• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان اسمبلی سے انتخابات کو ایک ماہ ملتوی کرانے کی قرار داد پاس ہونے کے ساتھ ساتھ تحریکِ انصاف نے جس طرح پنجاب اور خیبر پختون خوا میں نئے سیٹ اپ کو بنانے میں جو رکاوٹیں ڈالیں اِس کا تاثر بہت حد تک زائل ہو گیا ہے کیونکہ انتخابی عمل مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ،چیف الیکشن کمشنر اورقائم مقام وزیراعظم اس جمہوری موقف پر قائم ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے انتخابات 25جولائی ہی کو ہونگے ۔وزیراعظم ناصرا لملک نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر انتخابات 25جولائی کو نہ ہوئے تو وہ وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔ان شخصیات کے دوٹوک موقف نے ان عناصر کے عزائم پر پانی پھیر دیا ہے جو انتخابات ملتوی کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جیسے ہی انتخابات کا مرحلہ قریب آتا ہے تو کئی عناصر اپنے مخصوص مفادات کے لیے انتخابات ملتوی کرانے کی تگ و دو کرنے لگتے ہیں۔ ان میں سے بعض کو آئندہ انتخابات میں کامیابی کی امید نہیں ہوتی اور بعض وہ ہوتے ہیں جوغیر جمہوری قوتوںکی ایما پر جمہوری نظام کوہمیشہ سبو تاژ کرنا چاہتے ہیں ۔ بد قسمتی سے اس دفعہ انتخابات ملتوی کرنے کی آواز پہلی بار پاکستان کے سب سے مظلوم صوبے بلوچستان سے اٹھی اوریہ آواز ان لوگوں کی جانب سے بلند کی گئی جنہوں نے رات کی تاریکی میںنہ صرف اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کیں بلکہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر سینٹ میںمطلوبہ نتائج بھی مہیا کیے۔ایسا لگتا ہے کہ شطرنج کی بساط پرمختلف چالیں اس طرح چلی جا رہی ہیں کہ آنے والے انتخابات سینٹ کے الیکشن کا ایکشن ری پلے ہی ہوں۔بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سب چالیں چلنے کے باوجود آئندہ انتخابات میں مطلوبہ نتائج آتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے اس لیے ضروری ہے کہ حالات میں غیر یقینی پیدا کی جائے ۔
بادی النظر میں اتنی بڑی تعداد میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کا تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت کے باوجود بعض لوگ کنفیوژن کا شکار ہیں کہ اگلی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کہیں پھر واضح اکثریت حاصل نہ کرلے۔بعض جید مبصرین کا کہنا ہے کہ سازش کا جال بچھانا اور 25جولائی والے دن ووٹ ڈالنا دو مختلف قسم کی مظاہر ہیںاور یہ کہ پچھلے کچھ سالوں میں جمہوری عمل میں مداخلت نے عوام کی آنکھیں کھول دی ہیںجس سے نہ صرف عوامی شعور پختہ ہوتا ہوا نظر آرہاہے بلکہ پاکستان میں آئینی اداروں کی بالادستی بھی مستحکم ہونے کے امکانات ہیں۔
اگرہم پچھلے پانچ سالوں کی تاریخ پر عمیق نگاہ ڈالیں تو ایک عجیب بات نظر آتی ہے کہ عمران خان نے انتخابات کے چند ماہ بعد ہی دھاندلی کے مبینہ الزامات لگا کر انتخابات کو منسوخ کرنے اور نئے انتخابات کے انعقاد کا نعرہ لگانا شروع کردیاتھا اور پھر ان مطالبات کو منوانے کے لیے کئی مہینے تک دھرنا دیا اور پھر کئی سالوں تک جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی ۔اس دوران تحریک انصاف نے جیت کی امید میں بہت سارے رہنمائوں کے ماضی کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے لیے تحریک انصاف کے دروازے کھول دیئے اور کچھ اضلاع میں تحریک انصاف کے آئندہ آنے انتخابات میں امیدواروں کی فہرستیں بھی اخبارات کی زینت بننا شروع ہوگئیں مزید براں عمران خان نے مستقبل کی پلاننگ کے دعوے بھی شروع کردیئے مگر جب پنجاب اور پختون خوا میں نگران وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو حیران کن طور پر تحریک انصاف کی کارکردگی عیاں ہوگئی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو یا تو ان معاملات کی حساسیت کا احساس ہی نہیں ہے یا پھر انہیںباضابطہ اجازت ملنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔حالانکہ عمران خان بار بار یہ نعرہ بلند کر رہے ہیں کہ 25 جولائی کو ان کی جماعت اکثریت حاصل کر ے گی اور ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا وعدہ بھی وہ کر چکے ہیں۔
پاکستا ن کی سیاسی تاریخ کے مطالعے سے ایک بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ انتخابات کے التوا نے پاکستانی سماج کے لیے خوفناک نتائج برآمد کیے ہیں ۔مشرقی پاکستان میں احساس محرومی ،ایوب خان کا حکومتی معاملات میں مداخلت،ون یونٹ کا قیام اور آخرمیں پاکستان کے دولخت ہوجانے کو اس پس منظر میں دیکھا جاسکتاہے۔اسی طرح 1978ء میں جب انتخابات میں پی پی پی کی کامیابی نظر آنے لگی تو ضیاء الحق نے نہ صرف انتخابات کا انعقاد ملتوی کردیا بلکہ ملک کوبلاوجہ افغان جنگ میں جھونک دیاجس سے مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں نہ صرف پاکستانی سماج میں گہری ہوئیں بلکہ آج چار عشرے گزرنے کے باوجود بھی نہ صرف پاکستان بلکہ پورا خطہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ۔اگر5 جولائی1977 ء کے معاہدے کو ضیاالحق سبوتاژ نہ کرتے تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ نئی منتخب حکومت پاکستان کو دہشت گردی کی اس تباہی سے بچا لیتی اور یقیناََ پاکستانی سماج جمہوری عمل کے ذریعے آج ارتقا کی اگلی منزلوں کو چھو رہا ہوتا۔
آج سیاسی جماعتوں کے ارتقا کا جائزہ لینے سے محسوس ہوتا ہے کہ انتخابات کا مسلسل عمل ہی سیاسی جماعتوں میںادارہ سازی کومضبوط کرتا ہے ۔ کسی بھی سماج میں بدعنوانی کا خاتمہ بھی اسی ادارہ سازی سے وابستہ ہے ۔ یورپین سیاسی تاریخ کے ادراک سے ایک حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جب تک عدلیہ اور ذرائع ابلاغ اپنی جڑیں مضبوط نہیں کرتے اس وقت تک بدعنوانی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں عدلیہ اورذرائع ابلاغ تیزی کے ساتھ ارتقا پزیر ہو رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں ہے کہ یہ ادارے اپنے ثمرات عوام تک پہنچا دیں گے ۔ لیکن اس منزل تک پہنچنے کے لئے انتخابات کا عمل صاف اور شفاف طریقے سے جاری و ساری رہنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انتخابی عمل کے ذریعے سیاسی جماعتوں کا عوام سے بھی ر ابطہ مضبوط ہوتا ہے۔سیاسی جماعتیں کامیاب ہوں یا ناکام ، انتخابی عمل انکی سمت کومسلسل درست کرتا رہتا ہے جس سے اس کی جڑیں سماج میں مضبوط ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جدید سیاسی جماعتیںانتخابات کے لیے سالہا سال منصوبہ بندی کرتی رہتی ہیںاورجو سیاسی جما عتیںانتخابی عمل سے دور رہتی ہیں وہ آہستہ آہستہ قصہِ پارینہ بن جاتی ہیں۔یورپین سیاسی تاریخ بھی اس بات کی داعی ہے کہ انتخابات کا تسلسل ہی جمہوریت کے ثمرات کو عوام کے سب سے بچھڑے ہوئے طبقے تک منتقل کراتا ہے۔ اسی لیے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کے موقف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ صورتحال کا صحیح ادراک کر رہے ہیں ۔ انتخابات کا 25 جولائی کو انعقا دہی ملک کا سب سے بڑا مفاد ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین