• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھوں تو اسلام سے بیزار، لبرل اور سیکولر حضرات ناراض ہوتے ہیں کیونکہ ان کاموقف ہے کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ نہیں بلکہ صرف مسلمانوں کا ملک ہے۔ اسلام کے ذکرسے وہ بظاہر اس لئے بدکتے ہیں کہ ان کے خیال کے مطابق موجودہ دہشت گردی اسلام کی پیداوار ہے۔ اگر ان سے جواباً پوچھاجائے کہ حضور اگر اسلام نے دہشت گردی پیدا کی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ دہشت گردی اسلام کی صدیوں پرانی تاریخ میں کہیں نظر نہیںآ تی۔ خود پاکستان میں بھی یہ دہشت گردی گزشتہ دہائی ڈیڑھ دہائی پرانی ہے ورنہ آج سے دو تین دہائیاں قبل تو اس کا نام و نشان تک موجود نہ تھا۔ لوگ پرامن زندگی گزار رہے تھے اور احساس تحفظ کے فقدان کی پرچھائیں تک نہیں تھی حتیٰ کہ دہشت گردی کی پہلی لہر جو شیعہ سنی ٹارگٹ کلنگ کی شکل میں ظاہر ہوئی وہ بھی 80کی دہائی کے نصف کا قصہ ہے۔ اگر موجودہ تشدد اوردہشت گردی قرار داد مقاصد کاشاخسانہ ہے تو قراردادمقاصد تو مارچ 1949 میں پاس کی گئی تھی۔ اس کا شاخسانہ 55برس تک کہاں سویا رہا؟ اس وقت دنیا کے نقشے پر 56 اسلامی ممالک موجود ہیں۔ ان ممالک میں اسلام نے دہشت گردی کیوں پیدا نہیں کی؟ ہاں اگر آپ دلیل دینے کیلئے اکا دکا واقعات کا ذکرکریں توایسے واقعات دنیا کے ہر ملک میں ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے نہ امریکہ اور برطانیہ مبراہیں اور نہ سویڈن، ناروے، جرمنی جیسے مادرپدرآزادمعاشرے محفوظ ہیں۔ ان ممالک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کااکثر اوقات مذہب سے تعلق نہیں ہوا بلکہ وہ اپنے معاشرے کے خلاف ردعمل کے زمرے میں آتے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کی دہشت گردی ہماری سیاست کاشاخسانہ ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگی میں بہت سے عوامل شامل ہوگئے ہیں۔ بعض معاملات خدائی مار تھے جن میں نائن الیون بھی شامل ہے۔نائن الیون میں ایک بھی پاکستانی ملوث نہیں تھا۔ مصر، سعودی عرب کے علاوہ جن ممالک کے مسلمان کردار اس میں شامل تھے ان ممالک نے تو بہتر نظام اور موثر انتظامی مشینری کے ذریعے اس مسئلے پر خاصی حد تک قابو پا لیا ہے لیکن ہم مسلسل دہشت گردی کی لہر کاشکار بنے ہوئے ہیں ۔ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے پڑوسی ہونے کی سزابھگت رہے ہیں ۔سزا دینے والے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ گاہیں ڈھونڈ لیتے ہیں اور کمزور انتظام اور کمزور صلاحیت کا فائدہ اٹھا کر دونوں ممالک کے درمیان آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں۔ یہ درست کہ دنیا بھر کے جہادی جنرل ضیاء الحق کے اسلامی عہد ِ حکومت میں یہاں تشریف لائے اور روسی فوجوں کوشکست دینے کے بعد ”غازی“ کے تمغے سینوں پر سجا کر یہیں آباد ہوگئے۔ان مجاہدین کی اکثریت کو ان کے اپنے ممالک نے واپس لینے سے انکار کردیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن جہادیوں کو ان کے پیدائشی ممالک نے واپس لینے سے انکارکردیا انہیں ہم نے نہ صرف مہمان بنا کر رکھ لیا بلکہ یہاں شادیوں اور کاروبار کی اجازت دے کر قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی جاری کردیئے۔ ہماری بعض عسکری خفیہ ایجنسیوں کاخیال تھا کہ یہ تربیت یافتہ جہادی جہاد ِ کشمیر کے لئے کام آئیں گے۔ ان ایجنسیوں نے ان کی سرپرستی کی۔ ان کو بہرحال یہ بھی کریڈٹ دیناچاہئے کہ انہوں نے پاکستان کیلئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا۔ پاکستان میں وہ پرامن زندگی گزارتے تھے اور ان کی توجہ اگر کہیں تھی تو وہ مقبوضہ کشمیر کی جانب… چنانچہ اگر آپ بغور صورتحال کا مطالعہ کریں تو احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں اورگروہوں کے مضبوط ہونے کے باوجود، فرقہ واریت کو ہوا دینے کے باوجود اور فاٹا میں مذہبی عناصر کے عزائم کے باوجود ان جہادی عناصر کارویہ پاکستان کی جانب دوستانہ اور ہمدردانہ تھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ان علاقوں پر خصوصاً توجہ اور خصوصی نگاہ رکھی جاتی اور مذہبی شدت پسندی کو شروع ہی سے پھلنے پھولنے نہ دیاجاتا۔ مذہبی کرداروں کو ان آزاد علاقوں میں اپنی مذہبی دکانیں کھولنے، صفیں ترتیب دینے اور عسکری تربیت و اسلحہ فراہمی کی اجازت نہ دی جاتی بلکہ سختی سے اس چیلنج کو جڑ پکڑنے سے روکا جاتاجس طرح سعودی عرب، ترکی اور بعض دوسرے ممالک نے کیاہے لیکن ہماری نااہل اور کم نظرحکومتیں مصلحتوں کا شکار رہیں اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت کسی بڑے اقدام سے گریزاں رہیں۔ اندرہی اندر لاوا پکتارہا اور مقامی مذہبی شخصیات نے اپنے اپنے ایجنڈوں کے تحت عسکری تنظیمیں قائم کرلیں۔ ملک بھر سے لوگ بھرتی ہوتے رہے، انہیں کیمپوں میں تربیت دی جاتی رہی، ان کی برین واشنگ کی جاتی رہیں اور ہماری حکومتیں اور ایجنسیاں صرف ِ نظر کامظاہرہ کرتی رہیں۔ آج جو بڑے بڑے مذہبی اورجہادی گروہ اورتنظیمیں پاکستان کو خودکش حملوں اور دہشت گردی کا ٹارگٹ بنا رہی ہیں، ان میں وہ جہادی کہاں ہیں جو روس کے خلاف جہاد کے لئے آئے تھے۔ ان کی بڑی اکثریت تو ہماری اپنی زمین، ماحول اور معاشرے کی پیداوار ہے۔ اب جن بوتل سے نکل کر خوفناک صورت اختیار کرچکا ہے۔ کوئی طاقتور گروہ پاکستان کے اندر اپنی سلطنت قائم کرنا چاہتا ہے تو کوئی اپنا نظام نافذ کرنا چاہتاہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ عسکری تنظیمیں قائم ہو رہی تھیں، پروان چڑھ رہی تھیں اس وقت پاکستان کے حکمران کہاں تھے؟ جن اسلامی ممالک کے حکمران بیدارمغز تھے انہوں نے ان جراثیم کو پرورش پانے سے پہلے ہی کچل دیا۔
ماہرین جو جی چاہے کہتے رہیں اور اندرونی معلومات اور زمینی حقائق کا دعویٰ کرتے رہیں لیکن میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اگر نائن الیون کا سانحہ نہ ہوتا اور امریکہ افغانستان و پاکستان کے معاملات میں دخیل نہ ہوتا تو آج جس دہشت گردی سے ہم خوفزدہ ہیں اس کا وجود بھی نہ ہوتا۔ موجودہ دہشت گردی، خودکش حملے اورڈرون حملے نائن الیون کا تحفہ ہیں اور انہیں اسلام کے کھاتے میں ڈالنا یا قراردادمقاصد کاشاخسانہ قراردینا دین بیزار لبرل سیکولر دانشوروں کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے جو موجودہ افسوسناک صورتحال کافائدہ اٹھا کر دہشت گردی کواسلام سے وابستہ کرکے لوگوں کو دین سے بیزار کرنا چاہتے ہیں لیکن جب ناموس رسالت کے مسئلے پر کروڑوں مسلمانوں کوسڑکوں پر احتجاج کرتے دیکھتے ہیں تو ناکامی پر آنسو بہاتے اورقراردادمقاصد کا رونا، رونا شروع کردیتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ دہشت گردی خالصتاً سیاسی اور بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ ہماری سیاسی غلطیوں کا شاخسانہ اور حکومتی نااہلی یا بے عملی کانتیجہ ہے اور اس گھمبیر صورتحال اور بیرونی مداخلت سے فائدہ اٹھا کر کچھ مذہبی عناصراپنی اپنی دکانیں چمکارہے ہیں۔ افسوس جو مذہب محبت، بھائی چارے ، اخوت، امن، برداشت اور احترام انسانیت کا درس دیتا ہے اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے۔ اس میں بیچارے مذہب کاکیا قصور؟ یہ تو ہے ان لوگوں کا ذہنی فتور۔
آخر میں جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ جب الطاف بھائی نے قائداعظم کو سیکولر قراردیا تو میں نے لندن جانے اور انہیں چند کتابیں پیش کرنے کاعندیہ دیا تھا۔میری طالب علمانہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ قائداعظم کے منہ سے کبھی سیکولر کالفظ نہیں نکلا البتہ انہوں نے کم از کم 125بار پاکستان کو اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کیا اور وضاحت کی کہ اس کا ہرگز مطلب مذہبی ریاست نہیں۔ میں نے بے شمارقارئین کے مشورے پر لندن جانے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ لوگوں کا خیال تھا یہ سعی لاحاصل ہے جبکہ میں مایوس نہیں۔ اب ایم کیو ایم ”قائد کا پاکستان یا طالبان کا“ پر ریفرنڈم کروارہی ہے۔ 19کروڑ میں شاید 19حضرات بھی طالبان کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قائداعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے یااسلامی، جمہوری، فلاحی پاکستان؟ اگر ریفرنڈم کروانا ہی ہے تواس موضوع پر کروائیں تاکہ عوام کی رائے کھل کر سامنے آسکے۔
تازہ ترین