• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ازمیر‘‘ اور ’’آئیڈن‘‘ ترکی کے مشہور ساحلی و تفریحی شہر کہلاتے ہیں۔ یہاں پر یورپی سیاح بکثرت آتے ہیں۔ جس دن اہم ازمیر میں تھے، اُس دن طیب اردوان نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز اسی شہر سے کیا تھا۔ لوگ حیران تھے کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز اپنے مخالفین کے گڑھ سے کیوں کیا ہے؟ طیب اردوان کے مخالف شہروں میں سرفہرست شہر ازمیر ہے۔ آئیڈن کی میئر خاتون اردوان کی سخت مخالف شمار ہوتی ہے۔ ازمیر، آئیڈن، بوردم، مرسین، انطاکیہ وغیرہ یورپ کے بالکل قریب ہیں۔ بیچ میں صرف سمندر حائل ہے۔ ان علاقوں میں طیب اردوان کو ووٹ نہیں ملتے ہیں، لیکن طیب اردوان کا کمال یہ ہے کہ موافقین ہوں یا مخالفین، شہر ہوں یا دیہات ہوں، ہر جگہ انہوں نے جملہ سہولتیں تمام علاقوں میں پہنچادی ہیں، بلکہ اپنے مخالف علاقوں کو زیادہ سہولتیں دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کے مخالف بھی دبے لفظوں ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم ازمیر کے ساحل پر کھڑے تھے کہ الٹی سیدھی حرکتیں کرتا ہوا سیکولر سوچ کا حامل ایک نوجوان ہمارے قریب آگیا۔ حال احوال کے بعد ہم نے پوچھا: ’’ووٹ کس کو دوگے؟‘‘ اس نے کہا: ’’میں اس شہر میں بڑا ہوا ہوں۔ اردوان سے پہلے ترکی امریکہ کے آگے دُم ہلاتا تھا۔ اب اردوان کے بعد معاملہ برعکس ہے، لہٰذا میں شریعہ والا ہوں نہ اردوان، لیکن ووٹ اسی کو دوں گا۔ ہم نے پوچھا: ’’ابھی نوجوان یہاں سے اردوان کے خلاف نعرے لگاتے، تالیاں پیٹتے گزرے، یہ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا: ’’یہ اپنے مستقبل کے دشمن ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے۔‘‘ ترکی سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ترکی سے سیکھنے کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ملک میں جمہوریت مضبوط ہو۔ ترک فوج سیکولر شمار ہوتی ہے۔ ترکی پر ہمیشہ فوج ہی کا تسلط رہا ہے۔ اتاترک ایسا نظام بناگئے تھے آندھی ہو یا طوفان، ترکی کا نظام نہ بدلے، لیکن سلام ہے ترکی کے اسلام پسندوں کو انہوں نے بتدریج دانش مندی، ہوشیاری اور عوام کی خدمت کرکے بہت کچھ حاصل کرلیا۔ ہمت نہیں ہاری۔ عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنالیا۔ نتیجہ یہ نکلا آق پارٹی کی جڑیں عوام میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا ترک افواج نے سیاسی جماعتوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اصل بات یہ ہے کہ طیب اردگان نے 1994ء سے لے کر آج تک ملک و قوم کی ہر قسم کی خدمت کی ہے۔ 24سال پہلے جب استنبول کے میئر بنے تو استنبو ل ہر قسم کے جرائم کی آماجگاہ اور گندگی کا ڈھیر تھا۔ انہوں نے چند ہی سالوں میں استنبول کو جرائم فری اور کرپشن فری کردیا۔ جس شہر میں لوگ آنے سے ڈرتے تھے، وہاں لاکھوں کی تعداد میں سیاح آنے لگے۔ جب ترکی کے لوگوں نے طیب کی خدمت کو دیکھا تو انہوں نے طیب اردوان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ ترکی کے وزیراعظم اور صدر منتخب ہوگئے۔ طیب اردوان ترکی کو جدید فلاحی اور اسلامی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے مظاہر ہم نے اپنے حالیہ سفر میں اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ طیب اردگان نے اپنے دورِ حکومت میں جو کارنامے سرانجام دیے اس کی ایک جھلک دیکھیے۔ طیب اردوان نے اپنے دورِ حکومت میں آئی ایم ایف کا 23.5؍ ارب ڈالر کا ملکی قرضہ زیرو کرکے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو قرضہ دینے کی پیشکش کردی۔ تعلیمی نظام میں اصلاحات کیں۔ نتیجتاً جن اسکولوں میں طالب علموں کی تعداد 65 ہزار تھی، وہ 8 لاکھ تک پہنچ گئی۔ ملکی یونیورسٹیوں کی تعداد 98 سے بڑھاکر 190 کردی۔ ساری قوم کیلئے گرین کارڈ کا اجرا جس کے تحت کسی بھی ترک باشندے کو ملک کے کسی بھی اسپتال میں ہمہ وقت مفت علاج کی سہولت ہوگئی۔ 12 برس میں ہوئی اڈّوں میں26 سے 50 کردی۔ صرف سیاحت سے حاصل ہونیوالی سالانہ آمدن 20 ؍ ارب ڈالر ہے۔ 2002ء سے 2011ء کے درمیان ترکی میں 13500 کلومیٹر طویل سڑکیں بنائیں۔ 2009ء میں ترکی میں تیز رفتار ریل گاڑیاں چلنے لگیں۔ 1076کلومیٹر لمبی نئی ریلوے لائنیں بچھائیں۔ تعلیمی بجٹ 7.5؍ ارب ویرا سے بڑھاکر 34؍ ارب ویرا ہوگیا۔ ترکی کو آلودگی سے پاک، جرائم سے پاک، مافیا سے پاک اور رواں دواں ٹریفک والا ملک بنایا۔ پانی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم کی اور بلوں میں بھی نمایاں کمی کی۔ ترکش ایرلائن یورپ کی بہترین اور دنیا کی ساتویں بڑی ایرلائن بن گئی۔ ناپ تول میں کمی، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی ختم کردی۔ اقتصادی لحاظ سے 111 نمبر پر موجود ملک کو اٹھا کر 16 ویں نمبر پر پہنچایا۔ ترکی پہلی بار دنیا کے اقتصادی لحاظ سے مضبوط 20 ممالک کے گروپ G-20 میں شامل ہوا۔ 2013ء میں ترکی کی سالانہ قومی پیداوار 1100 ارب ڈالر تک جاپہنچی تھی۔ پہلے ایک عام ترکی کی سالانہ آمدن 3500 ڈالر تھی، اب وہ آمدن بڑھ کر 11ہزار ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ترکی میں اقتصادی خوش حالی کے نتیجے میں لوگوں کی تنخواہوں میں 300فیصد اضافہ ہوگیاہے۔ ملازم کی بنیادی تنخواہ جو کسی دور میں 340لیرا تھی، اب بڑھ کر 957لیرا تک پہنچ گئی ہے۔ ترکی کا بجٹ خسارہ جو بڑھ کر 47ارب تک پہنچ گیا تھا، اس کو ختم کردیا۔ ورلڈ بینک نے ترکی کو قرض دے رکھا تھا۔ اردوان نے سارا قرض لوٹا دیااور ورلڈ بینک کو 5 ارب ڈالر قرضہ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی کے خزانے میں 100ارب رکھے ہیں۔ اس دوران یورپ کے متعدد ممالک قرض کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہاں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں فروخت ہونے والے الیکٹرانک سامان میں سے ہر تیسرا سامان ترکی کاتیار کردہ ہوتا ہے۔ 2023ء وہ سال ہے جس کے بارے میں طیب اردوان نے اعلان کیا کہ ترکی اس سال دنیا کی سب سے پہلی اقتصادی اور سیاسی قوت بن جائے گا۔ دس سال کے دوران اردوان کی حکومت نے ملک بھر میں دو ارب 77کروڑ درخت لگائے ہیں۔ ترک حکومت نے کچرے کو ری سائیکل کرکے توانائی بنانے کے منصوبوں پر کام شروع کیا ہے۔ اس منصوبے سے ترکی کی ایک تہائی آبادی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یورپ میں آنے والے اقتصادی بحران کے فوری بعد یورپ اور امریکا بھر میں یونیورسٹی اور اسکول فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا گیا۔ اسکے برعکس طیب اردگان نے سرکاری حکم نامہ جاری کیا کہ یونیورسٹی اور اسکول کی تعلیم مفت ہوگی اور تمام تر اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ ترکی کا ہدف ہے کہ 2023ء تک 3لاکھ محققین تیارکیے جائینگے، تاکہ ملک میں نت نئی تحقیقات کا دروازہ کھل سکے۔ ترکی میں تعلیم کا بجٹ بڑھا کر دفاع کے بجٹ سے بھی زیادہ کردیا گیا ہے۔ ایک استاد کو ڈاکٹر کے مساوی تنخواہ دی جاتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی پر تحقیق کیلئے 35ہزار لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں۔ انہی سنہرے کارناموں کی بدولت آج طیب اردگان عوام کے دلوں میں بستا ہے۔ یہ ہیں وہ کارنامے جن کی بدولت آج کا ترکی ایٹمی طاقت نہ ہونے کے باوجود اسلامی دنیا کا لیڈر بننے جارہا ہے۔اگر ہمارے سیاستداں اور حکمراں چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت چلے تو پھر انہیں چاہئے کہ وہ طیب اردوان کی طرح ملک و قوم کی خدمت کریں۔ وہ غیرملکی آقائوں پر تکیہ کرنے کے بجائے عوام کی خدمت کرکے انکے دل جیتیں۔ کرپشن سے توبہ کریں۔ ملک و قوم کا لوٹا ہوا مال واپس لائیں۔ وہ طیب اردوان کی طرح عوام کو بنیادی ضروریات و سہولیات ڈیلیور کریں۔صرف زبانی کلامی ایک کروڑ نوکریاں دینے کا لالی پاپ نہ دیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین