• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ خط غربت کے جلو میں زندگی جینے پر مجبور تین افراد کی سچی کہانی ہے جو ہیں۔ پہلی کہانی26 مئی2016 کو شروع ہوتی ہے جب 27 سالہ غیر شادی شدہ ترکھان علی رضا کا بلڈ پریشر اچانک شوٹ کرگیا، اسپتال لیجایا گیا
تو معلوم ہوا اس کے دونوں گردے فیل ہوگئے ہیں جان کے لالے پڑجانے پر سعودی عرب سے وطن واپس آبائی شہر جھنگ بھجوا دیا گیا ۔ٹوبہ روڈ پھاٹک رائو کالونی کےگھروں میں کام کرنے والی بیوہ ماں نے بیٹے کو روشن مستقبل کی خاطر سعودی عرب بھجوایا تھا لیکن وہ موت کا پروانہ تھامے گھر لوٹ آیا۔ ماں کے سامنے دو راستے تھے بیٹے کو چپ چاپ موت کے منہ میں جانے دیتی اور جیسے تیسے کرکے بقیہ چھ افراد کا کنبہ پالتی رہتی۔ قدم قدم پر زندگی کے لالے اور موت کا فرشتہ دوسرے جہان کا ٹکٹ کاٹنے کو بے تاب نظر آرہا تھا لیکن اس نے قدرت سے ٹکر لینے کا فیصلہ کر لیا۔ جوان بیٹے کی زندگی بچانے کیلئے ڈائیلسز کروانا شروع کردیا۔ غریب ممتا نے مسیحا کی تلاش کا کام بھی جاری رکھا۔ ایک روز اس کا ہمسایہ228 کلومیٹر دور شہر لاہور میں نیا اسپتال کھلنے کی نوید دینے آیا اور کہا جائو بیوہ ماں کو وہاں سے بیٹے کیلئے نئی زندگی ملے گی۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ بعد میں پہلے دوسری اور تیسری کہانی بارے تھوڑا جان لیں۔ دوسری کہانی ہائی بلڈپریشر کے عارضہ میں مبتلا قلعہ دیدار سنگھ گوجرانوالہ کے رہائشی34 سالہ اسکول ٹیچر وقار کے بارے میں ہے اس کے گردے 2018 کے اوائل میں کام کرنا چھوڑ گئے۔ کم سن بیٹے کے باپ کے سامنے موت پھن پھیلائے کھڑی تھی۔ اس کی اہلیہ زندگی کے سب سے بڑے صدمے سے دوچار تھی۔ بے یقینی کے عالم میں ہونے کے باوجود اس نے قدرت کے فیصلے کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ تیسری کہانی مصری شاہ لاہور کے رہائشی 30سالہ ڈینٹل ٹیکنیشن کلیم افتخار کےبارے میں ہےجس کے گردے عارضہ بلڈ پریشر کی نذر ہوگئے۔ ڈیڑھ سال کی دلہن مسز کلیم پر جب یہ خوفناک بم پھوٹا تو اس کے قدموں تلے زمین نکل گئی۔ زندگی کی کشتی گرداب میں ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن اس نے بھی اس بیماری کے آگے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔ مقامی ڈاکٹروں سےجواب ملنے کے بعد آخر کار یہ تینوں مریض نئے تعمیر شدہ اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال پنجاب کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ بیدیاں روڈ جا پہنچے۔ تینوں مریضوں کے ٹیسٹوں کے بعد گردوں کا ٹرانسپلانٹ ہونا طے پایا۔ ڈونر کون ہوں گے، سب سے مشکل مرحلہ انتہائی آسان اور جذباتی نکلا۔ علی رضا کا کیس تو بالکل فلمی ثابت ہوا ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین بہنیں بھائی پر گردہ قربان کرنے کیلئے آگے آگئیں۔ قرعہ فال بڑی بہن قمر بانو کےنام نکلا۔ اس نے اپنے تین کم سن بچوں بارے لمحہ بھر بھی نہ سوچا اور بھائی کو بچانے کیلئے خوش دلی سے مان گئی۔ دوسرے کیس میں اسکول ٹیچر وقار احمد کو گردہ دے کر بچانے والی بڑی بہن قرۃ العین اس کی زندگی کا ستارہ بنی۔ تیسرے کیس میں کلیم افتخار کے چھوٹے بھائی وسیم نے خوشی خوشی گردہ دے کر خون کا قرض اتارا۔ یہ دونوں بھائی واسا میں ڈیلی ویجز پر ملازم ہیں اور ایک ہی دن شادی کے بندھن میں بندھے تھے۔ 28مئ 2018سے لیکر اب تک ان مریضوں کو فی کس ایک گردہ ٹرانسپلانٹ ہوچکا ہے۔ تینوں مریض ڈسچارج ہو نے کے بعد ہفتہ وار آبزرویشن پر ہیں۔ خدا انھیں انکی خوشیاں نصیب فرمائے۔ تینوں نے فرداً فرداً گفتگو میں بتایا
موت کو انتہائی قریب سے دیکھا۔ سو فیصد یقین نہیں تھا کہ آپریشن کے بعد دوبارہ اپنے پیاروں کو دیکھ بھی پائیں گے کہ نہیں۔ موت کے منہ سے نکل کر زندگی کے دھارے میں دوبارہ شامل ہونے پر خدا کے انتہائی شکر گزار ہیں۔ مریضوں کے لواحقین نے بتایا ہمارے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک پیسہ بھی خرچ کئے بغیر یہ سارا عمل ممکن ہوپائے گا۔ نہ آپریشن سے پہلے اور نہ ہی بعد ہمیں کہیں بھاگنا دوڑنا پڑا۔ ایک پیسے کی دو انہیں خریدی کسی نرس یا وارڈ بوائے کو رشوت نہیں دی یہاں تک کہ کوئی سرنج بھی خرید کر نہیں دی۔ بعد از آپریشن انتہائی سہل طریقہ سے ہمارے مریض کو ڈسچارج کیا گیا دوائیں بھی بغیر معاوضہ دی گئیں اور معائنہ بلامعاوضہ کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کسی اور دنیا میں آگئے ہیں۔ اب تک میں گردوں کے ساتھ جگر کے امراض میں یہاں زیرعلاج متعدد مریضوں سے گفتگو کرچکی ہوں۔ ان سب کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر سعید اختر اور ان کی ٹیم کیلئے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے لاکھوں کروڑوں دعائیں نکلتی ہیں جنھوں نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کا منصوبہ شروع کرکے پاکستان میں حقیقی فلاحی انسٹیٹیوٹ قائم کیا ہے۔ اس کے بننے سے ہم ان بلیک میلروں سے بچ گئے ہیں جو پیسے لیکر بھی گردوں کے مریضوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے تھے۔ ریکارڈ کے مطابق ہر سال ہزاروں پاکستانی مریض ٹرانسپلانٹ کروانے کی سکت نہ رکھنے کے باعث سسک سسک کر مرنے پر مجبور تھے۔ سینکٹروں مریض اپنے مکان بیچ کر پچاس لاکھ روپے سے لیکر کروڑ روپے خرچ کرکے ہر سال انڈیا جانے پر مجبور تھے جہاں سے زندہ آنے کی بھی کوئی گارنٹی نہ تھی۔ پی کے ایل آئی کا قیام فلاحی مملکت کے قیام کی وہ خوشگوار ابتدا ہے جو مایوسی کے اندھیروں میں گھرےگردے اور جگر کے مریضوں کیلئے امید کی کرن ثابت ہورہا ہے۔ عالمی معیار کے اس ادارے کی بدولت کروڑوں روپے کا زرمبادلہ بھی بچے گا اور مریضوں کو نئی زندگی بھی ملے گی۔ نام نہاد ایجنٹ اس فلاحی ادارے کو متنازع بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تمام اداروں سے اپیل ہے کہ اس شاندار قومی اثاثہ کو پھلنے پھولنے کا موقع دیکر قومی احسان عظیم کریں۔ شکریہ۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔آمین
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین