• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دھوپ شبنمی، ہر سُو منظر دھانی ہے......

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: اقرا ملک

سن گلاسز: خان آپٹیکل سروس

ملبوسات: عمران شیخ

آرایش: لش بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آئوٹ: نوید رشید

کہیں پڑھا، ’’انسانی وجود پر جس عضو کا سب سے زیادہ قبضہ ہے، وہ آنکھیں ہیں‘‘ مگر ہمارے خیال میں اِک وجودِ انسانی ہی کیا، یہ ’’دو آنکھیں‘‘ تو پوری کائنات ہی پر قابض ہیں۔ بچپن میں گلی سے ایک نابینا فقیر صدا لگاتا گزرتا تھا ’’آنکھوں والو!آنکھیں بڑی نعمت ہیں‘‘ تب اُس کی بات کی گہرائی کا اندازہ نہیں تھا۔ اب جب کبھی اچانک یا لوڈشیڈنگ کے باعث، بجلی چلی جائے اور کے۔الیکٹرک سے، یو پی ایس یا جنریٹر پر شفٹنگ میں کچھ وقت لگ جائے، تو وہ چند لمحوں کا گُھپ اندھیرا، تاریکی جیسے پاگل کرنے لگتی ہے یا کبھی تھکن سے چُور ہوکر، اپنی مرضی ہی سے سہی، چند لمحوں کے لیے کُرسی کی پشت سے ٹیک لگا کے آنکھیں موند لی جائیں، تو لگتا ہے، جیسےساری دنیااندھیرہوگئی۔واقعی، آنکھیں اور اِن آنکھوں کی روشنی کتنی بڑی نعمت ہے، اِس کا اصل اندازہ اُنہیں ہی ہوسکتا ہے، جو اس نعمت سے محروم ہیں۔

دھوپ شبنمی، ہر سُو منظر دھانی ہے......

ایک تو آنکھیں اور پھر صنفِ نازک (عورت) کی آنکھیں…اُف!ان سے کیا کیا تصوّرات و تخیّلات، رومانیت و روحانیت، تشبیہات و استعارات اور عشق و محبت کی داستانیں منسوب نہیں۔ کوئی شاعر، نثر نویس، پترکار، گیت نگار خال ہی گزرا ہوگا، جس نے اس موضوع پر طبع آزمائی نہ کی ہو۔ نصرت فتح علی کی آواز میں، جاوید اختر کا وہ امر کلام ’’آفریں آفریں‘‘ کس نے نہیں سُنا ؎ آنکھیں دیکھیں، تو مَیں دیکھتا رہ گیا…جام دو، اور دونوں ہی دو آتشہ…آنکھیں یا میکدے کے یہ دو باب ہیں…آنکھیں اِن کو کہوں یا کہوں خواب ہیں…آنکھیں نیچی ہوئیں تو حیا بن گئیں…آنکھیں اونچی ہوئیں تو دُعا بن گئیں…آنکھیں جُھک کر اُٹھیں تو ادا بن گئیں…آنکھیں، جن میں ہیں قید آسمان و زمیں…نرگسی نرگسی، سُرمگیں، سُرمگیں…آفریں آفریں، آفریں۔ اور پھر اکھیوں کے جھروکوں، اِس جہاں کی نہیں ہیں تمہاری آنکھیں، کجرارے، کجرارے تیرے کارے کارے نیناں، تیرے مست مست دو نین سے لے کر بادامی، گلابی، نشیلی، سُریلی، جھیل سی گہری، جادو بھری آنکھوں والی اور لڑکی اکھیوں سے گولی مارے تک، اِن ’’دو آنکھوں‘‘ کی کیسے کیسے قصیدہ خوانی نہیں ہوئی۔

پھر گیتوں کی طرح خالصتاً شاعری میں بھی میر تقی میر کے شعر ؎ ’’میر ان نیم باز آنکھوں میں…ساری مستی شراب کی سی ہے‘‘ فراق گورکھپوری کے ؎ ’’آنکھوں میں جوبات ہوگئی ہے…اِک شرحِ حیات ہوگئی ہے‘‘ سے لے کر بشیر بدر کے ؎ ’’اُس کی آنکھوں کو غور سے دیکھو…مندروں میں چراغ جلتے ہیں‘‘ اور فراز کے ؎ ’’اُس کی آنکھوں کو غور سے دیکھا ہے فراز…سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی‘‘ تک کیا کیا نہ شاہ کار تخلیق ہوئے۔ اور علی سردار جعفری کی اِس غزل کا تو کوئی مول ہی نہیں ؎ وہ مِری دوست، وہ ہمدرد، وہ غم خوار آنکھیں…ایک معصوم محبت کی گنہ گار آنکھیں…شوخ و شاداب و حسیں، سادہ و پُرکار آنکھیں…مست و سرشار و جواں، بے خود و ہُشیار آنکھیں…جنبشِ ابرو و مِژگاں کے خنک سائے میں…آتش افروز، جنوں خیز، شربار آنکھیں…کیفیت دل کی سُناتی ہوئی ایک ایک نگاہ…بے زباں ہوکے بھی وہ مائلِ گفتار آنکھیں…موسمِ گل میں وہ اڑتے ہوئے بھونروں کی طرح…غنچہ ٔ دل پہ وہ کرتی ہوئی یلغار آنکھیں…کبھی چھلکی ہوئی شربت کے کٹوروں کی طرح....اور کبھی زہر میں ڈوبی ہوئی تلوار آنکھیں…کبھی ٹھہری ہوئی یخ بستہ غموں کی جھیلیں…کبھی سہما ہوا، سِمٹا ہوا اِک پیار آنکھیں…نوکِ ابرو میں کبھی تلخئ انکار لیے…کبھی گھولے ہوئے شیرینئ اقرار آنکھیں…حُسن کے چاند سے، مکھڑے پہ چمکتے تارے…ہائے آنکھیں، وہ حریفِ لب و رخسار آنکھیں…عشوہ و غمزہ و انداز و ادا پر نازاں…اپنے پندارِ جوانی کی پرستار آنکھیں…رُوح کو روگ محبت کا لگادیتی ہیں…صحتِ دل جو عطا کرتی ہیں بیمار آنکھیں۔

دھوپ شبنمی، ہر سُو منظر دھانی ہے......

اور نثر کی بات کریں، تو کچھ معروف اقوال ہیں۔ ’’خواتین کے پاس موجود ہتھیاروں میں سب سے بہترین ہتھیار آنکھیں ہیں۔‘‘، ’’آنکھیں ہی وہ سمندر ہیں، جن میں عورتوں کے خوابوں کے عکس جھلکتے ہیں۔‘‘ ، ’’جہاں آکر الفاظ دَم توڑ دیتے ہیں، وہاں آنکھیں اکثر بہترین مذاکرات کار ثابت ہوتی ہیں۔‘‘ ، ’’عورت کو اپنے آنسو اُسی کے سامنے بہانے چاہئیں، جو اُس کی آنکھ کا درد محسوس کرتا ہے اور اپنے ہونٹوں کی مُسکان بھی اسے ہی دان کرنی چاہیے، جو اُس کی آنکھوں کی شوخی و شرارت پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘، ’’جب کوئی عورت تم سے بات کرے، تو وہ سُننے اور سمجھنے کی کوشش کرو، جو اُس کی آنکھیں کہہ رہی ہوتی ہیں۔‘‘ اور ’’عورت کا اصل حُسن، خُوب صُورتی دیکھنی ہے، تو اُس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھو، کیوں کہ یہی وہ روشن رہ گزر ہے، جو سیدھی اُس کے دل تک جاتی ہے۔ اُس دل تک، جہاں اُس کی تمام تر محبتیں قیام پزیر، پناہ گزین ہیں۔‘‘

تو آج ہماری بزم اِسی روشن و رخشاں، نیّرو تاباں ’’رہ گزر‘‘ ہی کی حفاظت و پاسبانی، آرایش و زیبایش کے کچھ لوازمات سے سجی ہے کہ ’’سَن گلاسز‘‘ صرف اسٹائل، فیشن، جدّت و ندرت ہی کا استعارہ نہیں، یہ درحقیقت نرگسی، غزالی، غلافی، بادامی، کجراری، کالی، نیلی، سبز، شنگرفی، بھوری، سُرمئی، سُرمگیں اور جھیل سی گہری… ہر طرح کی آنکھوں کے لیے ایک بہترین آئی گارڈ یا آئی پروٹیکٹر کا کردار بھی ادا کرسکتے ہیں، اگر ان کا انتخاب چہرے، خصوصاً آنکھوں کی ساخت و رنگت کو مدّنظر رکھ کے کیا جائے۔ یوں تو گزشتہ کئی برسوں سے مستقل بڑے اور چوڑے فریم کے گلاسز فیشن میں اِن ہیں، اور الٹراوائلٹ ریز سے بچائو کے ضمن میں اس سے اچھا انتخاب کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔ 

لیکن ساتھ ساتھ بہت سے لوگ اپنی پسند اور شخصیت کی مناسبت سے طرح طرح کے سن گلاسز بھی منتخب کررہے ہیں۔ جیسا کہ سال 2018ء کے کچھ پسندیدہ ٹرینڈز میں ٹینٹڈ، اوور سائزڈ رائونڈ اینڈ ایوی ایٹر، لارج، کیٹ آئی، اِسکنی، کُول فلیٹ ٹاپ اور ریٹرو سَن گلاسز شامل ہیں، تو شیپس میں میٹیلک کلپڈ، ونٹاج رائونڈ، ہاف فریم، تِھن وائر فریم، ڈبل بریج اور سیمی ٹرانس پیرنٹ لینسز زیادہ پسند کیے جارہے ہیں، جب کہ کلرز میں پنک، اورنج، ریڈ، وائٹ، ملٹی کلرز، یلو، بلیک اور نیوڈ بے حد اِن ہیں۔

ہماری اسٹائلش سی ماڈل نے بھی، آج آپ کے لیے فیشن میں بہت اِن کچھ جدید سے رنگ و انداز ہی کا انتخاب کیا ہے۔ ذرا دیکھیں، دیکھ کے ایسا نہیں لگ رہا ؎ ہر لمحہ سیرابی کی ارزانی ہے…مٹی کے کُوزے میں ٹھنڈا پانی ہے…ندی کنارے شہر پناہیں بالوں کی…ساون کی بوچھاریں ہیں، طغیانی ہے…باہر دھوپ، سمندر، سُرخ بگولے بھی…اندر ہر خُلیے میں رُت برفانی ہے…میرے دشت کو شاید اُس نے دیکھ لیا…دھوپ شبنمی، ہر سُو منظر دھانی ہے…جانے کیا برسا تھا رات چراغوں سے…بھور سمے سورج بھی پانی پانی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین