• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طویل عرصے کے بعد پاکستان کے اندر امن کا ماحول میسر آیا ہے اور تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے ۔ اس مرتبہ رمضان المبارک کا پورا مہینہ امن سے گزر گیا اور دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا ۔ عید الفطر بھی خیریت سے گزر گئی ۔ ملک بھر میں لوگوں نے بے فکری سے عید کی خوشیاں منائیں لیکن عید والے دن پورے ملک میں صرف چند گھر ایسے تھے ، جہاں سوگ اور ماتم تھا اور یہ چند گھر پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے ان جوانوں کے تھے ،جنہیں دہشت گردی کے حملوں میں شہید کر دیا گیا ۔ ایسے چند گھر کنٹر اور کوئٹہ میں تھے ۔ کنٹر میں پاک فوج کے تین جوانوں سپاہی آفتاب ، سپاہی عثمان اور حوالدار افتخار کی میتیں عید والے دن ان کے اہل خانہ کے حوالے کی گئیں ۔ عید سے ایک روز قبل شمالی وزیرستان کی تحصیل شوال کی چیک پوسٹ پر افغانستان سے دہشت گردوں نے حملہ کیا ، جس میں یہ تینوں جوان شہید ہو گئے تھے ۔ اسی طرح عید والے دن ہی کوئٹہ میں لیویز کے ایک اہلکار انور علی کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی ، جس میں انور علی اپنے دو بھائیوں حبیب اللہ اور نجیب اللہ سمیت شہید ہو گئے ۔ تین بھائیوں کی لاشیں گھر پر پہنچیں تو وہاں کہرام مچ گیا ۔
دہشت گردی کو بہت حد تک کنٹرول کر لیا گیا ہے لیکن ہماری سیکورٹی فورسز اب بھی حالت جنگ میں ہیں ۔ اس وقت جو بھی امن ہے ، وہ ہماری سیکورٹی فورسز کے لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے ۔ یہ قربانیاںرنگ لائی ہیں اور دہشت گرد پسپا ہو ئے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ دہشت گردوں کا ابھی تک مکمل خاتمہ نہیں ہوا لیکن یہ بہت بڑی پیش رفت ہے کہ ہماری سیکورٹی فورسز بشمول مسلح افواج ، نیم فوجی اداروں اور پولیس سمیت سویلین فورسز نے دہشت گردوں کو ’’ انگیج ‘‘ ( Engage ) کر دیا ہے اور وہ عام لوگوں پر حملے نہیں کر پا رہے ہیں ۔ ہماری سیکورٹی فورسز نے یہ جنگ اپنے اوپر لے لی ہے ۔
یہ بات درست نہیں ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی 2001 ء میں امریکہ میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد شروع ہوئی ۔ ہمارے ہاں 1970 ء کے عشرے کے آخر میں دہشت گردی کا آغاز ہو گیا تھا ، جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا اور امریکہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑنے کی تیاری کر رہا تھا ۔ اس سے قبل عالمی ایجنڈے کے تحت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت قائم کر دی گئی ۔ سرد جنگ کے عہد کے منطقی انجام تک پہنچنے کے حالات پیدا ہو چکے تھے ۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں جمہوری اور سیاسی تحریکوں کو دبانے یا ختم کرنے کے لئے دہشت گردی کا حربہ اختیار کیا گیا تھا۔ اسی زمانے میں پاکستان کے اندر دہشت گردوں نے اپنی کارروائیاں شروع کر دی تھیں لیکن یہ بات واضح نہیں تھی کہ یہ دہشت گرد کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ اس لئے ان دہشت گردوں کو ’’ نامعلوم کا نام دیا گیا ۔ یہ نامعلوم دہشت گرد مسلسل کارروائیاں کرتے رہے تاوقتیکہ سرد جنگ کا عہد ختم ہوا ۔ دنیا پر امریکی نیوورلڈ آرڈر نافذ کیا گیا اور پھر نئے ورلڈ آرڈر کے تحت دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ کی ضرورت پیدا کی گئی ۔ اسی اثنا میں امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اور پھر دہشت گرد عالمی سیاست کا بنیادی فیکٹر بن گئے ۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کے حقیقی اسباب موجود نہیں تھے لیکن دہشت گردی میں اضافہ ہوتا گیا اور پوری دنیا کو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں الجھا دیا گیا ۔ 1970 ء کے عشرے کے آخر میں پاکستان کے نامعلوم دہشت گردوں کو نائن الیون کے بعد اپنی دہشت گردی کے تسلسل کا جواز میسر آگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں انتہا پسند تنظیمیں پھیلنے لگیں ۔ نامعلوم دہشت گردوں کو نام مل گیا لیکن پاکستان ان کے عذاب میں مبتلا ہو گیا ۔ 1970 ء کے عشرے کے آخر سے شروع ہونے والی دہشت گردی اب تک جاری تھی اور گزشتہ دو سال سے اس میں واضح کمی محسوس ہو رہی ہے ۔
یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ دہشت گردی پر پہلے کیوں قابو نہیں پایا جا سکا ؟ اس پر مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ اس سوال کا جواب حاصل کیے بغیر پاکستان میں مستقبل کی قومی سیاست کا رخ متعین نہیں ہو سکتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ 16 دسمبر 2014 ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحہ عظیم کے بعد دہشت گردی کے خلاف پاکستان میں وہ جنگ شروع ہوئی ، جو بہت پہلے شروع ہونی چاہئے تھی۔ اس جنگ میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر اس دہشت گردی کا مقابلہ کیا ، جو سرد جنگ کے آخری زمانے میں عالمی ایجنڈے کے طور پر شروع کی گئی تھی ۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کئی کامیاب آپریشنز کئے گئے ۔ سیکورٹی فورسز کے جوانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں آج ہمیں امن نصیب ہوا ہے۔ ہمارے بچوں نے تو پہلی مرتبہ ایسا پرامن ماحول دیکھا ہو گیا ۔
ملٹری ، پیرا ملٹری اور سویلین فورسز کے افسران اور جوان مذہبی تہواروں پر بھی اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ سرحد پر ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ شہروں میں ہماری حفاظت پر مامور ہوتے ہیں ۔ ان کی ڈیوٹی ایسی ہے ، جس میں ہر وقت زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے۔ ہماری سیکورٹی فورسز کے بارے میں جو منفی تاثر پھیلایا گیا ہے یا پھیلایا جا رہا ہے ، وہ نہ صرف درست نہیں ہے بلکہ قابل مذمت ہے ۔ پاکستان میں فوجی اور سویلین کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کا مخالف تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ فوجی اور سویلین کا مفادات کا ٹکراؤ ہے ۔ اگر سیکورٹی فورسز کی قربانیوں کے پہلو کو مدنظر رکھا جائے تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں ۔ سیکورٹی فورسز کے جن اہلکاروں کی لاشیں عید والے دن ان کے اہل خانہ کو موصول ہوئیں ، وہ ہم سویلین کے بچے تھے ۔ انہوں نے ہمارے لئے جانیں قربان کیں ۔ اس قربانی کا ان خاندانوں سے پوچھیں ، جب سب لوگ خوشیاں منا رہے تھے اور وہ اپنے جوان بچوں کے لاشے اٹھا رہے تھے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین