• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس مملکت خداداد کی جب سے تخلیق یا تشکیل ہوئی ہے یہ گونا گوں مسائل و مشکلات کا شکار ہے کبھی مہاجرین کی آباد کاری اور املاک کی الاٹمنٹ کا مسئلہ تھا تو کبھی وفاق اور اکائیوں کے درمیان اختیارات و معاملات کی تقسیم کا ایشو۔ سدا بہار مسئلہ کشمیر کی طرح بھارت دوستی یا دشمنی کا مسئلہ بھی روزاول سے نوزائیدہ مملکت کو درپیش ہے۔ نتیجتاً ہم نے شریر ہمسائے سے جنگیں بھی لڑیں اور امن، دوستی یا بھائی چارے کیلئے تجارتی یا سفارتی معاہدے بھی کئے۔ یہاں جمہوریت کی سربلندی ہونی چاہئے یا فوجی حکمرانی کے ذریعے ملکی ترقی کا اہتمام؟ ہم نے دونوں نسخے بڑھ چڑھ کر استعمال کئے۔
مارشل لا کا اہتمام و استقبال بھی کیا اور فوجی حکمرانوں کے خلاف لمبی چوڑی تحریکیں بھی چلائیں اور بقول پیر صاحب پگاڑا چوہے بلی کا یہ کھیل اختتام پذیر نہ ہو سکا۔ حالت یہ ہے کہ آج بھی جب بظاہر وطن عزیز میں جمہوریت کا خوب بول بالا ہے کئی ایسی سماعتیں موجود ہیں جنہیں بوٹوں کی چاپ کسی نہ کسی حوالے سے سنائی دے ہی جاتی ہے ہمارے یہاں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں جو نجی محفلوں میں آمریت کے نزول کی مدح سرائی کرتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔
وطن عزیز میں جتنی نعرے بازی کی گونج ہوئی ہے کاش اتنا زور کچھ کر گزرنے پر دیا ہوتا ہم نے احمد دین سے پوچھا احمد دین تم بروقت ڈیوٹی پر کیوں نہیں آتے ہو مسکین صورت احمد دین پورے خلوص کے ساتھ بولا صاحب ڈیوٹی پر بروقت کیسے آئوں دل ہی نہیں کرتا جب تک ملک میں مکمل مذہبی نظام نافذ نہیں ہوجاتا تب تک دلجمعی سے کام کرنے کو طبیعت آمادہ ہی نہیں ہوتی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں کافرانہ نظام کی خدمت کر رہا ہوں۔مسئلہ اکیلے احمد دین کا نہیں ہے ہم سب نے اپنی اپنی ترجیحات اپنے اپنے مفادات کے تحت متعین کر رکھی ہیں۔ اپنی اپنی ذمہ داریاں ایمانداری کے ساتھ نبھانے اور پوری توجہ اپنے فرائض پر ادا کرنے کی بجائے حیلے بہانے تراش رکھے ہیں اس کی مطابقت میں نعرے بازی کرتے پائے جاتے ہیں۔ یوں تو بہت سے نعرے برسوں چلتے ہیں پھر ان کی جگہ نئے آ جاتے ہیں لیکن وطن عزیز میں دو نعرے ایسے رہے ہیں جو قیام پاکستان سے لے کر آج کے دن تک کبھی اونچی لے میں اور کبھی نچلے سُر میں ہمیشہ لگائے گئے ہیں اور الحمدللہ ہمیشہ لگائے جاتے رہیں گے ان میں ایک نعرہ ہے مذہبی نظام کا نفاذ اور دوسرا ہے ’’کرپشن کے خلاف احتساب‘‘ کا ماشا اللہ نعرے دونوں ہی مقدس ہیں اور بظاہر ہر پاکستانی کے دل کی آواز محسوس ہوتے ہیں اس لئے تو یہ ابدی طور پر زندہ و تابندہ ہیں۔ ایک نعرے کے پیہم استعمال سے جب بوریت محسوس ہونے لگتی ہے تو ہم منہ کا ذائقہ بدلنے کی خاطرکچھ عر صے کے لئے اس پر زور آزمائی کم کردیتے ہیں اول الذکر نعرے کو ہم ماضی میں اتنا زیادہ استعمال کر چکے ہیں کہ ان دنوں خود نعرہ سازوں کو بھی اس میں کشش کی قدرے کمی محسوس ہوتی ہے اس لئے ان دنوں زیادہ زور ثانی الذکر نعرے پر ہے سابق کھلاڑی سے لے کر شیخ پنڈی تک اور شیخ الاسلام سے لے کر حق کے چراغ تک سب یہی نعرہ لگاتے ہیں اس کی گونج میں سب کو حقیقی تبدیلی پھوٹتی دکھائی دیتی ہے یا بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی ہے بظاہر نعرہ اتنا خوبصورت ہےکہ اس پر تنقید کرنے والا یا تنقیدی جائزہ لینے والا قابل گردن زدنی قرار پائے گا اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن ہماری قومی زندگی کے رگ و ریشے میں دوڑ رہی ہے۔ لہٰذا ہمارا پاپولر نعرہ یہی ہے کہ کرپشن کے خلاف احتساب سب کا ہونا چاہیے اور بلاتمیز بے رحم احتساب ہونا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ احتساب کرے گا کون؟ پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود زندگی میں کبھی برائی یا بے اصولی نہ کی ہو۔
اسے حالات کا جبر کہئے ، بے بسی کا نام دیں یا بےکسی کا کہ وطن عزیز میں تین مرتبہ منتخب ہو کر وزیر اعظم بننے والی شخصیت آج یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ’’اقتدار پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہے میرا سب کچھ پاکستان تھا مگر مجھے 14سال عوام کی خدمت سے محروم رکھا گیا جھوٹ کی سیاست پر یقین نہیں رکھتا آج کل نئے نئے سیاست دان پیدا ہوگئے ہیں جو جھوٹ کے سوا کچھ نہیں بولتے جھوٹ کی سیاست عوام جلد سمجھ جاتے ہیں جو نہیں سمجھ سکے وہ سمجھنے کی کوشش کریں ۔وزیر اعظم نواز شریف کے منہ سے نکلا ہوا یہ جملہ ان کے اندرونی کرب کی نشاندہی کرتا ہے کہ ’’حکومتیں عوام کے ووٹوں سے بنتی ہیں لیکن انہیں توڑتا کوئی اور ہے اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے ۔‘‘وفاقی جمہوری پارلیمانی آئین میں جس طرح حکومتیں قائم ہونے کا طریقہ واضح ہے اس طرح حکومتوں کے اختتام کی صراحت بھی موجود ہے تو پھر آخر آئین سےماوراء ہتھکنڈوں کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟ غیر آئینی راہبوں کی قصیدہ خوانی کرنے والے آخر کون لوگ ہیں ؟ یہاں احتساب کی جتنی بھی باتیں کی جا رہی ہیں ان تمام دانشوروں کی خدمت میں ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر قانون شکنی جرم ہے تو آئین شکنی مہا جرم ہے۔ ایسے ملزموں کے خلاف احتسابی نعرہ آخر کیوں بلند نہیں کیا جا رہا ؟
آج بحث نیب کے کردار پرہو رہی ہے اور وزیراعظم بھی فرما رہے ہیں کہ ’’نیب اپنے دائرے میں رہے افسروں کو ڈرانا اور عزتیں اچھالنا ٹھیک نہیں ‘‘ ہم عرض کرتے ہیں کہ بلاشبہ نیب ایک طاقتور ریاستی ادارہ ہے اور اسے احتسابی راہ اپناتے ہوئے کسی چھوٹے بڑے کی تمیز روا نہیں رکھنا چاہئے اور اس کا دائرہ کار تمام مقدمات تک محیط ہونا چاہئے لیکن Pick&Choseیا دیگر ’’ترجیحات ‘‘ کا معاملہ بھی نہیں ہونا چاہئے بغیر ٹھوس ثبوت کے کسی کی بھی جگ ہنسائی کرنا روا نہیں ۔زرداری صاحب کی اس بات میں وزن ہے کہ میاں صاحب نیب کے ساتھ ساتھ FIAکو بھی مخصوص مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہ بات بھی بے وزن نہیں ہے کہ اگر سندھ یا کراچی میں احتساب ہو سکتا ہے تو پنجاب میں کیوں نہیں مگر اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ احتساب نہ صرف یہ کہ شفاف ہونا چاہئے بلکہ شفاف ہوتا نظر بھی آنا چاہئے اور اس کے دیگر سیاسی یا غیر سیاسی مقاصد نہیں ہونے چاہئیں۔ اب تک نیب نے جو احتساب کیا ہے اس کی تفصیلات بھی زیر بحث آنی چاہئیں۔پلی بار گین کے تحت کس قدر وصولیاں ہوئیں اور کتنوں کو بخششیں دی گئیں۔
ہماری تو حالت یہ ہے کہ کرپشن کو ختم کرنے کیلئے اینٹی کرپشن کے ادارے بنائے جاتے ہیں بعدازاں معلوم ہوتا ہے کہ جتنی کرپشن اینٹی کرپشن کے اداروں میں ہے اتنی تو شاید کرپشن میں بدنام عام اداروں میں بھی نہ ہو گی۔ یہ بھی درست ہے کہ خود نیب کے اندر بھی احتسابی عمل مضبوط ہونا چاہئے چیئرمین کی اپنے افسران پر مضبوط گرپ ہونی چاہئے نیز نیب قوانین میں جہاں خامیاں ہیں وہیں ان کی درستی کا اہتمام پارلیمنٹ کی سطح پر ہونا چاہئے ۔
ان سب سے بڑھ کر ہماری تجویز یہ ہے کہ کسی بھی طریقے سے قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جائے اگر ملکی قانون سب کے لئے یکساں ہے تو اس پر عملدرآمد بھی بلاتمیز ہونا چاہئے۔ ہمارے عدالتی یا احتسابی نظام میں جن کالی بھیڑوں کی نشاندہی ہوتی ہے انہیں نشان عبرت بنایا جانا چاہئے۔ جب تک قانون میں جان نہیں آئے گی ہماری سوسائٹی روبہ زوال ہی رہے گی۔ اس لئے آئین کی پاسداری اور قانون کی عملداری یقینی بنائی جانی چاہئے چاہے اس کی جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے اسی سے نیا پاکستان بن سکتا ہے۔
تازہ ترین