• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا کسی ایسے ملک میں بدعنوانی یا اختیارات کے غلط استعمال کو روکا جاسکتا ہے جہاں حکمران اشرافیہ اس بات پر متفق ہو کہ احتساب اُس وقت تک ہی بہتر جب تک وہ اُن کے گھر کی راہ نہ دیکھے؟کیا وہاں منصفانہ اور شفاف احتساب کی امید کی جاسکتی ہے جب وزیر ِ اعظم نیب کو دھمکی دیں کہ اس کے افسران جو حکمران جماعت کو تنگ کرتے اور اس کے منصوبوں میںٹانگ اڑاتے ہیں ، اپنی اوقات میں رہیں، اور پھر سرکاری افسروںسے کہا جائے کہ وہ احتساب کے خوف کے بغیر اپنا کام جاری رکھیں؟روسی نژاد امریکی ناول نگار نے اپنے ناول ’’Atlas Shrugged‘‘میں1957 میں جو کچھ لکھا اُسے آج بھی دہرانے کی ضرورت ہے۔۔۔’’جب آپ دیکھتے ہیں کہ تجارت میں مرضی کی بجائے مجبوری کا پہلو غالب ہے، جب آپ دیکھتے ہیں کہ صنعتی پیداوار کے لئے آپ کو اُن افراد کی اجازت درکار ہے جو کچھ نہیں پیدا کرتے، جب آپ دیکھتے ہیں کہ دولت کا بہائو اُن افراد کی طرف سے ہےجو اشیا کی بجائے حمایت کی تجارت کرتے ہیں، جب آپ دیکھتے ہیں کہ افرادمحنت کی بجائے تعلقات اور اثر ورسوخ کی وجہ سے دولت مند ہوتے چلے جارہے ہیں اورآپ کا قانون آپ کو اُن سے نہیں بچاتا بلکہ آپ کے مقابلے میں اُن کی ڈھال ثابت ہوتا ہے، جب آپ دیکھتے ہیں کہ بدعنوانی کا درخت بارآور ثابت ہوتا ہے جبکہ ایماندار ی ایک گناہ بن کر رہ جاتی ہے تو آپ کو جان لینا چاہئے کہ آپ کے معاشرے کی بربادی کا وقت آن پہنچا۔‘‘
پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے رہنمائوں نے جلا وطنی کے دور میںاپنے سابق دور کی غلطیوں کی تلافی کرنے کے لئے میثاق ِ جمہوریت وضع کرتے ہوئے عہد کیا کہ اگر موقع ملا تو وہ سابق غلطیوں کی تلافی کردیں گے۔ اس کی شق 13(d)میں اس عزم کا اظہار کیا گیاکہ ’’سیاسی مداخلت کے حامل نیب کی جگہ ایک خود مختار احتساب کمیشن قائم کیا جائے گا جس کے چیئرمین کو وزیر ِ اعظم لیڈر آف اپوزیشن کی مشاورت سے نامزد کریں گے جبکہ اس کی تقرری پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی، جس میں پچاس فیصد حکومتی اور پچاس فیصد اپوزیشن کے ارکان ہوں، عمل میں لائے گی، اور اس کے لئے ججوں کی تقرری کا سا شفاف طریق ِ کار اپنا یا جائے گا۔ ‘‘
جنرل مشرف کی ہدایت پر نیب پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے سیاست دانوں کے تعاقب میں تھا ۔ اشرافیہ کا بازومروڑکر مشرف کا ساتھ دینے ، پر راضی کرکے کلین چٹ تھما دی جاتی،ورنہ احتساب کا شکنجہ تیار ۔ میثاق ِ جمہوریت تحریر کرتے ہوئے پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) نے ’گزشتہ را صلواۃ‘ کہہ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ۔ جب 2008ء کے انتخابات میں پی پی پی اقتدار میں آئی تو اس نے 2009ء میںاحتساب بل پیش کیاجس کا مقصد عوامی عہدے رکھنے والوں کو احتساب سے تحفظ دینا تھا۔ اس سے آصف زرداری کی سدابہار فلاسفی کی جھلک ملتی تھی کہ جب تک گنگا بہہ رہی ہے، ہر کسی کو جی بھر کر ہاتھ دھونے کا موقع ملنا چاہئے۔ تاہم این آر او پر ہونے والی بحث کی وجہ سے عوام کا پارہ چڑھ چکا تھا، اس لئے وہ بل قانون کی صورت اختیار نہ کرسکا۔
پی پی پی کے دورمیں نیب بڑی حد تک غیر فعال رہا، کبھی اس کے چیئرمین کی تقرری التوا کا شکار رہی تو کبھی اس نے حکمران طبقے سے اغماض برتا، چنانچہ میڈیا اور سوموٹو اختیارات کا بے دریغ استعمال کرنے والی اُس وقت کی عدلیہ نے احتساب کرنے کی ٹھانی۔ بدعنوانی کے الزامات کی زد میں آنے والوں کا میڈیا ٹرائل ہوا، عدالتوں کی طرف سے سزادینے کی بجائے منصفوں کے تبصرے میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بننے لگے، چیف جسٹس صاحب خود ملزمان کی گرفتاری اور سزا کا حکم دیتے، اورعوام کو تاثر دیا گیا کہ نہ صرف ملک میں احتساب ہورہا ہے بلکہ نیک نام سپریم کورٹ اور محب ِ وطن میڈیا نیب کا کام سرانجام د ے رہے ہیں۔ جسٹس صاحب کا دور اختتام پذیر ہوا اور درست طریق ِ کار کے مطابق جج حضرات نے منصب سنبھالاتو عدلیہ اور میڈیا کے بارے میں سابق دور میں قائم ہونے والا قدرے منفی تاثر زائل ہونا شروع ہوگیا۔ میڈیا اور سپریم کورٹ نے مل کر عوامی بیانیے کو احتساب کی ضرورت سے آشنا ضرور کردیا۔ چاہے یہ این ایل سی ا سکینڈل اور جنر ل کیانی کی طرف سے الزامات کی زد میں آئے ہوئےبعض جنرلوں کو بچانے کی کوشش ہو، عدلیہ کی صفوں میں داخلی احتساب کے فقدان کا تاثر ہویا حکمران سیاسی اشرافیہ اور سرکاری افسران کی خودسری ، عوامی سطح پر یہ تاثر ضرور تقویت پاچکا کہ احتساب کی عدم موجودگی میں عوامی عہدیدارن ریاست کے وسائل کو نقصان پہنچاکر بھی قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2013 کی انتخابی مہم کے دوران کہاکہ ’بدعنوان افرا دکو گلیوں میں گھسیٹا جائے گا‘۔ انتخابی منشور میں وعدہ کیا گیا۔۔۔’’آج بدعنوانی اپنی حدوں کو چھورہی ہے۔ پی ایم ایل (ن) کی حکومت کی پالیسی ہے کہ وہ بدعنوانی کو مطلق برداشت نہیں کرے گی، اس کا بے رحم احتساب کیا جائے گا۔ مالی اور انتظامی طور پر آزاد اور خود مختار قومی احتساب کمیشن ، جس کے پاس تمام عوامی عہدے رکھنے والوںکے خلاف شفاف طریقے سے بلاامتیاز کارروائی کرنے کا اختیار ہوگا، کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔بدعنوانی کے خاتمے کے لئے ہر سرکاری ادارے اور تنظیم کی شفاف فعالیت کویقینی بنایا جائے گا ۔ امتیازی اختیارات کا ہر ممکن حد تک خاتمہ کیا جائے گا، نیز اختیارات کو منصفانہ طریقے سے استعمال کی روایت کو پروان چڑھایا جائے گا۔ احتساب، شفافیت اور ایمانداری کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے ایسے افراد کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی جائے گی جو بدعنوانی اور دیگر غلط کاریوں کی بابت مطلع کریں ۔ سرکاری خریداری کے قوانین اور ضوابط کو مستحکم کیا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گاکہ پبلک سیکٹر کی تنظیمیںاپنے ٹینڈرز کے ڈاکومنٹس کو آن لائن شائع کریں،نیز اپنے ترقیاتی بجٹ اور اخراجات کو بھی اپنی ویب سائٹ پر نمایاں کریں، تاکہ ہر شہری جان سکے کہ اُس کی رقم کہاں صرف ہورہی ہے۔‘‘
اپنی نصف آئینی مدت پوری کرنے والی پی ایم ایل (ن) کی حکومت کے قومی احتساب کمیشن قانون اور ’بدعنوانی کے خاتمے کے لئے شفاف اور بے رحم طریقے سے احتساب کرنے والا مالی اور انتظامی طور پر خود مختار اور فعال ادارہ‘ کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ پنجاب، بلوچستان یا وفاق میں بدعنوانی کو بے نقاب کرنے والے شہریوں کو تحفظ دینا والا قانون کہا ں ہے ؟پبلک سیکٹر میں چلنے والی تنظیموں کی طرف سے کی جانے والی خریداری ، اُن کا بجٹ اور اخراجات کی تفصیل اُن کی کون سی ویب سائٹ پر موجود ہےتاکہ شہری دیکھ سکیں کہ اُن کی رقم کہاں جارہی ہے؟کیا پاک چین اقتصادی راہداری میں شفافیت کے فقدان پر تمام حلقوں کو تحفظات نہیں ہیں؟پی ایم ایل (ن) نے مرکز،پنجاب یا بلوچستان میں کون سے قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے امتیازی اختیارات واپس لئے ہیں؟کیا وفاقی حکومت سیکورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن کو پبلک سیکٹر میں چلنے والی کمپنیوں کے قوانین میں ترمیم کرنے کانہیں کہہ رہی ؟2013 میں وضع کئے گئے یہ قوانین حکومت کو پبلک سیکٹر میں چلنے والی کمپنیوں کے سربراہ مقرر کرنے کے اختیارات میں من مانی کی اجازت نہیں دیتے۔ ان قوانین میں مزید بہتری لانے کی بجائے اب نوا زشریف حکومت ان کمپنیوں کے سربراہوں کو مقرر کرنے یا ہٹانے کے اختیارات کسی اور طریقے سے کیوں حاصل کرنا چاہتی ہے؟
سوال یہ نہیں ہے کہ کیا نیب اچھا کام کررہا تھایا نہیں، بات یہ ہے کہ پھر وزیر ِ اعظم نے نیب کے مسائل حل کرنے کے لئے آئینی اصلاحات کیوں متعارف نہیں کرائیں، یا اس کی جگہ کسی اور موثر ادارے کے قیام کے وعدے کو عملی شکل کیوں نہ دی؟کیا وزیر ِ اعظم کی طرف سے نیب کے خلاف استعمال کئے گئے سخت الفاظ اس کی فعالیت میں مداخلت کی کھلی کوشش نہیں؟
چیئرمین نیب کا عہدہ چار سال کے لئے ہوتا ہے اور اُسے صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ہی ہٹایا جاسکتا ہے۔ اگر نیب اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرے تو اس کا شکار ہونے والا کوئی افسر کسی عام شہری کی طرح عدالت میں جاسکتا ہے۔ وزیر ِ اعظم کے پاس نیب کو براہ ِ راست ہدایات دینے کا اختیار موجود نہیں۔ اُن کی طرف سے نیب اور اس کے افسران کو حکم دینے سے گمان ہوتا ہے کہ ابھی بھی اس ملک میں آئین یا قانون کی نہیں، افراد اور ا ن کی مرضی کی حکمرانی ہے۔اب ہمارے وزیر ِ اعظم کی آزمائش یہ ہے کہ کیا وہ 2013کے انتخابی منشور کے مطابق ایسا احتسابی ادارہ قائم کرتے ہیں جو اتنا خود مختار اور آزاد ہو کہ کوئی وزیراعظم بھی اُسے دھمکی نہ دے سکے؟
تازہ ترین