داعش کی خونریز، المناک، اذیت ناک اور وحشت ناک کارروائیوں کو دیکھ کر مغربی مفکرین یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ القاعدہ تو ’’اعتدال پسند‘‘ تنظیم تھی۔ واقعتا ایسا ہی ہے۔ داعش اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے روزانہ کوئی نہ کوئی نئی ترکیب ایجاد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر جانورو ںکی طرح انسانوں کو ذبح کرنا، ذبح شدہ انسانوں کے سروں کی نمائش کرنا، زندہ انسانوں کو بلند عمارت سے سر کے بل پھینکنا، پنجرے میں بند کرکے پانی میں ڈبودینا، گردن کے ساتھ بارودی مواد باندھ کر اُڑادینا۔ ایک سے بڑھ کر ایک سفاکانہ طریقے سے لوگوں کی جانیں لینا داعش کا معمول اور تعارف بن چکا ہے۔ جو شخص ان کے طریقۂ کار سے اختلاف کرے اسے مخالف، بلکہ مرتد قرار دے کر اس کی جان کے دُشمن بن جاتے ہیں۔ ابوبکر بغدادی اپنے آپ کو ’’خلیفہ‘‘ کہلاتے ہیں اور مسلمانوں خصوصاً دیگر مذہبی تنظیموں کے کارکنوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ جو ان کی بیعت سے انکار کرے، اسے ’’باطل نظام‘‘ کا ساتھی اور دُشمن کا ایجنٹ کہہ کر قتل کردیا جاتا ہے۔ داعش نے اپنے زیرتسلط علاقوں میں بڑے بڑے اور جدید ترین اسٹوڈیوز اور ابلاغی مراکز بھی قائم کر رکھے ہیں۔ جن کو یہ قتل کرتے ہیں، ان سے قتل سے پہلے بندوق کی نوک پر اپنی مرضی کا اعلان کرواتے ہیں، پھر اذیت ناک طریقے سے قتل کی ویڈیو اور فلم بنائی جاتی ہے اور پھر ڈالروں کے بل بوتے پر پوری دنیا میں پھیلاکر اپنی دہشت قائم کی جاتی ہے۔ ہماری تحقیق اور ریسرچ کے مطابق گزشتہ 90 سالہ تاریخ میں جتنی بھی مذہبی شدت پسند اور عسکری تنظیمیں معرض وجود میں آئی ہیں، ان سب سے داعش مالی لحاظ سے مستحکم اور مضبوط ہے۔ داعش کے پاس تیل کے کنویں بھی ہیں، ڈالروں کے انبار بھی ہیں، جدید ترین اسلحہ بھی ہے اور پڑھے لکھے نوجوان بھی، جبکہ اس سے پہلے جتنی بھی مذہبی عسکری تنظیمیں رہی ہیں ان کے کارکن غریب ہوا کرتے تھے اور ان کے پاس مالی وسائل بھی نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے۔ آپ 1928ء میں مصر سے اُٹھنے والی تحریک اخوان المسلمین سے لے کر تحریک طالبان تک 206 اسلامی عسکری تنظیموں کا جائزہ لے لیں، ان کے زیادہ تر کارکن غریب اور کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں، لیکن داعش میں بھرتی ہونے والے 95فیصد کارکن کالج یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے اور مالدار ہیں۔ داعش میں شامل ہونے والوں کا بائیوڈیٹا نکال لیں تو پتا چلتا ہے کالجوں کے لیکچرار اور یونیورسٹیوں کے پروفیسرز ہیں۔ دورانِ تحریر میرے سامنے دنیا بھر کی 237 ممالک کی اسلامی، جہادی، عسکری، لسانی، صوبائی، علاقائی، گروہی، فسادی جماعتوں، تحریکوں اور تنظیموں کی طویل فہرست رکھی ہے۔ ان سب کی لیڈر شپ پروفیسروں کے پاس رہی ہے، لیکن کارکن غریب اور ناخواندہ ہوا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر یہاں پر چند عسکری تنظیموں کو پیش کرتا ہوں۔ مصرکی ’’اخوان المسلمین‘‘ ہو یا سعودیہ کی القاعدہ، فلسطین کی حماس ہو یا ترکی کی ’’نیشنل آرڈر پارٹی‘‘، تیونس کی ’’حرکۃ النہضۃ الاسلامیہ‘‘ ہو یا الجزائر کی ’’الجہتہ الاسلامیہ للانقاذ‘‘، مراکش کی ’’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ ہو یا نائیجیریا کی شدت پسند تنظیم ’’بوکوحرام‘‘ ، صومالیہ کی اسلامی تحریکوں ’’اسلامی کورٹس‘‘ اور ’’اتحاد المحاکم الاسلامیہ‘‘ ہو یا پاکستان کی ’’لشکر جھنگوی ‘‘۔ ان تمام مذہبی و عسکری تنظیموںکی ٹین ٹاپ لیڈر شپ میں تو یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے دماغ تھے، لیکن ان کے کارکن غریب اور مدارس کے بھگوڑے تھے۔ مذکورہ بالا ان تمام مذہبی و عسکری تنظیموں اور داعش میں تین بڑے فرق نمایاں ہیں۔ پہلا یہ کہ داعش کے علاوہ تمام تنظیموں کے عام کارکن کم پڑھے ہوئے ہوتے تھے، لیکن داعش میں بھرتی ہونے والے یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے ہیں۔ اب دہشت گردانہ کارروائیاں پڑھے لکھے لوگ کررہے ہیں۔ دور نہ جائیں! سانحہ چارسدہ کے بعد جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں ایک معروف نجی یونیورسٹی اور دیگر اعلیٰ عصری اداروں کے پروفیسرز شامل ہیں، کسی مدرسے سے کوئی ایک بھی گرفتار نہیں ہوا ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اب مدرسوں میں کچھ نہیں بچا ، یہاں پر اگر کوئی اِکا دُکا چھپا ہوا بھی تھا تو خفیہ ایجنسیاں اسے گرفتار کرچکی ہیں۔ اب یونیورسٹیوں کی تطہیرکا مرحلہ ہے۔ اور داعش میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کا تعلق یونیورسٹیوں سے ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ جب بھی کوئی مذہبی و عسکری تنظیم وجود میں آئی تو امریکہ اور مغرب کی طرف سے سخت رویہ اپنایا جاتا، مگر داعش کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔ دیکھیں! داعش 2013ء میں منظرعام پر آئی۔ یہ عین وہ وقت ہے جب پاکستان نے دہشت گردوں پر کاری وار کیا اور ان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اس کا ’’بین السطور‘‘ جو مطلب ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ گزشتہ دنوں عربی زبان میں لکھی گئی ایک تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ عرب دنیا کے ایک محقق نے لکھی تھی۔ ان کا کہنا تھا میں نے عرب علماء سے داعش کے بارے میں پوچھا تو 99 فیصد علماء کا خیال تھا اس کے پیچھے امریکہ اور مغربی طاقتیں ہیں۔ ‘‘ بھارت کے صفِ اول کے اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے دہلی سے لے کر اتراکھنڈ تک ہندو سوابھیمان سینا دہشت گردی کے نام پر اسلامی شبیہ کو خراب شکل میں پیش کرکے ہندو نوجوانوں کو اسلحے کی ٹریننگ دے کر داعش کے خلاف جنگ چھیڑنے کے نام پر تیار کررہی ہے۔ اسی طرح کویت کے مشہور عربی رسالہ ’’المجتمع‘‘ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کا خلاصہ ہے امریکہ اور اسلام دُشمن طاقتوں کو نائن الیون کے واقعہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے تو انہوں نے کلی طور پر دنیا کے نقشے سے اسلام اور مسلمانوں کے وجود کو مٹانے کے لئے ’’داعش‘‘ کو تیار کیا ہے جو عالم عرب میں بسنے والے مسلمانوں کو مسلکی بنیاد پر کافر اور مرتد قرار دے کر اس وقت تک قتل کرنا بند نہ کرے، جب تک مشرق وسطیٰ کا لفظ نقشے سے ختم نہ ہوجائے۔‘‘ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے امریکہ داعش پر ڈرون حملے کیوں نہیں کررہاہے؟ جلال آباد میں داعش سے وابستہ لوگ امریکی سرپرستی میں کیوں کام کررہے ہیں؟ داعش کے خلاف امریکہ کا موقف نرم کیوں ہے؟ ۔ تیسرا فرق یہ ہے کہ داعش کے علاوہ جتنی بھی مذہبی عسکری تنظیمیں تھیں اور ہیں، ان کے لئے مالی وسائل نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں، جبکہ داعش کے پاس ڈالروں کے ڈھیر ہیں۔ اس حوالے سے آخری بات پاکستان کے مفتیان کرام اور علماء و مشائخ سے ہے۔ گزشتہ ہفتے میں ایک مجلس میں شریک تھا جہاں پر ملک بھر کے کئی جید علمائے کرام اور مفتیان عظام تشریف فرما تھے۔ داعش کے بارے میں کسی کی بھی رائے مثبت نہ تھی، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کھل کر داعش کے خلاف فتویٰ نہیں دیا گیا ہے اور تمام مسالک کا اجتماعی موقف اب تک سامنے نہیں آیا ہے، جبکہ داعش کی خونریز کارروائیوں سے اسلام کی اصل تصویر مسخ ہوکر رہ گئی ہے۔ دنیا سمجھنے لگی ہے کہ شاید یہی اسلام کی تعلیمات ہیں۔ داعش کے بارے میں دوٹوک فیصلہ نہ دینا، آئیں بائیں شائیں اور اگر مگر سے کام لینا کیا مداہنت کے زمرے میں نہیں آتا؟ کیا اس وقت فتویٰ دیں گے جب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہوگا؟ شیخ سعدی شیرازیؒ نے صدیوں پہلے کہا تھا: ’’اگر نہر میں سوراخ ہے تو اس کو بند کیا جاسکتا ہے، اس کے سامنے بندھ باندھا جاسکتا ہے لیکن اگر سوراخ شگاف کی صورت اختیار کرجائے تو پھر اس کو روکنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ‘‘