• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تیرے خیال پہ شب خوں توخیر کیا کرتے
بہت ہوا تو اک اوچھا سا ہاتھ مار آئے
مصطفی زیدی کے اس شعر کو ایبٹ آباد آپریشن کے تناظر میں پڑھئے تو شاید لطف زیادہ آئے۔ بہرحال ہمارے لوگ بذلہ سنج واقع ہوئے ہیں اور طنز و مزاح کا کوئی پہلو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، خواہ موقع غم کا ہو یا خوشی کا۔ اب دیکھئے سینڈی طوفان کی ہولناک اور افسوسناک تباہ کاریوں پر بھی یار لوگوں نے ایسے ایس ایم ایس بھیجے کہ لطف آگیا۔ لکھا تھا کہ امریکہ نے اسامہ کو سمندر برد کیا ہے اب وہ سمندر میں وضو کرنے کے لئے کلیاں کر رہا ہے تو سینڈی طوفان آگیا اور نیویارک اور نیوجرسی کی گلیوں کو پانی سے بھر گیا۔ بہرحال مذاق تو مذاق ہے لیکن جو جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہ افسوسناک ہے اور ہماری تمام ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں سے ہیں جن کے پیارے طوفان کی وجہ سے ان سے جدا ہو گئے اور نوکری پیشہ سفید پوش لوگ جن کے تمام اثاثے طوفان کی نذر ہو گئے ہیں ہمیں امریکی عوام کے جان و مال کے ضائع ہونے کا افسوس ہے۔ کاش وہ بھی کبھی ہمارے بے گناہ شہریوں کی ڈرون حملوں میں شہادت پر اشکبار ہوں۔ بقول احمد فراز
اب تو ہمیں بھی ترک مراسم کا دکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تو کرے
سپریم کورٹ بار کے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر پروفیشنل گروپ ناکام ہو گیا اور پیپلزپارٹی اور نواز شریف کے حمایت یافتہ امیدوار کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ جیتنے والے امیدوار میاں اسرار اور ان کے پینل کو محترمہ عاصمہ جہانگیر اور یٰسین آزاد کی حمایت حاصل تھی، مقابلہ بہت سخت تھا مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ جیتنے والے امیدوار اتنے زیادہ ووٹ لے جائیں گے۔ میں نے گزشتہ انتخابات میں احمد اویس کی شکست کے اسباب پر کالم لکھا تھا مگر اس دفعہ وہ تمام اسباب نہیں تھے اور ظاہری طور پر ان کی پوزیشن بھی اچھی دکھائی دیتی تھی مگر اس کے باوجود پروفیشنل گروپ کی ناکامی ان کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ تیسری مرتبہ یکے بعد دیگرے گروپ کی ناکامی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے اور اب اس کے اثرات ہائیکورٹ بار کے انتخابات پر بھی نمایاں ہونے کے امکانات ہیں۔سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات جلد ہی ہونے والے ہیں اور وہاں بھی یہی دونوں گروپ آپس میں مد مقابل ہیں، اس پر صوفی تبسم کا ایک شعر یاد آیا
طوفان موج خیز کے خوگر، سنبھل! سنبھل!!
حائل ہیں تیری راہ میں ساحل جگہ جگہ
عمران خان کو ان کے حالیہ دورہ کے دوران اگرچہ امریکہ میں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہوئی مگر کینیڈا میں 4 گھنٹے کے لئے روک لیا گیا، اس سے پہلے شیخ رشید کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ ایک طرف تو امریکی حکومت پاکستانی عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے لاکھوں ڈالر اشتہاری مہموں پر خرچ کر رہی ہے اور یو ایس ایڈ کے اشتہارات تقریباً تمام چینلز پر دکھائے جاتے ہیں دوسری طرف عوامی لیڈروں کے ساتھ ناروا سلوک اس تمام محنت پر پانی پھیر دیتا ہے جو وہ پروپیگنڈے پر خرچ کر رہے ہیں اس پر فیض احمد فیض کا شعر لکھ دیتا ہوں
تیری چشم الم نواز کی خیر
دل میں کوئی گلا نہیں باقی
اخباری اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن انتخابات کروانے میں سنجیدہ نظر آرہا ہے اور حکومتی بیانات بھی کچھ اسی طرح کے ہیں دوسری طرف اپوزیشن بھی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ خاص طور پر میاں نواز شریف آج کل حرکت میں آگئے ہیں اور کافی دنوں کی خاموشی کے بعد ان کی سیاسی سرگرمیاں یکایک تیز ہوگئی ہیں۔ ادھر مذہبی جماعتیں بھی اپنا اتحاد بنانے میں خاصی سرگرم نظر آرہی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے انتخابات میں ایم ایم اے کو کتاب کا نشان ملا تھا اور قاضی حسین احمد کی سربراہی میں ایم ایم اے نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی، اب بھی خیال ہے کہ اگر مذہبی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہوگئیں تو حیران کن انتخابی نتائج آسکتے ہیں کیونکہ موجودہ نظام ناکام ہو گیا ہے، عوام اس سے بیزار آگئے، انسانی جان و مال بالکل محفوظ نہیں، مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے، سفید پوش انسان کا گزارا مشکل ہو گیا ہے۔ امن و امان کی صورت حال کی وجہ سے لوگ اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں اور اس طرح کے ریمارکس سپریم کورٹ کے بنچ نے اپنے حالیہ کراچی میں ہونے والی عدالتی کارروائی میں بھی دیئے ہیں اور یہ سچ بات ہے۔ ایسی صورت میں کچھ بعید نہیں کہ لوگ ایک نئے نظام کی طرف رجوع ہو جائیں اور انتخابی نتائج یکسر بدل جائیں۔ اگر مذہبی اور جہادی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہو کر الیکشن لڑیں تو ان حالات میں حیران کن کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اور حکومت وقت کو اس اتحاد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بقول فیض
عہد وفا یا ترک محبت جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے، ہم سے کیا منواؤ گے
تازہ ترین