• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند امیدواروں بشمول بڑے سیاست دانوں نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جو حلف نامے جمع کرائے ہیںگو کہ وہ سب 30سال پرانے ہیں پھر بھی ، ان میں چونکا دینے والے انکشافات اور حیران کر دینے والی معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔ ہماری نمائندگی اور قیادت کرنے والی شخصیات ارب اور کھرپ پتی ہیں ۔ ملک کی تقریباً ہر بڑی سیاسی جماعت میں دولت مند لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے ، اور پاکستان کی سیاست انکے ہاتھ میں ہے یہ سب نودولتیے 1990ءسے بعد کی پیداوار ہیں۔آج جو لوگ سیاست میں ہیں1990ءسے پہلے انکی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ آج کوئی بھی خاندانی سیاستدان کامیاب سیاستدان نہیں ہے۔ یہاں سیاسی فلسفے کا ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے یا ارب پتیوں کی جمہوریت ؟ سماجی جمہوریت ( سوشل ڈیموکریسی ) ہے ، عوامی جمہوریت یا قومی جمہوریت ہے ؟ اور جب سیاست صرف دولد مند افراد کے قبضے میں آجائے تو اس کا منطقی انجام کیا ہوتا ہے ؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنے سے قبل حلف ناموں میں اثاثہ جات سے متعلق دی گئی مضحکہ خیز تفصیلات کا مختصر تذکرہ دلچسپی کا باعث ہو گا ۔ میڈیا کے ذریعے پاکستان کے عوام تک ساری تفصیلات سامنے آ چکی ہیں ۔ انہیں دہرانے یا کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ سب سے زیادہ حیرت زدہ کرنے والی معلومات اثاثہ جات کی مالیت سے متعلق ہیں ۔ کروڑوں اور اربوں روپے کے اثاثوں کی مالیت لاکھوں میں بتائی گئی ہے ۔ کئی کروڑ اور ارب پتیوں کے پاس ذاتی گاڑی نہیں ہے۔ کئی لوگ تو کچے مکاں میں کچی آبادی میں رہتے ہیںکیونکہ اس قیمت میں صرف وہاں ہی مکان ہو سکتے ہیں۔ ان کی سالانہ آمدنی اتنی ہے ، جس سے کئی گنا زیادہ ان کے روزانہ کے اخراجات ہوتے ہوں گے ۔ ان کا بظاہر بودوباش ان کے معلوم ذرائع آمدنی سے واضح طور پر بلند ہے ۔ کچھ سیاست دانوں نے حلف ناموں میں جو اثاثے اور ذرائع آمدنی ظاہر کئے ہیں ، ان سے کہیں زیادہ اثاثوں اور سرمائے کے وہ مالک ہیں کیونکہ ان کا شاہانہ طرز زندگی ان کی فراہم کردہ معلومات سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ کچھ سیاسی قائدین کے نہ صر ف پاکستان بلکہ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں ’’ محلات ‘‘ ہیں ۔ ان محلات میں نوکروں اور سکیورٹی اہل کاروں کی فوج ہے ۔ کچھ محلات ایسے ہیں ، جن کی میلوں پر پھیلی چار دیواری پر لگی لائٹس کا ماہانہ بل بھی بتائی گئی سالانہ آمدنی سے زیادہ ہوتا ہے ۔ بعض سیاستدان ایسے ہیں ، جن کی سیکورٹی میں غیر ملکی ماہرین اور ملکی تربیت یافتہ عملہ شامل ہے ، جو ان رہنماؤں کیساتھ چلتا ہے اور چارٹر طیاروں میں سفر کرتا ہے ۔ حلف ناموں میں دی گئی تفصیلات میں ایسی باتوں کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ ہمارے قائدین کے اثاثوں اور ذرائع آمدنی کے حلف ناموں میں دی گئی تفصیلات پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ۔ ان تفصیلات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں سیاست کہ نام پر کئی بادشاہتیں پیدا ہو چکی ہیں ، جنہیں سیاسی بادشاہتیں ( Political Dynasties ) کہا جا سکتا ہے ۔ ایک سیاسی جماعت میں ایک نہیں ، کئی بادشاہتیں ہیں ۔ کچھ بادشاہتیں ملکی سطح پر ہیں ۔ کچھ صوبائی ، ضلعی اور حلقے کی سطح پر ہیں ۔ ان انتخابات میں پرانی کہاوت یاد آتی ہے گاوَں کا چوہدری مر گیا تو بیٹے نے کسان کے بیٹے سے پوچھا کہ اب کون چوہدری ہو گا کہا اس کا بیٹا بنے گا پوچھا کہ اسکے بعد کون بنے گاکیا اسکا بیٹا ؟تنگ آکر کسان نے بیٹے سے کہا کہ تو کام کر تو کبھی نہیں بنے گا۔
اب آتے ہیں کہ اس سوال پر کہ یہ کیسی جمہوریت ہے اور ہمیں کس طرف لے جا رہی ہے ۔ 1960 ء کے عشرے میںایوبی آمریت میں جب ہم نے ایک ترقی پسند جمہوری کارکن کی حیثیت سے پاکستان میں جمہوریت کے نفاذ کیلئے جدوجہد شروع کی اوراسکول کے طالبِ علم کی حیثیت سے سیاست کا حصہ بنے۔طلباء سیاست کا حصہ بنے تو ہمارے سامنے سیاسی فلسفہ کے بنیادی سوالات تھے ۔ جو بنیادی بات ہمیں جدووجہد کیلئے اکسا رہی تھی ، وہ یہ تھی کہ پاکستان میں جمہوریت ہونی چاہئے ۔ اگرچہ اس زمانے میں ایک نقطہ نظر یہ بھی تھا کہ جمہوریت انسان کو درپیش تمام مسائل کا حل نہیں ہے اصل حل اشتراکی ( کمیونسٹ ) یا کم از کم اشتمالی ( سوشلسٹ ) انقلاب ہے ۔ اس وقت کے کچھ عظیم اذہان نے ہمیشہ سمجھایا کہ انقلاب کی عمر کم ہوتی ہے ۔مرحلہ وار اور مستقل انقلاب جمہوریت سے ممکن ہے ۔ جمہوریت کس طرح کی ہونی چاہئے ؟ اس پر بھی مباحث شروع ہو گئے تھے ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ پاکستان میں ’’ قومی جمہوری انقلاب ‘‘ آنا چاہئے کیونکہ قیام پاکستان کے بعد جو حکمراںاشرافیہ برسراقتدار آئی ، اس نے پاکستان میں رہنے والی قدیم قوموں کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔ اس لئے انہیں انصاف فراہم کرنا اور ان کی تاریخی شناخت کو تسلیم کرنا پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے ۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ’’ عوامی جمہوری انقلاب ‘‘ آنا چاہئے کیونکہ پاکستان میں سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے پاکستان کی دولت پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔ اس قبضے کو ختم کرنے کے لئے عوامی جمہوری انقلاب ضروری ہے ۔ کچھ حلقے ایسے تھے ، جن کے خیال میں پاکستان میں ’’ قومی اور عوامی جمہوریت ‘‘ کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں رہنے والی قدیم قوموں کو انصاف ملے اور طبقاتی تفریق بھی ختم ہو ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 ء کا آئین ’’ عوامی اور قومی جمہوریت ‘‘ کے بنیادی اصول پر مرتب کیا تھا ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے آخری دنوںمیں یہ اعتراف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی ایک ’’ سوشل ڈیمو کریٹک ‘‘ یعنی سماجی جہوری سیاسی جماعت ہے ۔ یعنی مظلوم قوموں اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی جدوجہد بھی کر رہی ہے لیکن وہ ان لوگوں پر کوئی قدغن نہیں لگانا چاہتی ، جو جائز طریقے سے تجارت اور صنعت کاری کرتے ہیں اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور دولت کمارہے ہیں ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا ’’ سماجی جمہوریت ‘‘ کا تصور بھی کچھ انقلابی اور ترقی پسند جمہوری حلقوں کیلئے قابل قبول بنا ۔
حالیہ انتخابی عمل میں سیاستدانوں نے جو حلف نامے جمع کرائے ہیں ، انکے مطابق ان کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹس 2002 اور 2013 ء کے عام انتخابات میں جمع کرائے گئے اثاثوں سے میل نہیں کھاتے ۔ ان اثاثوں میں اضافہ کا روباری اور منطقی اصولوں کے مطابق نہیں ہے ۔ اچانک یہ محسوس ہوا کہ پاکستان کے عوام کی جمہوری جدوجہد ان لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے ، جنہوں نے سیاست کو صرف دولت کمانے کا ذریعہ سمجھا ہے اور دولت کو ہی طاقت کا منبع قرار دیتے ہیں۔اب سوال کے پہلے والے حصے پر آتے ہیں ۔ کیا یہ دولت مندوں کی جمہوریت ہے یا اشرافیہ کی جمہوریت ہے ؟ 20ویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ کیا جمہوریت نو دولتیوں کی بہتر ہے یا اشرافیہ کی ؟ اس بحث کا یہ نتیجہ نکلا تھا کہ خاندانی اشرافیہ نو دولتیوں کے مقابلے میں زیادہ جمہوری ہوتی ہے لیکن یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت ہو گی ، جس کیخلاف انقلاب جنم لیں گے اور اشرافیہ کی جمہوریت سے بہت پہلے نو دولتیوں کی جمہوریت کے خلاف بغاوت ہو گی ۔ تاریخ نے یہ بات ثابت کی ۔ پاکستان میں اشرافیہ ( یعنی خاندانی امراء ) کی جمہوریت نہیں ہے ۔ یہ ارب پتی سیاست دانوں اور انکے کھرب پتی کاروباری شراکت داروں کی جمہوریت ہے اشرافیہ کی نہیں ہے ۔ یہ نو دولتیوں کی جمہوریت ہے ۔ ان انتخابات میں اس جمہوریت کیخلاف اگر بغاوت نہ ہو سکی تو انتخابات کے کچھ عرصے بعد تبدیلی آئے گی ۔ وہ تبدیلی حقیقی ترقی پسند جمہوری قوتوں کی طرف سے نہیں ہو گی کیونکہ یہ قوتیں پاکستان میں اپنا کردار کھو چکی ہیں ۔ اب بغاوت رجعت پسند انتہا پسند قوتوں کی طرف سے ہو گی ۔ طالبان کی جگہ ’’ داعش ‘‘ کیلئے خود پاکستان کی ترقی پسند ، لبرل اور وفاقی جمہوری قوتیں جگہ پیدا کر رہی ہیں ۔اسلئے کہ نہ انتخابات کوئی مسئلہ حل کرینگے نہ ہی عوام میں بے چینی ختم ہو گی نہ ہی status quo ٹوٹے گا بلکہ اور مضبوط ہو گا۔ غربت بڑھے گی مہنگائی کم از کم 50فیصد بڑھ جائیگی۔ عام انتخابات 2018ءکسی حد تک صورت حال واضح کر دینگے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین