• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمام فنون بشمول فنِ تعمیر اور کچھ بین الاقوامی معاہدوں میں ایک قدر مشترک ہے۔ انکی اہمیت صرف ان کو سمجھنے والے پر ہی عیاں ہوتی ہے۔ البتہ جہاں بات کیمیائی ہتھیاروں کو ممنوع قرار دیئے جانے کی ہو، وہاں سنجیدہ حلقوںمیں کسی قسم کی اختلافی سوچ ممکن ہی نہیں۔
آج 192 ممالک اپنے اختلافات پسِ پشت رکھ کر موت کے ان ہولناک آلات کے نہ صرف استعمال بلکہ ان کی پیدا وار اور ذخیرہ کئے جانے کو ممنوع قرار دینے کیلئے کیمیکل ویپنز کنونشن (CWC) کے ذریعے متفق ہوکر فریق بن گئے۔
ہمارے لئے دنیا میں جنگوں کا خاتمہ ناممکن ضرور ہو سکتا ہے اورہم کم از کم ان آلات کے غیرمعمولی اور تباہ کن اثرات سے انسانیت کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔اتحاد کا یہ جذبہ بہت سے ممالک میں پیش آنے والے المناک تجربات کی عکاسی کر تا ہے۔ کیمیائی ہتھیار پہلی عالمی جنگ کے دوران فرانس اور بیلجیم میں استعمال ہوئے۔ کیمیائی ہتھیاروں کے باعث 1920ءکے عشرے کے دوران مراکش، 1930 ءکے دوران ایتھوپیا، 1940 ءکے دوران چین اور 1980ءکے دوران ایران اور عراق خوفناک اثرات کے شکار ہوئے۔کیمیکل ویپنز کنوینشن (CWC) کے 1997 ءمیں قیام کے بعد اس سلسلے کو ہمیشہ کیلئے اختتام ہوجانا چاہئے تھا۔ لیکن اسکے بعد کیمیائی ہتھیاروں کا کھلے عام استعمال شام اور عراق میں کیا گیا۔ اعصاب کو مجروح کرنیوالا ایک ممنوعہ کیمیائی عنصر استعمال کرکے 2017 کے دوران ملائیشیا کے کوالا لمپور ایئر پورٹ میں ایک جان لیوا حملہ کیا گیا۔ برطانوی کتھیڈرل شہر سلیسبری میں اسی نوعیت کا ایک مختلف کیمیائی ہتھیار مارچ کے دوران استعمال ہوا۔ظاہری طور پر ایسا سوچنا مناسب ہی لگتا ہے جیسے یہ ظلم و زیادتی ’’سی ڈبلیو سی‘‘ کے وقار اور اہمیت پر اثر انداز نہیں ہورہے۔ یہ سب کیمیائی ہتھیاروں پر اس عالمی پابندی کی خلاف ورزیاں ہیں اور ان پابندیوں کو ہر ایک ملک انفرادی طور پر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔اسی لئے سی ڈبلیو سی کے ایک خصوصی اجلاس کی ضرورت محسوس کی گئی جو کہ نیدر لینڈز کے شہر دی ہاگ میں 26اور 27جون کو منعقد کیا جائیگا۔ اسکا مقصد بین الاقوامی پابندیوں کو تقویت دینا اور کنوینشن کے عملدرآمد کرانے والے شعبے ’’آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز (OPCW)‘‘ کو مضبوط کرنا ہے۔
’’او پی سی ڈبلیو‘‘ موجودہ حالات میں ایک بے اختیار حیثیت میں ہونے کے باعث شام میں ہونیوالے حملوں میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنیوالوں کو مورودِ الزام ٹھہرانے سے بھی قاصر ہے۔ اس کے ماہرین واقع کے مقام اور وقت کی اطلاع دے سکتے ہیں لیکن مجرم کی شناخت نہیں کر سکتے۔اس اختیار یا صلاحیت سے انہیں پچھلے نومبر میں محروم کردیا گیا جب سلامتی کونسل ’’او پی سی ڈبلیو‘‘ اور اقوام متحدہ کے ایک مشترکہ تحقیقاتی میکانزم کے مشن کی تجدید کرنے میں ناکام رہی۔ انہوں نے ماضی میں شام میں بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے چار اور داعش کی جانب سے ایک کیمیائی حملے کی نشاندہی کی تھی۔اس کے بعد ’’او پی سی ڈبلیو‘‘ الطامنہ، شام میں مارچ 2017 ءکے دوران اور فروری 2018ءکے دوران شام کے ہی ایک اور علاقے سراقب میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی نشاندہی کرچکی ہے۔ لیکن اسکےاستعمال کے ذمہ داروں کے بارے میں کئے جانیوالے سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔
ہم سب کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو عالمگیر حیثیت میں ممنوع تسلیم کر رہے ہیں، لیکن ’’او پی سی ڈبلیو‘‘ کی جانب سے مجرموں کی شناخت میں معذوری کی صورت میں ہم اپنے اس فیصلے کا کیسے تحفظ کریں گے؟ موجودہ صورتحال کی مثال افسانہ نگاری کی طرح ہے جیسے کیمیائی ہتھیار بغیر کسی عامل یا مجرم کے از خود خلاف ورزی کرتے ہوئے آسمان سے براہِ راست نازل ہوتے ہیں۔ اگر اس بے قاعدگی کو جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تو کوئی بھی ملک کیمیائی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے، کیونکہ ’’او پی سی ڈبلیو‘‘ کی جانب سے اس کی نشاندہی کرنے میں معذوری کے باعث اسے اپنے محفوظ ہونے کا یقین ہے۔ ایسے آلاتِ حرب پر پابندی، ذمہ داروں کی نشاندہی کرنیوالوں پر منتقل ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ بہترین سدِباب ’’سی ڈبلیو سی‘‘ کے طریقہ کار کے مکمل استعمال میں ہے، یعنی ’’او پی سی ڈبلیو‘‘ کو نہ صرف کیمیائی ہتھیار کے استعمال کے بارے میں پتہ لگانے، بلکہ استعمال کرنے والوںکی نشاندہی کرنے کا بھی اختیار حاصل ہو۔میں پُر امید ہوں کہ اس خصوصی اجلاس میں ’’او پی سی ڈبلیو‘‘ کو کنونشن کی کسی بھی خلاف ورزی کی شناخت اور ذمہ داری کے تعین و یقینی بنانے کیلئے نئی تجاویز مرتب کرنے کیلئے اختیار دےدیا جائے گا۔یہ کسی عالمی تنازعے میں حمایت اور مخالفت کا سوال نہیں۔ بلکہ یہ ایک آسان انتخاب ہے کہ کیا ہتھیاروں کی اس مہلک قسم پر پابندی کو برقرار رکھا جائے یا اس کے ذمہ داروں کو ناقابلِ شناخت قرار دے کر گمشدہ کر دیا جائے۔ ایسی صورت میں دنیا کے ہر ملک کو اس ہولناک خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔کیمیائی ہتھیاروں کے عام استعمال کی اجازت دینے کی صورت میں ان کا استعمال جنگ کے دور دراز میدانوں تک محدود نہیں رہیگا۔ کوالالمپور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے اور سیلسبری کے شہر میں وقوع پذیر ہونیوالے جیسےسانحات کہیں بھی پیش آسکتے ہیں۔
ہماری سلامتی اور تحفظ کو درپیش عناصر پر پابندی کے نفاذ اور اسے برقرار رکھنا ہمارے مشترکہ مفاد ہے اور ’’او پی سی ڈبلیو‘‘ کی جانب سے ذمہ داروں کی نشاندہی میں معذوری کی صورت میں ان مشترکہ مفادات کا تحفظ ہمارے لئے ممکن نہیں رہیگا۔(صاحب مضمون برطانوی سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس ہیں)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین