• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اورسعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان جمعہ کے روز عمان میں خفیہ ملاقاتوں کا انکشاف جو ایک اسرائیلی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کیا گیا ہے، اگر درست ہے تو یہ اس امر کا واضح اظہار ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال میں بڑی بنیادی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔اخبار کے مطابق دونوں رہنمائوں کے درمیان اردن کے دارالحکومت میں واقع شاہی محل میں وائٹ ہائوس کے مشیر خاص جیرڈ کشنر اور مشرق وسطیٰ کے لئے امریکی سفیر جیسن گرین بیلٹ کے دورۂ عمان کے موقع پر ہوئی۔ رپورٹ میں ذریعہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ محمد بن سلمان اور سخت گیر اسرائیلی وزیراعظم کے درمیان ملاقاتیں اردن کے شاہ عبداللہ کی موجودگی میں بھی ہوئیں اور ان کے بغیر بھی جبکہ ایک امریکی اخبار کے مطابق امریکا اور اماراتی حکام کے درمیان بھی خفیہ روابط اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔تنازعات کے پرامن حل کی تلاش کیلئے ملاقاتوںاور بات چیت میں بجائے خود کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ دنیا بھر میں شدید ترین اختلافات کے باوجود قوموں اور ملکوں کے درمیان مذاکرات کے اس عمل ہی کو پرامن حل کی تلاش کا بہترین طریقہ قرار دیا جاتا ہے لہٰذا عرب اور اسرائیلی حکام کے درمیان بات چیت بھی اگر مظلوم فلسطینیوں، عرب دنیا اور مسلم امہ کے اجتماعی مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہو تو اس سے مثبت نتائج کی توقع بے جواز نہیںلیکن حالات کا جو نقشہ ہے اس میں ایسا نظر نہیں آتا۔ عرب دنیا کئی برسوں سے جس خلفشار کا شکار ہے، عراق کے بعد شام ، یمن اور لیبیا جس طرح خانہ جنگی میں الجھے ہوئے ہیں، مختلف مسلم ملکوں کے درمیان اختلافات کی خلیج جس تیزی سے بڑھ رہی ہے، بیرونی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کیلئے خطے میں جس ہوشیاری کے ساتھ سرگرم ہیں، فلسطین میں اسرائیل کی من مانی جس ڈھٹائی کے ساتھ جاری ہے،یہ صورت حال پوری مسلم دنیا کیلئے ایک سنگین چیلنج کے مترادف ہے جس کے بڑے حصے نے گزشتہ صدی کے ابتدائی نصف میں مغربی استعماری طاقتوں سے آزادی حاصل کی اور صدی بقیہ نصف میں عالم اسلام کے اتحاد اور مسلم بلاک کی تشکیل کی جانب نہایت امید افزاء پیش رفت شروع کی۔ او آئی سی کی شکل میں57 آزاد و خود مختار مسلم ملکوں کی تنظیم وجود میں آئی اور یہ امکان روشن ہوا کہ مسلم امہ اپنے اتحاد کے ذریعے نہ صرف فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کے منصفانہ حل میں کامیاب ہوگی بلکہ مسلم ممالک اپنے بیش بہا قدرتی وسائل، عظیم افرادی قوت اور مہارت کے اشتراک سے ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کریں گے اور مسلم امہ ایک مستحکم عالمی طاقت بن کر ابھرے گی۔ لیکن آج شام اور یمن میں دو اہم اسلامی ملکوں کے اختلافات نے عالمی طاقتوں کی مداخلت کی راہ جس طرح ہموار کردی ہے، اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں ویسی ہی جغرافیائی تبدیلیوں اور شکست و ریخت کے خدشات نمایاں ہیں جیسی پہلی جنگ عظیم کے بعد مسلم دنیا میں واقع ہوئی تھی اور جس کیلئے بلقانائزیشن کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔تاہم آج حالات کے حد درجہ سنگین ہونے کے باوجود مسلم دنیا کی اپنی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ مختلف عرب اور مسلم ملک اپنے اپنے مفادات کیلئے اقدامات کررہے ہیںلیکن سعودی ایران اختلافات اورشام ، یمن اور لیبیا میں خانہ جنگی کے خاتمے کیلئے او آئی سی کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جبکہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت اپنے اہداف کے حصول کیلئے خطے میں سرگرم ہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا کی قیادتیں اپنے اختلافات پر قابو پائیں، اپنے درمیان پرامن بات چیت کا راستہ اپنائیں، ہر سطح پر باہمی تعاون کو فروغ دیں ، مسلم دنیا کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی وضع کریں اور پھر اس کے تحت مسائل کے حل کیلئے مخالف طاقتوں سے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھائیں۔ مسلم امہ کے اتحاد اور ترقی و خوشحالی کا خواب صرف اسی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جبکہ باہمی اختلافات کا جاری رہنا تمام مسلم ملکوں کیلئے نقصان دہ ہوگا۔

تازہ ترین