1986ء کو بے نظیر بھٹو شہید نے مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں جلسہ کیا اور دعویٰ کیا کہ جلسے میں ستر لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی نے امیر قاضی حسین احمد کی زیر صدارت تین روزہ اجتماع عام کیا۔ ایم کیو ایم نے 14 اگست 2000ء کو پنجاب میں پہلا کامیاب جلسہ مینار پاکستان کے احاطے میں ہی کیا۔ یہ جلسہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تھا۔ دفاع پاکستان کونسل کے تحت دفاع پاکستان کانفرنس بھی مینار پاکستان کے سبزہ زار میں منعقد ہوئی۔ یکم جولائی 2012ء میں "قرآن و سنت کانفرنس" کا عظیم الشان اجتماع بھی یہیں ہوا۔ تحریک انصاف نے پہلے 30 اکتوبر 2011ء اور پھر 23 مارچ 2013ء کو مینار پاکستان کے سائے تلے کامیاب جلسہ کیا۔ اس کے کچھ دن بعد 31 مارچ کو جمعیت علماء اسلام نے بھی یہیں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا، جب کہ 26 مارچ 2016ء کو ہونے والے سانحہ میں اس باغ کو شدید نقصان پہنچا، بعدازاں حکومت پنجاب نے اس کی از سر نوع تعمیر کے بعد شہریوں کے اصرار پر یہاں جلسے، جلوسوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ دوسری جانب حکومت نے لاہور میں ٹریفک کی بندش کے مسائل اور اس سلسلے میں عدالت عالیہ کے حکم کو پیش نظر رکھتے ہوئے، جلسوں اور دھرنوں کے لئے ناصر باغ کوہائیڈ پارک کا درجہ دے دیا ہے۔

لیاقت نیشنل باغ

راولپنڈی میں واقع کمپنی باغ جسے لیاقت نیشنل باغ یا لیاقت باغ کے نام سے پہچانا جاتا ہے، کوئی عام باغ نہیں ہے بلکہ یہ ملک کی سیاسی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ جس کا بہ خوبی اندازہ اس کی جیوگرافیائی پوزیشن اور اس سے جڑی دو تلخ یادوں سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ہم پہلے اس کی جیوگرافیائی اہمیت پر غور کریں گے۔ یہ باغ راولپنڈی کے بیچ و بیچ واقع ہے، اس لیے نہ صرف اندرون شہر بلکہ مضافات سے بھی بآسانی یہاں پہنچا جاسکتا ہے۔ اس باغ کا شمار پاکستان کے نیشنل پارکس میں کیا جاتا ہے۔ ’’راولپنڈی پریس کلب‘‘ اس کے عقب میں واقع ہے، جو کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کی اس باغ میں دلچسپی کا بنیادی سبب ہے۔ چوں کہ یہ شہر کا مرکز بھی ہے، اس لیے یہاں منعقد ہونے والے چھوٹے سے چھوٹے اجتماع یا سیاسی جلسے کو بھی خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ پر یس کلب کے ساتھ ہی لیاقت اسپورٹس کمپلیکس واقع ہے، جہاں مختلف سطحوں پر کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

شہر کے مرکز میں واقع ہونے کے باعث، ملکی سیاسی تاریخ میں اس کی سیاسی اجتماعات اور جلسوں کے انعقاد کے حوالے سے بھی خاص اہمیت ہے۔ اس جلسہ گاہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد کی کنجائش ہے۔ نیز یہاں نہ صرف راولپنڈی بلکہ دیگر شہروں سے بھی عوام کی رسائی نہایت آسان ہے، اس لیے تمام سیاسی جماعتیں یہاں جلسے کر کے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہیں، گوکہ اس باغ سے ملکی سیاسی تاریخ کی دو تلخ یادیں ہیں، پہلی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت اور دوسری، پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل، سے جڑی ہوئی ہیں۔

قیام پاکستان کے صرف چار برس بعد 16 اکتوبر 1951ء کو سرما کی سرد شام میں نوابزادہ لیاقت علی خان پونے چار بجے جلسہ گاہ یعنی کمپنی باغ راولپنڈی پہنچے، جہاں انہیں پاکستان مسلم لیگ کے جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ مسلم لیگ کے ضلعی رہنما شیخ مسعود صادق کے خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے۔ انہوں نے ابھی ’’برادران ملت‘‘ کے الفاظ ادا ہی کیے تھے کہ، جلسہ گاہ میں موجود ایک شخص نے وزیر اعظم پر یکے بعد دیگرے دو گولیاں چلا کر انہیں شہید کر دیا۔ اس سانحے کے بعد ’’کمپنی باغ‘‘ کا نام وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے نام سے منسوب کرکے’’لیاقت باغ‘‘ رکھ دیا گیا۔

لیاقت باغ سے شہید لیاقت علی خان کے تاریخ ساز جلسے کی یادیں منسلک ہیں، اس لیے بھی اس کی سیاسی اہمیت بڑھ جاتی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ ہر عہد کے سیاسی رہنما چاہتے ہیں کہ وہ یہاں جلسے کریں، شہید ملّت کی یادوں کو تازہ کریں اور عوام میں وہی جوش و ولولہ بیدار کریں جو اس زمانے میں تھا۔ ایسا ہی شہید بے نظیر بھٹو بھی چاہتی تھیں، اسی لیے انہوں نے وطن واپس آنے کے صرف دو ماہ بعد 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی لیاقت باغ میں جلسے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں انہیں ووٹ دینے کی اپیل کی، ان کا جلسہ امید کے مطابق کامیاب رہا۔ تقریباً 6 بجے کر 18 منٹ کے قریب جب وہ جلسہ گاہ سے واپسی کے لیے روانہ ہوئیں تو اسی دوران کسی خود کُش حملہ آوار نے ان پر حملہ کرکے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔ جس کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو اور حملہ آوار سمیت چوبیس افراد جاں بحق جب کہ کئی زخمی ہوگئے۔

یہاں کئی اہم جلسے منعقد ہوئے، جن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا 27 مئی 2012 کو ہونے والا جلسہ بھی شامل ہے۔ چوں کہ پی ٹی آئی نے 2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، اس لیے 2013 کے انتخابات ان کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ ان کا یہ جلسہ کامیاب تو رہا لیکن اس حلقے سے انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی، مگر اس جلسے کا اثر یہ ہوا کہ ،شہر کے دیگر چھ حلقوں میں سے قومی اسمبلی کی 2 نشیستیں اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے علاوہ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام عام سیاسی جلسے کا انعقاد بھی لیاقت باغ میں کیا گیا، جس میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کرکے اسے کامیاب بنا دیا۔ لیکن کئی اہم اور کامیاب جلسوں کے باوجود آج بھی لیاقت باغ کو اگر کسی حوالے سے پہچانا جاتا ہے تو وہ دو سیاست دانوں کے قتل ہی ہیں۔ یعنی شہید ملّت خان لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو شہید۔

پولو گراؤنڈ

مختلف ادوار میں پولو گراؤنڈ کے نام تبدیل کیے گئے۔ کبھی اسے شیر پاؤ گارڈن کہا گیا تو کبھی گلشنِ جناح مگر آج بھی یہ پولو گراؤنڈ کے نام سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ بیس ایکڑ رقبع پر پھیلا ہوا، دو لاکھ افراد کی گنجائش رکھنے والا یہ وہی گراؤنڈ ہے، جہاں پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے حلف اُٹھایا اور آزادی کے بعد پہلی مارچ پاس بھی یہیں سے ہوئی تھی۔ سیاسی جلسہ گاہوں کی فہرست میں شامل یہ گراؤنڈ نمازِ عیدین کے علاوہ عوامی تفریحی کے لیے بھی مقبول ہے۔ شام ہوتے ہی مقامی افراد یہاں چہل قدمی، ورزش اور تازی ہوا و پُر سکون ماحول میں وقت گزارنے کے لیے آتے ہیں۔ جب کہ نوجوان یہاں فٹ بال اور کرکٹ کھیل کر اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ اگر ہم اس گراؤنڈ میں، حال ہی میں منعقد ہونے والے کامیاب جلسوں کی بات کریں تو گزشتہ عام انتخابات سے قبل 25 دسمبر 2011 کو پی ٹی آئی نے اس گراؤنڈ میں کامیاب جلسہ کیا تھا۔ جس میں شرکاء کے لیے پینتیس شٹل سروس کا انتظام کیا گیا تا کہ انہیں جلسہ گاہ تک پہنچنے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نیز جلسہ گاہ میں ساٹھ ہزار افراد کے بیٹھنے کے لیے کرسیوں کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ تاہم اس گراؤنڈ میں تقریباً دو لاکھ افراد کی گنجائش ہے۔ اس جلسے کے صرف دو ماہ بعد ایم کیو ایم نے بھی اپنی سیاسی دھاگ بٹھانے کے لیے 19 فروری کو اسی گراؤنڈ میں خواتین کے حقوق کے لیے ریلی نکالی۔ جس کا نعرہ ’’بااختیار خواتین ۔ مضبوط پاکستان‘‘ تھا۔ اس جلسے میں 36 فٹ اونچا اسٹیج سجایا گیا تھا، جب کہ شرکاء کے لیے ایک لاکھ سے زائد کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔

اختر بلوچ اپنے مضمون میں اس گراؤنڈ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پولو گراؤنڈ دراصل ہندو جیم خانہ کا حصہ تھا۔ تقسیم ہند کے بعد جس طرح ہندووں کے ہاتھوں سے ہندو جیم خانہ گیا، اُسی طرح پولو گراؤنڈ بھی گیا۔ تقسیم ہند کے بعد جب کراچی پاکستان کا دارلخلافہ بنا تو 14 اگست کو فوجی پریڈ پولو گراؤنڈ میں ہی ہوا کرتی تھی۔ ان کے مطابق 1965 کی جنگ میں انڈین آرمی سے چھینے گئے ہتھیاروں کی نمائش بھی پولو گراؤنڈ میں کی گئی تھی۔

1962ء میں جب ایوب خان نے اپنی آمریت کو دوام دینے کے لیے کنوینشن لیگ بنائی تو ان کا پہلا جلسہ پولو گراؤنڈ کراچی میں ہی منقد ہوا۔ اسی دور میں طلباء کی جانب سے حکومت مخالف سر گرمیوں کو روکنے کے لیے یونیورسٹی آرڈینینس جاری کیا گیا تھا۔ جس کے تحت وائس چانسلرز کو یہ اختیار حاصل ہو گیا تھا کہ وہ کسی بھی طالب علم کو ناپسندیدہ سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونے پر نہ صرف اس کی ڈگری بلکہ داخلہ بھی منسوخ کر سکتے تھے۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے یہ طے کیا گیا کہ کنوینشن لیگ کے جلسے میں اس کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا جائے گا۔ نامور سیاسی رہنما معراج محمد خان مرحوم کو اس احتجاج کی قیادت سونپی گئی تھی۔ اختر بلوچ کے مطابق، وہ (معراج محمد خان مرحوم) اس احتجاج کی کہانی یوں بیان کرتے ہیں کہ، ’’ایوب خان کے دور میں سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی تھی۔ طلبہ کے لیے دو سالہ ڈگری کورس کی بجائے تین سالہ ڈگری کورس متعارف کرایا گیا۔ اس کے ساتھ فیسوں میں اضافہ اور یونیورسٹی آرڈینینس جاری کیا گیا۔ جس سے طلبہ میں شدید بے چینی پیدا ہو گئی تھی۔ پولو گراونڈ کے جلسے میں احتجاج کے لیے اصل مسئلہ گراؤنڈ میں داخلے کا تھا۔ جلسے میں بدمزگی اور بد انتظامی کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے لیاری کے ’’شیرو دادل‘‘ کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ واضح رہے کہ داد محمد عرف دادل لیاری امن کمیٹی کے سربراہ رحمٰن بلوچ مرحوم کے والد تھے۔ جلسے سے ایک روز قبل طلبہ اور طالبات نے لیاری میں ان سے ملاقات کی۔ ابتدا میں انہوں نے کسی بھی قسم کے تعاون سے انکار کیا۔ بعدازاں انہوں نے صرف پندرہ منٹ کی اجازت دے دی۔ اگلے روز طلبہ تنظیم کے کارکن ہاتھوں میں بینر اُٹھائے جلسہ گاہ میں داخل ہوگئے۔ مجھ سمیت علی مختار رضوی، سید سعید حسن اور فتح یاب خان اسٹیج پر چڑھ گئے۔ اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو اور سید سعید حسن کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی، مگر ہم یونیورسٹی آرڈینینس، فیسوں میں اضافے اور تین سالہ ڈگری کورس کے خلاف قراردادیں منظور کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ بعدازاں جلسہ ہنگامے کی نذر ہو گیا۔ جس کے باعث اگلے روز ہم سب کو کراچی بدر کر دیا گیا‘‘۔ معراج محمد خان کے مطابق، انقلابی شاعر حبیب جالب نے اسی احتجاج اور کراچی بدر کرنے کے اس واقعے کی مناسبت سے ایک قطعہ لکھا، آپ بھی پڑھیں۔

فضا میں جس نے بھی اپنا لہو اچھال دیا

ستم گروں نے اسے شہر سے نکال دیا

یہی تو ہم سے رفیقان شب کو شکوہ ہے

کہ ہم نے صبح کے رستے پہ خود کو ڈال دیا

محقق عقیل عباس جعفری اپنی کتاب پاکستان کرانیکل کے صفحہ نمبر 205 پر، کراچی کے 12 طلبہ کی شہر بدری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ، ’’12 ستمبر 1962 کو گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان (نواب کالا باغ) نے ضلع کراچی کے بارہ طلبہ کو مغربی پاکستان کے پبلک سیفٹی آدڑینینس کے تحت شہر بدر کرنے کے احکام جاری کر دیے۔ ان احکام میں کہا گیا تھا کہ یہ طلبہ مسلسل ایسی سرگرمیوں میں حصّہ لے رہے تھے، جو امن عامہ اور تعلیمی نظم و ضبط کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان احکام کے تحت کر اچی کے جن بارہ طلبہ کو شہر بدر کیا گیا تھا، ان میں فتح یاب علی خان، حُسین نقی، سید سعید حسن، معراج محمد خان، خرّم مرزا، نواز بٹ، واحد بشیر، جوہر حسین، علی مختار رضوی، آغاز جعفری، نفیس صدیقی اور امیر حیدر کاظمی شامل تھے۔ کراچی سے شہر بدر ہونے کے بعد ان طلبہ کے لاہور، حیدرآباد، پشاور، راولپنڈی اور ملتان میں داخل ہونے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ جس کے باعث ان طلبہ نے سکھر میں رہائش اختیار کی۔ ایک ماہ بعد 11 اکتوبر 1962 کو ان طلبہ کی شہر بدری کے احکام واپس لے لیے گئے۔ جس کے بعد 15 اکتوبر کو یہ طلبہ تیزرو (لاہور سے کراچی آنے والی ایک ٹرین) کے زریعے کراچی پہنچے تو کراچی کے عوام نے ان کا پرجوش خیر مقدم کیا اور انہیں جلوس کی شکل میں ان کے گھروں تک لے جایا گیا۔ اس ضمن میں رئیس امروہی نے ایک قطعہ بھی اپنی کتاب میں اس حوالے سے لکھا، ملاحظہ کریں۔

تم نے ثابت کیا عزم و عمل سے

اپنے زندگانی ہے حیاتِ عملی زندہ باد

تم ہو ایثار و صداقت کا ہراول دستہ

طالبات و طلبہ! زندہ و تابندہ باد

اختر بلوچ اپنے مضمون میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ، پولو گراؤنڈ کے بعد اس کا نام معروف سیاسی رہنما حیات شیرپاؤ کے نام پر ’’شیر پاؤ گارڈن‘‘ رکھا گیا۔ واضح رہے کہ حیات محمد شیرپاؤ 70 کی دہائی میں سابقہ صوبہ سرحد اور حالیہ خیبر پختون خواہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نامور رہنما تھے۔ جنہیں آٹھ فروری 1975 ء کو ایک بم دھماکے میں قتل کر دیا گیا تھا. بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسے’’ باغِ قائد اعظم‘‘ یا ’’گلشنِ جناح‘‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ، ’’زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو‘‘، تو زبان خلق میں یہ آج بھی پولو گراونڈ ہی ہے۔

ٹنکی گراؤنڈ

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چئیرمین ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکومت کے دوران 1972ء میں اس وقت کے وزیر اعلی سندھ ممتاز بھٹو نے سندھی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا تو کراچی میں اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان لسانی فسادات پھوٹ پڑے، ان فسادات میں اردو زبان سے تعلق رکھنے والے چھ افراد ہلاک ہوگئے۔ بعدازاں شہر میں کرفیو نافذ کیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے صوبے میں بسنے والی دونوں اکائیوں کے رہنماؤں سے مذاکرات کے بعد فیصلہ کیا کہ، اردوبدستور قومی زبان رہے گی لیکن سرکاری، نجی اور تعلیمی اداروں میں سندھی زبان لازمی پڑھائی جائے گی اور صوبے سندھ کی سرکاری زبان سندھی ہوگی۔ اردو سندھی زبان کے اس تنازعہ میں شہید ہونے والے ان چھ شہیداؤں کی یاد میں لیاقت آباد کے ایف سی ایریا میں واقع اس گراؤنڈ کا نام ’’شہدائے اردو گراؤنڈ‘‘ رکھ دیا گیا۔ واضح رہے کہ یہ وہی تنازعہ ہے جس کے پیشِ نظر ریئس امروہی نے اپنی مشہور نظم ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ لکھی تھی۔ بعدازاں یہاں قائم ٹنکی کی مناسبت سے اسے ٹنکی گراؤنڈ کے نام سے پہچانا جانے لگا۔ 80 کی دہائی میں اردو بولنے والوں کی سیاسی جماعت ’’مہاجر قومی مومنٹ‘‘ نے اس گراؤنڈ میں کئی جلسے کیے، جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور انہیں کامیاب بنایا۔ اسی مناسبت سے یہ تاثر پیدا ہوا گیا ہے کہ، یہ علاقے ایم کیو ایم کا گڑھ ہے۔

حکیم محمد سعید پارک

مذہب، طب و حکمت پر 200 سے زائد کتب تصنیف و تالیف کرنے والے، ہمدرد پاکستان اور ہمدرد یونیورسٹی کے بانی مرحوم حکیم محمد سعید کو کون نہیں جانتا، ان کے نام سے منسوب حکیم محمد سعید پارک اور اس سے متصل فٹ بال پلے گراؤنڈ گزشتہ دنوں خبروں کی زینت اُس وقت بنا، جب پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان ایک ہی مقام یعنی حکیم سعید گراؤنڈ میں جلسے منعقد کرنے کے معاملے پر تصادم ہو گیا تھا، جس میں کئی افراد زخمی ہو گئے تھے حتیٰ کہ انتظامیہ کو پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری طلب کرنا پڑی۔ اگر اس گراؤنڈ کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس سے قبل ماضی میں کبھی کوئی جلسہ یہاں منعقد نہیں کیا گیا، تاہم بقر عید پر الائیشں جمع کرنے، پی ایس ایل کی پارکنگ اور میلے لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ نیر یہاں مقامی نوجوان کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے جب کہ چند افراد گاڑی چلانے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔

تازہ ترین