• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گنتی کے لوگوں کو چھوڑ کر ہم سب اپنے پیارے وطن سے محبت کرتے ہیں۔ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ ایک روز بیٹھے بٹھائے، نہ جانے کیسے اورکہاںسے مجھے خیال آیا کہ ہم اپنے وطن سے محبت تو کرتے ہیں، مگر وطن سے محبت کے ہمارے اپنے اپنے اسباب ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا کیوں نہ ایک سروے کیا جائے کہ لوگ کس کس وجہ سے اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں مختلف لوگوں سے پوچھتا کہ وہ پاکستان سے کیوں پیار کرتے ہیں، میں نے مناسب سمجھا کہ سب سے پہلے میں اپنے آپ سے پوچھوں کہ میں اپنے وطن سے کیوں محبت کرتا ہوں؟ آپ سن لیجیے۔ بہت دیر تک اپنے آپ سے خود کلامی کی۔ خود سے پوچھ گچھ کی کہ میں کیوں اپنے وطن سے بے انتہا پیار کرتا ہوں؟مجھے خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔ بہت دیر تک سر کھپانے کے بعد بس بار بار تصدیق ہوتی رہی کہ میں اپنے وطن سے والہانہ محبت کرتا ہوں۔ میری بے لوث محبت کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ مجھے قطعی پروا نہیں کہ میر ے پڑوسی ممالک نے کتنی ترقی کی ہے؟ ان کے ہاں تعلیمی معیار کیسا ہے؟ سائنسی اور ٹیکنالوجی میں وہ کتنا آگے نکل گئے ہیں؟ لوگوں کو کہاں تک اظہار کی آزادی ملی ہوئی ہے؟ اختلاف رائے کی کتنی آزادی ملی ہوئی ہے؟ صنعت و حرفت اور بین الاقوامی بیوپار میں وہ دنیا کے کن کن ممالک کے ہم پلہ ہوچکے ہیں؟ ڈالر کی اونچ نیچ کا ان کی کرنسی پر ابتر اثر کیوں نہیں پڑتا؟ مجھے قطعی اس بات سے سروکار نہیں کہ پڑوسیوں نے سورج کی تابناکی سے سولر انرجی کے پینلوں کا ملک کے چپے پر جال بچھادیا ہے۔ مجھے نہیں پروا۔ مجھے اس بات کی قطعی پروا نہیں کہ دنیا بھر سے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح سیروتفریح کے لیے ہمارے پڑوسی ممالک میں آئے دن آتے ہیں؟ میں اس بات کو خاطر میں نہیں لاتا کہ ان کے یہاں سیاحت کو صنعت کا درجہ مل چکا ہے جس سے وہ زرمبادلہ کماتے ہیں۔
میں اُن تیرا بخت لوگوں میں سے نہیں ہوں جو غیر کی چمک دمک سے متاثر ہوتے ہیں۔مجھے اپنے وطن سے محبت ہے۔ میں اپنے وطن سے محبت میں اس قدر ڈوبا رہتا ہوں کہ مجھے یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی کہ ہمارے اپنے وطن کا تعلیمی معیار کیوں گرتا جارہا ہے۔ کہتے ہیں ان پڑھ حکمراں ملک میں خواندگی کی بجائے ناخواندگی پھیلاتے ہیں۔ اس بارے میں سوچنے کی مجھے فرصت نہیں ۔ میں صرف اپنے وطن سے محبت کرتا ہوں اور یہ میرے لیے کافی ہے مجھے قطعی پروا نہیں کہ غیر ملکی سیاح کیوں ہمارے ہاں آنے سے کتراتے ہیں۔ غیر ملکی سیاح جائیں بھاڑ میں، مجھے اس بات کی بھی پروا نہیں کہ غیر ملکی قرضوں نے میرے ملک کی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ میں اپنے وطن کی محبت میں اس قدر مستغرق رہتا ہوں کہ مجھے یہ سوچنے کی فرصت نہیں ملتی کہ کس کس نے میرے ملک کی صنعت ،حرفت، معیشت، تعلیم، تربیت، صحت عامہ ، امن امان، تجارت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ میرے پاس اس طرح کی فضول باتوں کے لیے وقت نہیں ہے۔میں ایک وقت میں دو کام نہیں کرسکتا ۔ میں اپنے وطن سے محبت کرسکتا ہوں یا پھر ہمسایوں کی دیکھا دیکھی میں بھی مادی ترقی کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑجائوں۔ یاد رکھیں کہ ملک سے محبت سے بڑھ کر،اُتم، اعلیٰ اور افضل وطن کی مادی ترقی نہیں ہوسکتی۔
میں نے بیشمار موٹر سائیکل سواروں سے پوچھا کہ آپ سب پاکستان سے اس قدر والہانہ محبت کیوں کرتے ہو؟سب کا جواب یکساں تھا ۔ موٹر سائیکل چلانے کا جو لطف پاکستان میں ملتا ہے دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ملتا۔ہم سرخ سگنل پر کبھی نہیں رکتے۔ سرخ سگنل کو ہم خاطر میں اس لیے نہیں لاتے کہ یہ ہمارا اپنا وطن ہے۔ ہمارا پیارا پاکستان ہے۔ ہم اپنے وطن میں آزاد ہیں۔ ایسی آزادی دبئی میں نہیں ملتی۔ وہاں جاکر پتہ چلتا ہے کہ ہم غلام ہیں۔ ہر جگہ ڈانٹ ڈپٹ، اپنی باری کا انتظار کرو۔ قطار میں کھڑے رہو، جگہ جگہ تھوکنے کی پاداش میں جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے مگر اپنے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ اپنے وطن میں جگہ جگہ تھوکیں، جگہ جگہ کوڑا کرکٹ ڈالیں۔ گندگی کے انبار لگادیں،کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔
اسی سے آزادی کا احساس پروان چڑھتا ہے اور اپنے وطن سے محبت بڑھتی ہے۔
دفتر جانے والوں نے وطن سے محبت کے مختلف اسباب بیان کیے۔ کچھ نے کہا، دیکھو بھائی، دفتر صبح نو بجے کھلتا ہے، میں گیارہ بجے دفتر آتا ہوں۔ اس طرح ایک ہفتہ میں سراسر چالیس گھنٹے میں دفتر سے غائب رہتا ہوں۔ مجھے ملازمت کرتے ہوئے بیس برس ہوگئے ہیں۔ آج تک کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا کہ ایک ہفتہ میں چالیس گھنٹے، ایک ماہ میں ایک سو ساٹھ گھنٹے، ایک سال میں ایک ہزار نو سو بیس گھنٹے اور بیس برسوں میں اڑتیس ہزار چار گھنٹے تم دفتر سے غائب رہے ہو۔ مگر تنخواہ پوری لیتے رہے ہو!یہ مزے صرف اپنے پیارے پاکستان میں ملتے ہیں۔ کسی دوسرے ملک میں نہیں ۔
ایک صاحب نےکہا۔ مجھے جائز کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔ میں تنخواہ میں ناجائز کام کبھی نہیں کرتا۔ ناجائز کام کی میں الگ فیس لیتا ہوں۔ (آپ جیسے کھسکے ہوئے لوگ اس فیس کو رشوت کہتے ہو۔ ستربرسوں سے یہ کام پشت در پشت اسی طرح چل رہا ہے۔ اپنے پیارے ملک کے علاوہ یہ کام آپ دیار غیر میں نہیں کرسکتے۔ سڑتے رہیں گے جیلوں میں۔
ایک دولت مند خاتون بیرون ملک رہنے گئیں۔ یورپ کا کوئی ملک تھا۔ صاف ستھرا ، نعمتوں سے بھرپور انصاف ، قانون کی حکمرانی ، ایمانداری ، سچائی مگر خاتون کو یورپی ملک پسند نہیں آیا۔ پوچھا تو فرمانے لگیں، وطن کی محبت مجھے کھینچ کر واپس لے آئی۔ وہاں نوکر نہیں ملتا تھا، ماسی نہیں ملتی تھی۔ اردلی نہیں ملتا تھا۔ سب کام خود کرنا پڑتا تھا۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے ہمارے پاس۔ ہم خود اس طرح کے کام نہیں کرتے۔ ہمارے نوکر اور نوکرانیاں یہ کام کرتی ہیں۔ اگر غصہ میں آکر میں نوکرانی کو گرم استری سے داغ دوں تو پاکستان میں کوئی مائی کا لال ہم سے کچھ نہیں پوچھتا۔ کوئی وجہ تو ہے کہ ہم پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔

تازہ ترین