• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں کہ برُی خبر سے زیادہ تکلیف دہ خبر کا انتظار ہوتا ہے جو انسان کو مسلسل ذہنی اذیت میں مبتلا کئے رکھتا ہے۔ نواز شریف اور اُن کی فیملی بھی آج کل کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز لندن کے مقامی کلینک میں انتہائی تشویشناک حالت میں گزشتہ ایک ہفتے سے وینٹی لیٹر پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں جبکہ نواز شریف کے مخالفین اِس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف اُن کی حریف جماعت تحریک انصاف، کلثوم نواز کی بیماری کو ڈھونگ قرار دے رہی ہے تو دوسری طرف کلثوم نواز کے انتقال کے حوالے سے افواہوں کا بازار گرم ہے جو یقیناََ نواز شریف اور اُن کی فیملی کے کرب میں مزید اضافہ کررہا ہے۔

بیگم کلثوم نواز گزشتہ کئی ماہ سے کینسر کے مرض سے نبردآزما ہیں اور اُن کی متعدد بار کیموتھراپی اور سرجریز ہوچکی ہیں۔ گزشتہ ہفتے دل کا دورہ پڑنے سے اُن کی حالت مزید بگڑگئی تھی جس کے باعث ڈاکٹرز نے اُنہیں وینٹی لیٹر یعنی مصنوعی لائف سپورٹ مشین پر منتقل کردیا۔ ڈاکٹرز کے بقول اگر کلثوم نواز کو فوری طور پر وینٹی لیٹر پر منتقل نہ کیا جاتا تو اُن کی موت واقع ہوسکتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ کلثوم نواز کے بارے میں اچھی خبر یہ ہے کہ فی الحال کوئی بری خبر نہیں تاہم وینٹی لیٹر سے ہٹائے جانے کی صورت میں کلثوم نواز کی زندگی موت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ واضح ہو کہ وینٹی لیٹر مصنوعی لائف سپورٹ مشین ہے جس سے مریض کو مصنوعی طریقے سے سانس دی جاتی ہے جو مریض کیلئے کسی تکلیف دہ عمل سے کم نہیں ہوتا لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں جب بیگم کلثوم نواز زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، اُن کے مخالفین کا یہ کہنا کہ بیگم کلثوم نواز انتقال کرچکی ہیں اورشریف فیملی سیاسی وجوہات کی بناپر اُن کی موت کو چھپارہی ہے، ایک غیر اخلاقی بات ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی مخالف قوتوں نے اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کیلئے لندن میں مقیم ایک ڈاکٹر کو بھی استعمال کیا جو اپنے پیشہ ورانہ کارڈ کی آڑ میں کلینک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا مگر اُسے کلثوم نواز کے آئی سی یو روم تک پہنچنے میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور سیکورٹی حکام نے اُسے پکڑ کر لندن پولیس کے حوالے کردیا۔ اس طرح مخالف قوتوں کو جب اپنے گھنائونے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو انہوں نے سوشل میڈیا پر لندن میں مقیم پاکستانی نژاد ڈاکٹر فاروق بنگش کے نام سے منسوب یہ خبر وائرل کردی کہ ’’کلثوم نواز اب اِس دنیا میں نہیں رہیں اور شریف فیملی اُن کی موت کو چھپارہی ہے۔‘‘ بعد ازاں ڈاکٹر فاروق بنگش نے میڈیا پر آکر خود سے منسوب خبر کی تردید کی اور کہا کہ اُن کا مذکورہ جھوٹی خبر سے کوئی تعلق نہیں۔
اِن باتوں سے یقیناََ نواز شریف، اُن کی فیملی اور چاہنے والوں کی دل آزاری ہوئی ہوگی اور نواز شریف کو یہ کہنا پڑا کہ ’’آج میں جس کیفیت سے گزرہا ہوں، یہ اللہ اور میں جانتا ہوں۔‘‘ میں نواز شریف کا دکھ اِس لئے بھی محسوس کرسکتا ہوں کہ میں خود کئی سال قبل لندن میں ان تمام مراحل سے اُس وقت گزرچکا ہوں جب میری شریک حیات کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں اور کیموتھراپی کے بعد انہی مرحلوں سے گزررہی تھیں مگر وہ اس موذی مرض سے نبردآزما نہ ہوسکیں۔ کلثوم نواز کا کینسر بھی کیموتھراپی سے کنٹرول نہیں ہورہا اور یہ پھیل کر گردن تک جاپہنچا ہے جو کہ خطرے کی علامت ہے۔ ڈاکٹرز کے بقول کلثوم نواز کی حالت ابھی خطرے سے باہر نہیں، کینسر کی مسلسل کیموتھراپی جگر اور دل پر حملہ آور ہوتی ہے جس کے باعث کلثوم نواز کو دل کا دورہ پڑا اور اُن کی قوت مدافعت کمزور ہونے کی بنا پر اُنہیں وینٹی لیٹر پر ڈالنا پڑا جس سے ہٹانے کا فی الحال کوئی رسک نہیں لیا جاسکتا کیونکہ ایسی صورت میں اُن کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ واضح ہو کہ برطانیہ میں ڈاکٹرز کینسر کے ایسے مریضوں جن کی بیماری آخری اسٹیج پر ہو، کو کونسلنگ کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ اُن کا ذہنی دبائو کم کیا جاسکے کیونکہ ڈاکٹرز کے بقول اس بیماری میں جہاں ایک طرف مریض تکلیفوں اور مصیبتوں سے گزررہا ہوتا ہے، وہاں اُس کا جیون ساتھی بھی شدید ذہنی اذیت میں مبتلا رہتا ہے، اس لئے دونوں کو کونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے مگر نواز شریف ماضی میں نیب عدالت سے اجازت نہ ملنے کے سبب اپنی اہلیہ کلثوم نواز کے ساتھ کچھ وقت گزار کر کونسلنگ نہیں کرسکے جس کا اُنہیں بے حد افسوس ہے اور وہ کئی بار اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں۔
میاں بیوی کا رشتہ بہت قریبی ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی ہونے کے باعث فولاد کی طرح مضبوط تر ہوتا چلاجاتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ میاں بیوی کا یہ رشتہ سب سے زیادہ خوبصورت اُس وقت ہوتا ہے جب کوئی انسان اپنی بیوی کو ایک رشتے سے نہیں بلکہ کئی رشتوں سے پہچانتا ہے۔ میں وہ وقت کبھی نہیں بھول سکتا جب ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف پابند سلاسل تھے اور اُن کے قریبی ساتھیوں نے بھی اُن کا ساتھ چھوڑ دیا تھا مگر یہ کلثوم نواز ہی تھیں جو اپنے شوہر کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر فوجی ڈکٹیٹر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی رہیں لیکن آج وہی کلثوم نواز اپنی بیماری کے باعث انتہائی لاغر ہوچکی ہیں اور زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں تاہم ان کی خواہش ہے کہ زندگی کے آخری وقت میں شوہر اُن کے ساتھ ہوں جن سے وہ اپنے دل کی بات کہہ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کا پورا دن ہارلے اسٹریٹ کلینک میں گزرتا ہے جہاں وہ کلثوم نواز کے سرہانے بیٹھے تسبیح کے ورد کرکے اس معجزے کا انتظار کرتے ہیں کہ کب اُن کی اہلیہ ایک بار آنکھ کھول کر ان کی طرف دیکھیں اور وہ یہ کہہ سکیں کہ ’’اس برُے وقت میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ نواز شریف کو اس بات کا بھی شدید افسوس ہے کہ کاش وہ اُس وقت لندن پہنچتے جب ان کی اہلیہ ہوش و حواس میں تھیں تاکہ ان سے گفتگو کرسکتے۔
ہم کبھی اتنے خود غرض اور بے حس ہوجاتے ہیں کہ دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر بھی لذت اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔اگر ہم خود کو تکلیف میں مبتلا شخص کی جگہ رکھ کر دیکھیں تو ہمیں دوسروں کی تکلیف کا احساس ہوجائے گا۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ یہ برُا وقت کل ہم پر بھی آسکتا ہے تو کیا ہمارے اندر ایسے حالات کا سامنا کرنے کی ہمت اور سکت ہے؟ نواز شریف کا یہ بیان قابل تحسین ہے کہ ’’جب تک میری شریک حیات زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا اور وینٹی لیٹر پر ہیں، میں پاکستان جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔‘‘یہ صرف نواز شریف کے جذبات نہیں بلکہ ہر اُس شوہر کے جذبات و احساسات ہوتے ہیں جو اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے اور اُس کیلئے دنیا کی کسی عدالت کا مقدمہ اپنی شریک حیات کی زندگی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ نواز شریف کے اس فیصلے سے یقیناََ اُن کے مخالفین اور وہ قوتیں جو نواز شریف کو نیب عدالت سے جلد از جلد سزا دلوانے کی منصوبہ بندی کررہی تھیں، کو شدید دھچکا پہنچا ہوگا اور ان کی امیدوں پرپانی پھرگیا ہوگا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ مریضہ جو تین مرتبہ پاکستان کی خاتون اول رہ چکی ہیں، کا یہ بنیادی حق نہیں کہ اُن کے آخری ایام میں اُن کے شوہر اور بیٹی ان کے ساتھ ہوں؟ افسوس کہ ہم انسانیت کے نام پر بھارتی جاسوس کلبھوشن کی بیوی اور ماں کو پاکستان بلاکر ملنے کی اجازت تو دے سکتے ہیں مگر تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے کو شریک حیات کے آخری ایام اُن کے ساتھ گزارنے کی اجازت نہیں۔ نیب عدالتوں میں ملک کے کئی سیاستدانوں کے مقدمات سالوں سے زیر التوا ہیں اور مسلسل تاخیر کا شکار ہورہے ہیں، اگر نواز شریف کے مقدمے میں بھی کچھ تاخیر ہوجاتی ہے تو اِس سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی لیکن اگر کلثوم نواز کے آخری ایام میں اُن کے ساتھ اُن کے شوہر اور بیٹی نہ رہے تو یہ ہمارے لئے ایک بدنما داغ ہوگا جس سے لوگوں کے دلوں میں نفرتیں جنم لیں گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین