• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو سیاسی اُفق پر تحریک انصاف کا چاند دیکھنے کی خاطر نوجوانوں کی بڑی تعدا د بے تاب ہے۔ دوسری طرف سرکاری رپورٹس کے مطابق وطن عزیز کی 63 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے،ان میں زیادہ تعداد پشتو بولنے والوں کی ہے۔ یوں تو تحریک انصاف نے گزشتہ انتخابات کی نسبت نوجوانوں کو کم ٹکٹس دئیے ہیں، لیکن پی ٹی آئی کا اصل جوہر پھر بھی نوجوان ہیں۔ انتخابات کے حوالے سےسیاسی مبصرین اورجہاندیدہ تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ آنے والا دور بھی مسائل اور ملکی سطح پرکسی ایسی تبدیلی کا نقیب نہیں بن سکے گا، جو آگے چل کر ملک وملت کی تقدیر بدل ڈالے۔باالفاظ دیگراسٹیٹس کو برقرار رہےگا۔یعنی یہ تبدیلی کسی ’ تبدیلی‘ کیلئے نہیں ہوگی ۔اور یوں بقول ناصر کاظمی .
نئے پیالے سہی تیرے دور میں ساقی
یہ دور میری شرابِ کہن کو ترسے گا
دوسری طرف دیگر تجزیہ نگار ایسے خیالات کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تو قنوطیت کا شکار ہیں، ان کا تو مزاج ہی یہ بن گیا ہے،جیسا کہ منیر نیازی نےکہا تھا۔
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
عام تاثر یہ ہے کہ ان انتخابات میں اصل مقابلہ دو جماعتوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ میں ہوگا،بعض مخصوص حالات کی وجہ سے تحریک انصاف کی کامیابی کا ڈھنڈورا ابھی سے پیٹا بھی جارہا ہے، لیکن گردشِ ایام میں یہ بھی ناممکن نہیں کہ مسلم لیگ کوئی معجزہ دکھائے۔تحریک انصاف تو 2013کے انتخابات کے بعد سے ہی عوامی قوت ثابت ہوچکی ہے، لیکن اب تو اوپر والوں کی عنایتیں بھی کچھ زیادہ نمایاں ہونے لگی ہیں۔اور جو ایک لیکن بنیادی رکاوٹ اسلام آباد اور بنی گالہ میں فاصلہ نہ ہونے کے باوجودصورتِ فصیل تھی، وہ بھی عمرے کی ’برکت ‘ کی وجہ سے دور ہوگئی ہے۔پاکستان میں روایت یہ ہے کہ جب ایک سیاسی جماعت کی حکومت چلی جاتی ہے، تو پھر اُسی سبکدوش حکومت کی دوبارہ واپسی کا یقین بہت کم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کارکردگی نہیں ، بلکہ دیکھا یہ جاتا تھا کہ چونکہ اس حکومت کو چلتا کیا گیاہے، لہذاکیونکر دوبارہ اس جماعت کی حکومت کو آنے دیا جائیگا۔آپ اس کی نظیر بالخصوص 1988 سے1998 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کی ہر دو تین سال بعد شکست و ریخت کی صورت میںدیکھ چکے ہیں۔پھر جن حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی، اُن کو بھی نکیل ڈال دی گئی تھی، با ر بار صاف نظر آیا کہ جہاں کسی حکومت نے ذرا زور آزمائی کی کوشش کی ، تو کس طرح عضو معطل بناتے ہوئے اُسے رسوا سرِ بازار کیا گیا۔ میاں صاحب کے ساتھ پے در پے ہونے والے واقعات تو ایسا صاف اشارہ ہیںکہ سیاسی و غیرسیاسی ہر کوئی جاننے لگا ہے کہ مستقبل کا نقشہ کیا ہوسکتا ہے۔ ان صداقتوں کے باوصف اگر پھر بھی مقابلے کی صورت ہے ، تو اُس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ پنجاب میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ اورپرو نیشنلسٹ سوچ تاریخ کی معراج پر ہے۔نوازشریف صاحب مزاحمتی علامت بن چکے ہیں ، اور اس سوچ کا فی الحال ایک یہ بھی فائدہ ہوا ہے کہ بزدلوں کے غول کے غول اُس طرح مسلم لیگ سے اُڑان نہیں بھر سکے ہیں، جیسا کہ ماضی میں ایسے ہی حالات میں معمول رہا ہے۔یوں انتخابات میں مسلم لیگ، تحریک انصاف کو یقیناً ٹف ٹائم دے گی۔دوسری طرف عمران خان صاحب نے اس مرتبہ حیران کن طور پر تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے، الیکشن جیتنے کے لئے تقریباً تمام فنون بروقت و برمحل کام میں لائے ہیں۔ٹکٹوں کی تقسیم پر شور شرابہ اپنی جگہ، پرانے اور قربانی دینے والوں کو خاطر میں نہ لانا بھی درست ہوسکتاہے، لیکن ٹکٹوں کی تقسیم ایسی کی گئی ہے کہ ٹکٹ کی قدروقیمت کے زیاں کے کم سے کم امکانات ہیں۔پنجاب میں سخت مقابلے کی توقع ہے اور پختونخوامیں جے یو آئی و ایم ایم اے سے اگر مسلم لیگ سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کرلیتی ہے، تو وہاں بھی تحریک انصاف کو مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے۔پنجاب میں پیپلز پارٹی کی تحلیل کے بعد اب تحریک انصاف کاکوئی تیسرا حریف رہا ہی نہیں ہے۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سندھ میں مسلم لیگ اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کو امیدواروں کا نہ ملنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ جماعتیں وفاقی جماعتوں کےاسٹیٹس سے محروم ہوتی جارہی ہیں، اور تحریک انصاف ہی وفاق کی صحیح معنوں میں نمائند گی کی دعویدار بن رہی ہے۔پختونخوامیں پی ٹی آئی کی کامیابی پہلے سے بھی بڑھ کر ہوسکتی ہے اور سندھ بالخصوص کراچی میں اگر عمران خان نے دلچسپی لی تو کراچی میںان کی جماعت ایم کیو ایم کے بعد دوسر ی پوزیشن پر قبضہ جمانےکی قوت رکھتی ہے۔
جہاں تک بلوچستان کی بات ہے ، تو وہاں تو ہمیشہ کھچڑی ہی پکتی ہے۔پھر جیسے سینیٹ کا چیئرمین بنا، اسی طرح عمران خان کو بھی’ثواب ‘دلوایا جاسکتاہے۔وگرنہ اس وقت اپنی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر پختونخواملی عوامی پارٹی سب سے آگے ہے۔جناب حاصل بزنجو کے علاوہ سرداراخترمینگل صاحب کی جماعت اور جےیو آئی پھر آزاد امیدواروں میں سیٹوں کا بٹوارہ ہوسکتاہے۔اے این پی بھی یہاں ٹیم ورک کی وجہ سے ایک قوت بن چکی ہے۔اور سچ تو یہ ہے کہ پورے ملک میں اے این پی اگر تنظیمی اور عوامی سطح پر کہیں نظر آتی ہے ، تو وہ بلوچستان ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ہی کے درمیاں اصل معرکہ بپا ہوگا۔ تاہم یہاںیہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ تاحال عوام انتخابات میں دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دےرہے، ہوسکتاہے کہ بعد ازاں سیاسی جماعتیں اُنہیں اِس جانب راغب کرسکیں،لیکن ایسا لگتا ہے کہ عوام بار بار کے تجربات کے بعد اب اپنے مسائل کے حل کے حوالے سے حکومتوں کی تبدیلیوں سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے۔یہی وجہ ہے کہ فی الحال امیدواروں ، پارٹی عہدیداروں اور کاروباری نقطہ نگاہ سے ان انتخابات سے وابستگی رکھنے والوں کے علاوہ عام آدمی کی ان انتخابات میں دلچسپی نہیں ۔ مزید یہ کہ پرانے سیاسی کارکن خواہ وہ کسی بھی جماعت سے وابستہ ہیں، وہ بھی تمام جماعتوں کے ایک جیسے ہونےیعنی کمرشلائزڈ ہونے اورقبل ازانتخابات، نتائج دیکھ کر ان انتخابات کو محض قومی خزانے کا زیاں گردانتے ہیں۔پھر بہت سارے ہماری طرح ماضی میں رہتے ہیں، اور بہت سارے نظریاتی کارکن وہ ہیں ،جن کی سوچ یہ ہے کہ ابن الوقت لیڈروں نے انہیں انقلاب کے نام پر محض اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا۔یوں وہ ان انتخابات کو محض کھیل تماشا سمجھتے ہوئے ، فیض صاحب کی طرح یہ سمجھتے ہیں....
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین