• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بس ہوسٹس مہوش ارشدکو گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ مقتولہ اس خاندان کی واحد کفیل تھی جس کے پاس اسے کفنانے اور دفنانے تک کے وسائل نہیں تھے اور لوگوں نے چندہ جمع کر کے اس کو سپرد خاک کیا۔ چند دہائیاں پیشتر مختاراں مائی کی مظلومیت کی کہانی سامنے آنے کے بعد سے اب تک ہر نئے دن خواتین کے قتل ، اغوا اور جنسی ہراسگی کے قصے سامنے آتے رہتے ہیں۔ مہوش کی دردناک کہانی سے جہاں اس کی معاشی مجبوریوں کا پہلو سامنے آتا ہے، وہیں اس کے کردار کی پختگی بھی روز روشن کی طرح واضح نظر آتی ہے۔اس نے موت قبول کر لی لیکن اس نے زور زبردستی کرنے والے مرد کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ پاکستان میں جہاں مذہبی انتہا پسندی اور روایت پرستی کا بیانیہ ہر سو غالب نظر آتا ہے وہیں معاشرے میں ایک خاموش انقلاب بھی برپا ہے جس کے نتیجے میں خواتین ہر معاشی اور سماجی ادارے میں اپنے قدم آگے بڑھا رہی ہیں۔ اور اگر غور کیا جائے تو خواتین کی اسی ترقی کے ردعمل میں مردوں کا قدیم پدری نظام اسے روکنے اور پرانی حدود و قیود میں بند رکھنے کے لئے نت نئے الزام لگا رہا ہے اور گھنائونے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن تاریخ اپنے پہیے کے نیچے ساری منفی طاقتوں کو کچل کر آگے بڑھ رہی ہے۔
جن دنوں مہوش کے بہیمانہ قتل کا قصہ میڈیا پر آیا انہی دنوں یہ خبر بھی آئی کہ کیپٹن مریم مسعود اور فرسٹ آفیسر شمائلہ مظہر نے پی آئی اے کا طیارہ چترال کی پُر خطر وادیوں میں کمال ہنر مندی سے اتارا۔ الیکشن کے شور و غوغا میں یہ خبریں بھی تقریباً دب گئیں کہ ضلع دیر بالا کی حمیدہ شاہد اور کرم ایجنسی کی علی بیگم 25جولائی کو ہونے والے انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لے رہی ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں خواتین کو ووٹ تک دینے کی اجازت نہیں تھی۔ پنجاب اور کسی حد تک سندھ میں تو پہلے ہی خواتین سیاسی اشرافیہ کا حصہ تھیں لیکن اب روایت پرست قبائلی علاقوں میں بھی خواتین آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس لئے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرہ پیچھے کی طرف پلٹ رہا ہے۔ معاملہ اس کے الٹ ہے ،پاکستانی معاشرہ اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے کہ روایتی طاقتوں پر خوف مسلط ہو گیا ہے اور وہ تشدد کے ذریعے اسے پیچھے کی طرف دھکیلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں۔
پاکستان میں یہ بنیادی تبدیلی زرعی شعبے کے سکڑنے ، مشینی آلات پیداوار کے استعمال اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (سیل فون، ٹی وی وغیرہ) کے پھیلاؤ سے سامنے آئی ہے۔ اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ جب پیداوار کے طریقے اور اشیائے صرف جدید ہوں گی تو انسانی تعلقات میں بھی بنیادی تبدیلیاں آئیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب جیسے ملک میں بھی آخر کار عورتوں کو گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ دوسری آزادیاں دینا نا گزیر ہو گیا۔ اب پاکستان (بالخصوص پنجاب) میں مرضی کی شادیوں کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔ شہری آبادی کے بڑھنے سے بھی بنیادی رویوں میں فرق آیا ہے۔ نہ صرف شہری بلکہ دیہی علاقوں میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کا رجحان بڑھ چکا ہے۔ میرے آبائی گاؤں میں جہاں پہلے لڑکیوں کے لئے ایک پرائمری اسکول تھا وہاں اب ہائر سیکنڈری اسکول قائم ہو چکا ہے۔ غرضیکہ نئی معیشت کے ابھار کے ساتھ خواتین کی معاشرے میں حیثیت بہتر ہوئی ہے اور اس رجحان کو کوئی روک نہیں سکتا۔ خواتین کی اس طرح کی ترقی کے باوجود مظلوم طبقات کی خواتین کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
ویسے تو رومانیت پسند ہمیشہ سے عورت کو ایک مخصوص طرز سے پیش کرتے آئے ہیں۔ مثلاً لوک گیتوں میں عورت کا رومانوی تصور پیش کیا جاتا تھا جیسا کہ اس مشہور پنجابی گیت’’چڑیاں دا چنبہ‘‘ میں ہے۔ گیت کے بولوں میں باپ سے خطاب کرتے ہوئے نئی بیاہی جانے والی لڑکی کہتی ہے کہ ’ہم لڑکیاں تو چڑیوں کے چنبے (غول، اکٹھ) کی طرح ہیں جنہوں نے ایک دن کبھی نہ واپس آنے کے لئے اڑجانا ہے۔ ہماری اڑان بہت لمبی ہے۔ ہمارے جانے کے بعد تمہارے آنگن میں کون چرخا کاتے گا‘ وغیرہ وغیرہ۔ اسی رومانوی تصور کو پلٹاتے ہوئے ترقی پسند شاعر پاش نے اس کا دوسرا رخ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’چڑیوں کا چنبہ کہیں نہیں جائے گا، یہیں کہیں کھیتوں کے منڈھیروں سے گھاس کھودا کرے گا، روکھی سوکھی روٹیاں مردوں کو بہم پہنچایا کرے گا، اور چلچلاتی دھوپ میں اپنے پھٹے پرانے دوپٹے کو پانی میں بھگو کر پیشانی پر پھیرا کرے گا‘۔ مطلب یہ کہ زرعی معاشرے میں بھی محنت کش اور غریب کسان عورتیں ظلم اور جبر کی چکی میں پس رہی تھیں۔
اب جب طریق پیداوار تبدیل ہو گیا ہے اور شہروں کی آبادی دیہی آبادی کو پیچھے چھوڑ رہی ہے تو ’چڑیوں کے چنبے‘ کی عمومی حالت تو پہلے کے مقابلے میں کہیں بہتر ہو گئی ہے۔ اب محنت کش خواتین کھیتوں میں روکھی سوکھی روٹیاں بہم پہنچانے کے بجائے بس کنڈکٹر اور اس طرح کے بہت سے دوسرے شعبوں میں وہ کام کر رہی ہیں جو پہلے صرف مرد کیا کرتے تھے۔ لیکن اب بھی وہ کمسن بچیوں کے روپ میں شہری گھرانوں کے فرش صاف کرتے ہوئے نظر آتی ہیں اور اکثر اوقات تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ تاہم ان سب حقائق کے باوجود نئے معاشرے میں خواتین کے لئے ممکنات کا ایک نیا افق سامنے آرہا ہے۔ پدری نظام کے نشے میں چور مردوں کو عورت کی نئی حیثیت تسلیم کرنے میں شاید کافی وقت لگے گا لیکن ان کے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹیں وقت کے ساتھ ساتھ دور ہوتی جائیں گی۔اب وہ زمانہ گزر چکا جب وہ غزل میں چلمن سے لگ کر بیٹھتی تھیں۔غزل کی روایت کے خاتمے کا سبب بھی یہی ہے اب چلمن سے لگی بیٹھی ہوائی جہاز چلا رہی ہے، موٹر سائیکلوں اور کاروں میںمردوں کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔اب معاشرے میں شخصی آزادی کے پھیلاؤ کو کوئی روک نہیں سکتا اور یہ سماجی انجینئرنگ کرنے والوں کے لئے بری خبر ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین