• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں25 جولائی کے عام انتخابات کے لئے سیاسی جماعتیں کمر کس کے انتخابی میدان میں اتر پڑیں ہیں، جلسے جلسوں کا ہنگامہ خیز مہینہ شروع ہوچکا ہے، انتخابی عمل کے لئے فوج کو پولنگ اسٹیشن کے باہر اور پہلی مرتبہ اندر کا کنٹرول سنبھالنے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔ آرمی چیف، چیف جسٹس، نگران وزیراعظم سبھی بروقت اور شفاف انتخابات کی بارہا یقین دہانی کرا چکے ہیں، جولائی کے اواخر میں مون سون کی سیلابی انگڑائی کے سوا انتخابی عمل میں بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔
اس وقت سیاسی افق پر ہیجانی کیفیت طاری ہے، انتخابی عمل کےساتھ احتسابی عمل کے خوف و ہراس کا ہتھیار بھی کارگر ثابت ہورہا ہے۔ بہت کچھ ہوچکا ہے اور پرچی کے بیلٹ باکس تک پہنچنے سے پہلے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ سیاسی شطرنج کے کھیل کی بساط اور پھرتیلی چالیں نتائج کا پتہ دے رہی ہیں، کہا جارہا ہے کہ ن لیگ کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کسی حد تک طے پاگئے ہیں؟ شہباز شریف پارٹی اور انتخابی مہم کو لیڈ کریں گے اور نواز شریف بوجوہ انتخابی مہم چلانے ابھی پاکستان نہیں آئیں گے شاید اسی لئے مسٹر خان کا غیرمحسوس انداز میں میڈیا ٹرائل بھی پہلی مرتبہ جاری ہے تاہم فیصلہ تو بیلٹ باکس سے نکلنے والی پرچیاں ہی کریں گی؟ کچھ حلقوں کی خواہش ہے کہ وفاق سمیت صوبوں میں سیاسی پارٹیاں منقسم مینڈیٹ لے کر آئیں اور ہنگ پارلیمنٹ کے ساتھ نئےچہروں کو مسند اقتدار ملے۔
موجودہ جاری سیاسی کھیل تماشے اور اس کے کرداروں پر بات کرنے سے پہلے گزشتہ کئی کالمز کا ریفرنس دینا ضروری سمجھتا ہوں جن میں راقم نے انتخابی عمل سے پہلے ہی ٹکٹ تقسیم کے معاملے پر کھلاڑیوں، متوالوں اور جیالوں کے باہم دست و گریباں ہونے اور پارٹیوں میں پھوٹ پڑنےکی نشاندہی کی تھی۔ بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، آج ایک طرف خان صاحب اپنے مشیروں کے فیصلوں پر سر پکڑ کر بیٹھے ہیں تو شریفوں کو اپنے دیرینہ ساتھیوں کی بغاوت کا سامنا ہے جبکہ بھٹو زرداری پارٹی تو امیدواروں کی تلاش میں ابھی سےادھ موئی ہوچکی ہے۔ گزشتہ کئی انتخابات کی طرح یہ کوئی عام انتخابات نہیں، بلکہ تاریخی اور حقیقی تبدیلی کی طرف بہت بڑا قدم ثابت ہوں گے، میں کسی جماعت کے تبدیلی کے نعرے کی بات نہیں کررہا بلکہ قومی جماعتوں کی قیادت کے طرز سیاست اور فیصلوں کی بات کررہا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ مشرف آمریت کے دوران اسلام آبادجی6 سیکٹر کے ایک گھر میں واقع پی ٹی آئی کے صدر دفتر میں بطور بیٹ رپورٹر تقریباً ہر روز پارٹی ایکٹیوٹی کور کرنے جاتا جہاں خان صاحب اکیلے ہوا خوری کررہے ہوتے تھے، دوسرا کوئی بڑا نام نہ تھا۔ خان صاحب سے ون آن ون انٹرویو کرتا تو خان صاحب کہتے آج کس موضوع پر بات کریں گے، تو میرا جواب ہوتا تھا کہ آپ کرکٹ کے بعد سیاست کے بھی اسٹار ہیں سیاسی صورت حال پر کچھ بھی بولیں گے وہ خبر بن جائے گی اور ایسا کئی سال تک ہوتا رہا، خان صاحب اکثر کہتے کہ ایک دن تحریک انصاف مختلف اور نظریاتی جماعت کی حیثیت سے ملک کی بڑی جماعت بنے گی، وقت گزرتا گیا، دور آمریت کے کنٹرولڈ انتخابات ہوئے، پھر2008 کےعام انتخابات، لیکن پارٹی قومی افق پرجگہ نہ بناسکی، دلچسپ صورت حال پیپلزپارٹی کے طرز حکومت اور ن لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن نے پیدا کی اور2013 کے انتخابات میں دوجماعتی انتخابی معرکے کے درمیان نئے نظریات اور آئیڈیل منشور کےساتھ تیسرافریق میدان میں آگیا، پی ٹی آئی کو سنجیدہ حلقوں بالخصوص نوجوان طبقے نے خوب پذیرائی بخشی، کئی تروتازہ چہرے منتخب ہوئے اور انتخابی نتائج نے پی ٹی آئی کو اپوزیشن کی تیسری جماعت بنادیا۔ ردعمل میں دھرنوں، جلائو گھیرائو، دھونس دھمکیوں اور حملوں کی سیاست کا باقاعدہ آغاز ہوا، نوجوان خواتین جو سیاسی جماعت کا ہراول دستہ اور تبدیلی کا نقطہ آغاز تھیں، دھرنوں اور جلسوں میں پیش آنے والے واقعات سے دل برداشتہ ہوکر شرکت کو محدود کرتی گئیں۔ معاملہ رکا نہیں،خان صاحب وزیراعظم بننے کے لئے اتنے بےچین اور بےقرار ہوئے کہ جن روایتی، موروثی، پیری، خاندانی، نسلی، برادری اور پیسے کے بل بوتے پر سیاست کرنے والوں کو مسترد کرتے تھے، انہیں ترنگا پہنا کر اپنے گلے کا ہار بنالیا۔ چند روز پہلے ایک نجی ٹی وی کی تقریب میں خان صاحب نے اس معاملے پر میری اور میرے محترم ساتھی رؤف کلاسرا کے تلخ سوالوں پر یہ کہہ کر تسلی کرانے کی کوشش کی وہ گزشتہ الیکشن میں نئے چہروں کا تجربہ کرکے ہار گئے تھے لیکن اب انہیں تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہے جو انہیں وزیراعظم بنادیں، ہم نےچند کرپٹ ترین صاحبان کی نشاندہی کی تو کہا وہ جب وزیراعظم بنیں گے تو انہیں ٹھیک کردیں گے، ہمارے لئے بڑی حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ وہی لوگ تھے جن کو خان صاحب ملک کی تباہی کا حقیقی ذمہ دار بھی سمجھتے تھے آج اپنے نظریات کو انہی موسمی پرندوں کی ذات پرقربان کردیا، انہیں الیکٹبلز قرار دے کر وہ نہ صرف ان کو اپنی مجبوری قرار دیتے ہیں بلکہ اب سرعام دیوانہ وار ان کی صفائیاں دیتے پھر رہے ہیں۔
زمینی حقائق ملاحظہ کریں تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا گنگ ہے، ہر قسم کی پابندیاں لگائی جاچکی ہیں، مزید قدغنیں عائد اور فیصلے مسلط کئے جارہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام تر کوششوں کےباوجود سوشل میڈیا ابھی کچھ کنٹرول سے باہر ہے۔ سوشل میڈیا کو جتنا بھی برابھلا کہا جائے لیکن موجودہ حالات میں شایدیہ وہی واحد ذریعہ ہےجو کچھ پیارے، نیارے اور نوازے الیکٹبلز کے نئے پاکستان بنانے
کےارادوں، ووٹ کی پرچی کو حقیر قرار دینے اور جواباً عوام کی ’’والہانہ‘‘ محبت کےاظہار کےمناظر کو بغیر ایڈٹ آپ تک پہنچا رہا ہے۔
ملکی سیاست کا نیا رنگ یہ بھی ہے کہ عوام کی خدمت کے جھوٹے نعرے پر ووٹ لینے کا نعرہ متروک ہوچکا ہے، روایتی زبان بندی کے راستے مسدود ہوچکےہیں، وقت کے ساتھ سوچ بدل چکی ہے، بندوق کی نوک پر کراچی کا ووٹ لوٹنے کا سیاہ دور چھٹ چکا ہے، سندھ میں دس سالہ اقتدار کا حساب مانگا جا رہا، پنجاب اور جنوبی پنجاب کےخاک آلود چہرے اپنی محرومیوں کا حساب اور الگ صوبہ چاہتے ہیں، بلوچستان کے جری نواب اپنے چہروں پر معصومیت طاری کرنے پر مجبور ہیں، مذہب کےنام پر خیبرپختون کو غلام بنانےکی سازش بےنقاب ہوچکی ہے۔ حب الوطنی، سادگی اور ایمانداری کے دعوئوں کے سات پردے، کاغذات نامزدگیوں پر تحریر اعداد و شمار کے ہیرپھیر سے چاک ہورہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اقتدار اور انتظار کے وقتوں کے فیصلے میرٹ اور انصاف کا منہ چڑھا رہے ہیں نتیجتاً پارٹیوں کے اندر رسہ کشی کا شرمناک کھیل جاری ہے، امر واقعہ ہےکہ 2018 کی انتخابی مہم اور معرکہ بڑی حد تک سوشل میڈیا پر منتج ہوگا۔ بظاہر نظر آرہا ہے کہ خود کو الیکٹبلز کہنے والے آئندہ انتخابات میں فتح حاصل کرپائیں یا نہیں، انہوں نے اپنی شاطرانہ چالوں سے دیرینہ، مخلص پارٹی کارکنوں اور ٹکٹ کےحقیقی حقداروں کو چاروں شانے چت ضرور کردیا ہے، سیاست کے روایتی کھیل کا آخری معرکہ جاری ہے۔یقینی طور پر کہانی بدل رہی ہے، سمجھنا چاہئے کہ آپ صرف عوام نہیں بلکہ بااثر اور طاقتور ووٹر ہیں جو اپنے فہم اور شعور سےبہتر فیصلے کرکے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں، مراعات یافتہ طبقوں، پیشہ ور انتخابی چہروں اور طاقتور گروہوں سے مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن کم ازکم اپنی حیثیت کے مطابق چھوٹے چھوٹے علاقائی بت ضرور توڑ سکتے ہیں، لوٹوں کی الیکٹبلز کے نام پر مفاد پرستانہ سیاست کو ہمشہ کے لئے دفن کرسکتے ہیں، کوئی اپنے پائوں پر خود کلہاڑا مارنے پر بضد ہے تو اس کو اس زخم کا مزا تو چکھا سکتے ہیں، تبدیلی آئے ناا ٓئے، آپ کے ووٹ کے درست استعمال سے کم ازکم اتنا ضرور ہوگا کہ سیاسی قیادت کو صحیح فیصلےکرنے کا سبق مل جائے گا۔ دس برس کی جموریت کی طبعی عمر ضیائی مارشل لا کے گیارہ سالہ سیاہ مدت کا ریکارڈ ضرور توڑ دے گی اور جمہوری تسلسل کے نتیجے میں سیاسی آمریت کا بھی خاتمہ ہو جائےگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین