• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عاصمہ جہانگیر کو مبارک ہو لگتا ہے اُن کے قافلے میں اعتزاز احسن بھی شامل ہو گئے۔ موجودہ عدلیہ کے خلاف عاصمہ کی تلخی تو سپریم کورٹ کے دسمبر 2009 کے این ار او فیصلے کے بعد سے سامنے آنا شروع ہو گئی تھی مگر اب اعتزاز بھی تلخ ہو گئے ہیں۔ عاصمہ تو چلیں عدلیہ بحالی کے ”ہیروز“ میں شامل تھیں اور نہ ہی وہ 2008-9 کی عدلیہ بحالی تحریک کے فیصلہ کن دور ( پی پی پی کا دور حکومت) میں کہیں نمایاں نظر آئیں مگر اعتزاز نے تو بڑے خلوص کے ساتھ اس جدوجہد میں حصہ لیا تھا اور بحالی کے بعد کوئی دو تین سال تک عدلیہ کو مکمل سپورٹ بھی کیا۔ مگر اب ایسا کیا ہو گیا کہ اعتزاز کو بھی عاصمہ کی طرح عدلیہ کھٹکنے لگی۔ اگر عاصمہ نے کل کہا کہ سپریم کورٹ کے سترہ جج کیا جڑواں بہنیں ہیں کہ فیصلے متفقہ دیے جا رہے ہیں اور کوئی اختلاف نہیں کیا جا رہا تو آج اعتزاز صاحب فرماتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے 17 جج کوئی عقل کل نہیں۔ اعتزاز دکھی ہیں کہ سپریم کورٹ نے سی این جی کی قیمت کم کرنے کے متعلق فیصلہ کیوں دیا۔ عاصمہ پہلے سے معترض ہیں کہ چیف جسٹس سو موٹو ایکشن کیوں لیتے ہیں مگر سی این جی کے فیصلہ کے بعد آج اعتزاز کو بھی اعتراض ہو گیا کہ عدلیہ نے سو موٹو کے ازخود اختیار کا استعمال زیادہ شروع کردیا ہے اور یہ کہ سوموٹو بنیادی حقوق کے منافی ہے۔ عاصمہ تو این آر او کے فیصلہ کے بعد سے ہی عدلیہ کے طاقت ور ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی تھیں مگر اب اعتزاز کا بھی کہنا ہے کہ عدلیہ زیادہ طاقتور ہو گئی اور بعض مقامات پر تو یہ سمجھتی ہے کہ عدلیہ کوئی غلطی کر ہی نہیں سکتی حالانکہ عدلیہ بھی غلط فیصلے کرسکتی ہے۔ عاصمہ اور اُن کے کچھ ”چھوٹوں“ جن میں کچھ دوسرے وکلاء ہیروز بھی شامل ہیں نے بھی سی این جی فیصلہ کو آڑے ہاتھوں لیا مگر بغیر پڑھے کہ عدالت نے فیصلہ کیا دیا۔ عاصمہ تو چلیں عدلیہ کے خلاف یہ سب کچھ اتنے عرصہ سے کرتی ہی آ رہی ہیں مگر اعتزاز صاحب کیا بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے سی این جی کے ایشو پر سپریم کورٹ پر اپنا تازہ غصہ نکالنے سے پہلے فیصلہ پڑھا بھی تھا کہ نہیں!!!! مجھے یقین ہے کہ اگر فیصلہ پڑھا ہوتا تو وہ یہ تبصرہ نہ فرماتے جو انہوں نے کیا اور جس کی بنیاد پر سو موٹو کو ہی بنیادی حقوق کے منافی قرار دے دیا۔ نجانے اعتزاز سی این جی کے فیصلے سے اتنے نالاں کیوں ہوئے۔ سپریم کورٹ اگر ایل این جی کے متعلق کوئی ایسا فیصلہ کرتی تو پھر بھی سمجھ میں آنے والی بات تھی ۔ ہاں اعتزازکی اگر کوئی سیاسی مجبوری ہے تو پھر وہ الگ بات ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں ٹکٹ کا حصول اعتزاز کی مجبوری ہو۔ ویسے بھی ہمارے سیاسی نظام میں پارٹی قائد کے سامنے باقی تمام پارٹی رہنماؤں کی حیثیت مزارعوں جیسی ہوتی ہے۔ چاہے کوئی سیاستدان کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو، اُس کی سیاست اپنے پارٹی قائد کے مرہون منّت ہی رہتی ہے۔ اگر آپ سے لیڈر ناخوش ہے تو پارٹی میں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ کون نہیں جانتا کہ حکومت کی چند طاقتور ترین شخصیات کو آزاد عدلیہ سے کتنی ”محبت“ ہے اوریہ کہ وہ اُن لوگوں کو اپنے کتنے قریب رکھتے ہیں جو عدلیہ کو اُس ماضی کی طرف دوبارہ دھکیلنے کی کوشش میں ہیں جب وہ حکمرانوں اور اسٹبلشمنٹ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی تھی۔ میرا گمان ہے کہ اعتزاز شاید اس حد تک تو نہ جائیں مگر جس حد تک وہ جا چکے ہیں وہ بھی بہت سوں کی توقع کے برخلاف ہے۔ اعتراض سوموٹو پر کیا جا رہا ہے مگر جیسا کہ نومنتخب صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ جب حکومت نا اہل ہو گی تو پھر عوام کو انصاف دینے کے لیے سپریم کورٹ سوموٹو بھی نہ لے تو بیچارے عوام کہاں جائیں۔ اگر اوگرا حکومتی پالیسی کے برخلاف سی این جی مالکان کو بے پناہ منافع دے اور عام لوگوں کو لوٹا جا رہا ہو تو سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دے کر کہ پالیسی کے مطابق سی این جی قیمتوں کو متعین کیا جائے ، کس جرم کا ارتکاب کیا ہے؟؟؟ اگر سپریم کورٹ ریاستی اداروں میں اربوں کی لوٹ مار، حکومتی اداروں اور اہلکاروں کے ہاتھوں عام شہریوں کے اغوا، انہیں سر عام گولی مارنے (خروٹ آباد اور کراچی رینجرز واقعات) ، اربوں کے رینٹل پاور سکینڈل کرپشن ، کراچی و بلوچستان میں قتل و غارت گری وغیرہ جیسے ایشوز پر سوموٹو نہ لے تو عوام کس سے انصاف کی توقع کریں۔ اگر حکومت شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی بجائے خود لوٹ مار اور زیادتی پر اتر آئے تو کیا عدلیہ کو بھی اپنی آنکھیں بند کر لینی چاہییں؟؟؟ عدلیہ کے سوموٹو پر اعتراض کرنیوالوں کو تو اپنی توپوں کا رخ انتظامیہ کی طرف کرنا چاہیے جو بیماری کی اصل جڑ ہے مگر ایسا کہاں ممکن ہے کیوں کہ یہ کون نہیں جانتاکہ عدلیہ کے خلاف ساری مہم کے پیچھے ہمارے حکمران ہیں۔ باقی شور شرابا کرنے والے اکثر تو صرف مہرے ہیں جن کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ”دودھ سے دھلی“ حکومت اور پالیمنٹ سے آئینی ترمیم کروا کر سپریم کورٹ سے سو موٹو کی پاور واپس لے لیں۔ اور اگر ہو سکے تو آئین میں یہ ترمیم بھی کروا لی جائے کہ کہ اعلٰی عدلیہ کا ہر فیصلہ سنائے جانے سے قبل عاصمہ جہانگیر کو دکھایا جائے تا کہ وہ حتمی منظوری دیں، چاہے محترمہ آئین کی الف ب سے بھی واقف ہوں یا نہ ہوں۔ اسی طرح ایک اور آئینی ترمیم کے ذریعے وکلاء تحریک کے کچھ ”ہیروز“ کے متعلق عدلیہ کو پابند کر دیا جائے کہ جب وہ عدالت میں پیش ہوں تو ججوں کو ان کے احترام میں کھڑے ہو جانا چاہیے اور اس کے علاوہ ان کی مرضی کے مطابق ان کے مقدمات کے لیے عدالتی بنچ بنائے جائیں بلکہ ہو سکے تو آئین میں یہ بھی لکھ دیں کہ ایسے ”ہیروز“ اپنے مقدمات کے لیے فیصلے گھر سے لکھ کر لے آیا کریں کیوں کہ چاہے کوئی اپنے آپ کو کتنا ہی بڑا کیوں نہ سمجھتا ہو، یہ سب کچھ آج کے پاکستان میں موجودہ عدلیہ کے ہوتے ہوئے تو ممکن نظر نہیں آتا۔

یہاں ایک اور بات کا مختصر ذکر ہو جائے۔ میرے گزشتہ کالم ”بے بس ’سپر پاور“‘ کے جواب میں ایک سیاسی اور صحافتی شخصیت جس کی سوچ ہمشہ الجھی رہی اور جس کا ذہن اپنی تہذیب و اقدار کے حوالے سے کبھی بھی واضح نہیں رہا، نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جیسے میں نے کوئی ایسی بات کر دی جوکسی مزاح کا حصہ تو ہو سکتا ہے مگر اُس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔میرے کنفیوژڈ مہربان سے گزارش ہے کہ آپ بے شک اُس ”حقیقت“ پر یقین رکھیں جو آپ کو امریکا یا میکالے کی تعلیمات بتاتی ہیں مگر میرا ایمان تو اُس اٹل حقیقت پر ہے جس کا فیصلہ میرے اللہ اور اُس کے رسول نے کر دیا۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: ”جو بھی مصیبت تم کو آتی ہے وہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے اور اللہ بہت سے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔“ (30 سورة الشورٰی)۔ اسی طرح اللہ تعالٰی سورة الروم کی آیت 41 میں فرماتے ہیں: ” زمین و سمندر میں انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی نے فساد کو ظاہر کر دیا ہے تا کہ اُن کو اُن کے بعض اعمال کا بدلہ دیا جا سکے تاکہ وہ پلٹ آئیں۔“ اللہ رب العزّت کا یہ بھی وعدہ ہے کہ جس کسی نے بھی اللہ اور اُس کے پیارے رسول کو تکلیف دی، وہ اللہ کے عذاب کا مستحق ٹھہرا۔بخاری اور مسلم شریف میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے کبھی رسول کو کھل کر ہنستے نہیں دیکھا مگر وہ مسکرایا کرتے تھے اور جب بھی کبھی آپ بادل یا تیز ہوا کو دیکھتے تو آپ کے چہرہ مبارک پر گہری تشویش کے آثار رونما ہو جاتے۔ میںآ پ سے عرض کرتی کہ کیا وجہ ہے کہ جب بادل آتے ہیں تو لوگ خوش ہوتے ہیں کہ اس سے بارش ہو گی مگر میں آپ کے چہرے پر تشویش کے آثار دیکھتی ہوں تو جواب میں رسول فرماتے ہیں کہ عائشہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس میں عذاب نہیں ہو گا، اس لیے کہ لوگوں کو اس سے قبل ہوا سے عذاب دیا گیا جب اُنہوں نے عذاب کو دیکھا تو انہوں نے کہا یہ بادل ہمیں بارش دے گا جب کہ وہ عذاب والی ہوا تھی۔“
تازہ ترین