• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی ، ان کے سلسلے میں ایک ای میل بھیجی گئی،سارے قصے کو کھنگالنے سے پہلے پس منظر سے آگاہ ہوجائیں۔ بات وہاں سے چلی جب دو ڈھائی ہفتے پیشتر وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے سابق سفیر کے حوالے سے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا:’’امریکہ میں متعین ایک سابق پاکستانی سفیر امریکی ایف سولہ طیاروں کی پاکستان کو فراہمی کی مخالفت کررہے ہیںاور ان کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان کو یہ طیارے نہ ملیں‘‘۔ خواجہ صاحب کے اس انکشاف پر حسین کے خلاف میڈیا میں مہم تو نہ چلائی جاسکی مگر جو کچھ کہا گیا وہ خاصا شدید تھا، مثلاً ایک صاحب نے اس معاملے پر’’ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والے غدار‘‘ کے عنوان سے اظہار خیال کیا۔ دوسرے صاحب نے ’’حسین حقانی کو کیا ہوگیا ؟‘‘کی سرخی جمائی ساتھ ہی اپنی تحریر میں خواجہ صاحب کے بیان میں ان سے ایک مزید جملہ بھی منسوب کردیا، یہ کہ خواجہ صاحب کے بقول ’’اس مہم میں بھارت ان کی مالی معاونت کررہا ہے‘‘ ، اپنے دیگر دلائل میں انہوں نے حسین حقانی اور ان کی اہلیہ مسز اصفہانی کے دورہ بھارت کو ہدف پہ رکھا اور قوم کو ان سے پتہ چلا’’حسین حقانی اور مسز اصفہانی یہ سب کچھ ایک ایجنڈے کے تحت کررہے ہیں، جسے انہیں مغرب کی بعض طاغوتی طاقتوں نے سونپا ہے‘‘۔ ایک اور معاصر نے امریکی صدر اوباما کے سالانہ ناشتہ میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین بلاول زرداری بھٹو کی شرکت کے تناظر میں پاکستانیوں کو مطلع کیا:۔’’امریکہ میں قیام کے باوجود حسین حقانی ابھی تک ان سے مل نہیں سکے‘‘ چنانچہ انہوں نے دونوں کے مابین اختلاف کا وجود دریافت کرلیا ان کے ذرائع نے حسین حقانی اور زرداری کے بیچ اختلافات کی تصدیق نہیں کی، البتہ حسین حقانی کے مفادات چونکہ امریکیوں سے وابستہ ہیں لہٰذا خود کو محسن سے دور رکھنے میں حکمت سمجھی ہے‘‘۔ اسی معاصر کے دوسرے صاحب نے’’مکرجی تا حقانی.....سچا کون ؟‘‘ کا سوال اٹھایا ، ان کے نزدیک بھارتی صدر پرناب مکرجی تو کھلے عام بابری مسجد کے واقعہ پر بھارت کو مجرم ڈکلیئر کرتے ہیں مگر حسین حقانی ایف۔16 امریکی طیاروں کی پاکستان کو فراہمی کے ایشو پر کیا کردار ادا کررہے ہیں؟(یعنی جو کچھ خواجہ صاحب نے فرمایا وہ مقدمہ تسلیم کرلیا گیا، بلا کسی سماعت، ثبوت، دلیل اور وقوعاتی شہادت کے)
اب ای میل کی طرف رخ کرتے ہیں جس کی وجہ تسمیہ یہی میڈیا مہم ہے، میل میں دلائل کی ایک تسبیح پروئی گئی ہے، اس کا ایک ایک دانہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
(1):۔حسین حقانی پاکستان کے کامیاب ترین سفیر شمار کئے جائیں گے۔
ان کے دور سفارت کاری میں پاکستان کو ایف 16طیارے دیئے گئے(تعداد16عدد)،کیری لوگر بل کی روسے ساڑھے سات بلین ڈالر کی خطیر امداد بھی ملی۔
(2):۔’’میموگیٹ اسیکنڈل کے نتیجے میں گو انہیں مستعفی ہونا پڑا لیکن یہ معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا، اب تو میاں نواز شریف خود ملک کے منتخب چیف ایگزیکٹو ہیں، وہ حب الوطنی سے سرشار ہوئے، برسوں بعد کالا کوٹ پہن کر، ایک ’’وطن دشمن‘‘ کے خلاف عدالت عالیہ میں پیش ہونے کے لئے گئے تھے، انہیں تو سارے جہاں کے کام چھوڑ کر اس ’’وطن دشمن‘‘ کو ایکسپوز کرنا چاہئے تھا۔
(3):۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری صاحب نے میمو گیٹ کیس کے واقعہ پر حددرجہ جوڈیشل ایکٹوزیم روا رکھا، تاہم نہ تو اس کی باقاعدگی سے سماعت جاری رکھی گئی، نہ ہی آج تک اس کیس کے بارے میں سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ کیا۔2012ء سے آج تک یہ کیس سپریم کورٹ میںPendingہے، چوتھا برس ہونے کو ہے۔
(4):۔حواس مختل کردینے کےبرابر’’طرفہ تماشا، یہ کہ میمو گیٹ کیس کی آخری سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی:’’حسین حقانی نہ تو انڈر ٹرائل ہے اور نہ ہی مبینہ ملزم، اس کے باوجود سابق چیف جسٹس حسین کو بار بار عدالت میں پیش ہونے کے احکامات کیوں جاری کرتے رہے؟کیا اس کا مقصد میڈیا ٹرائل سے لذت اندوزی تھا؟
(5):۔حسین حقانی ان دنوں امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، وہ کس پوزیشن یا لابنگ کے کس پہلو سے امریکی حکومت کی پاکستان کو ایف 16طیاروں کی فراہمی رکواسکتے تھے؟ وہ اتنے طاقتور ہیں ہی نہیں نہ ہی آپ انہیں’’الطاف بھائی، کے مقام پر فائز سمجھیں جنہیں عقیدت مندوں اور پیروکاروں کی ایک فوج ظفر موج ہر وقت دستیاب ہے۔
(6):۔خواجہ آصف صاحب آخر پورا موقع محل کیوں بیان نہیں کرتے جس کے بعد حسین حقانی کی یہ مبینہ ملک مخالف مہم ثابت کی جاسکے؟
(7):۔بعض لکھاری انہیں پاکستان کے ضمن میں"Irrelevant"قرار دیتے ہیں، اوکے! پھر ان کی ذات کو اپنے ذہنی بغض کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔ وہ"Irrelevant" ہیں تب نہ دکھائی اور نہ سمجھ آنے والے اسباب یا علامتوں کے دوش پر حسین حقانی کیونکر نقطہ غدار تک کا مستحق ہوجاتا ہے، ویسے تو وطن عزیز میں ملک کے سربراہ اور افواج پاکستان کے ایک سپہ سالار کے لئے بھی انتہائی شور و غوغا کے ساتھ لفظ’’غدار‘‘ استعمال کیا جا چکا ہے،حسین حقانی بیچاراتو بہت ہی’’کمزور‘‘ ہے!
(8):۔حسین حقانی کا بنیادی جرم کیا ہے؟ملک کے منتخب نمائندوں کی آئینی بالادستی کا نظریہ، اس نظریے کی خاطر دو یا تین تاریخی معیار کی کتابیں لکھ جانا، مسلسل اپنے اس’’جرم‘‘ کی ہر فورم پر تبلیغ و تشریح کرنے سے باز نہ آنا، چنانچہ حسین حقانی کے ایسے نظریات ہی شاید اس کی تقدیر کا طوق بن چکے ہیں، مثلاً ان کا کہنا ہے(1)مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے پاک بھارت تعلقات کو نارمل کرنا ہوگا۔(2) پاکستان کی بقاء اور ترقی کے لئے تمام اور ہر نوعیت کے جہادی افراد یا گروہوں کا سو فیصد خاتمہ۔ (3)پاکستان کو’’نیشنل سیکورٹی ریاست‘‘ کے بجائے ایک’’فلاحی ریاست‘‘ کے بیانیہ کا ببانگ دہل اعلان کردینا چاہئے۔
ای میل یہاں پر ختم ہوتی ہے!’’فٹ بال کے کھیل میں فٹ بال کو کک لگانا کھیل کا حصہ ہے مگر کھلاڑی کو کک لگانے پر آپ فائول کی پینلٹی بھگتتے ہیں۔ حسین حقانی کے مخالف ان کے متعلق دلیل سے مقدمہ اور واقعات پیش کریں‘‘۔محض افترا پردازی پر مبنی قیاس آرائیوں کو بہرحال مذمت کے سوا کوئی سند جاری نہیں کی جاسکتی۔ اس شخص کی گرد اڑانے سے پہلے یاد رہے ، اس نامور پاکستانی کی کتب دنیا کی 70یونیورسٹیوں میں پڑھائی جارہی ہیں۔
آپ کی اپنی رائے ہوسکتی ہے، حق میں یا مخالفت میں، کالم نگار کو البتہ حسین حقانی کے موضوع پر ای میل کے کسی ایک دعوے سے بھی اختلاف تو درکنار سوفیصد سے بھی زیادہ اتفاق ہے، جب حسین حقانی ’’میمو گیٹ اسیکنڈل‘‘ کے قیدی بنائے گئے کالم نگار اپنی استطاعت کی حد تک ان کی حمایت اورصفائیمیں آخری حد تک گیا۔ انہی دنوں خاکسار نے لکھا تھا:۔’’حسین حقانی ، جیسا کہ ایک دنیا کو معلوم ہے ان دنوں امریکہ میں زندگی بتارہے ہیں، اس صبح کے منتظر جس کے سورج کی کرنوں کا نظارہ وہ اپنی دھرتی پہ کھڑے ہو کے کرسکیں گے‘‘، یاد رہنا چاہئے،’’سچائی بغیر چوٹ کھائے ہوئے خود کو سنبھال سکتی ہے، اسے داغ اور گھائو معدوم نہیں کرسکتے‘‘، درست ہے وہ فرد یا وہ افراد جنہیں اس وطن کی محبت و خدمت کے صلے میں افتادگان خاک میں سے ہونا پڑا؎
اس کی آنکھوں سے نکالے گا جو سوئیاں اظہار
وہ صلہ پائے گا کچھ ایسے کہ اندھا ہوگا
پاکستان کے لئے جان نثاری میں حسین حقانی کو اسی آزمائش و کرب سے گزرنا پڑا، لیکن تاریخ کا جھومر افتادگان خاک ہی ہوتے ہیں، طاقت کے رتھ پہ سوار بطلان فروش نہیں!
تازہ ترین