• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت میں جو لکھنا چاہ رہا ہوں وہ مجھ سے لکھا نہیں جا رہا اور اگر میں نے کچھ نہ لکھا تو میرا دم گھٹ جائے گا۔ مجھے ابھی اسلا م آباد سے عظیم چودھری نے کچھ ویڈیو کلپس بھیجے ہیں جن میں انڈین فوج مکمل طور پر نہتے لوگوں کو بہیمانہ طور پر گولیوں کا نشانہ بنا رہی ہے اور پندرہ پندرہ ، سولہ سولہ بچوں کو برہنہ کرکے ان پر ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ یہ مناظر کشمیر کے ہیں جہاں انڈیا کی سات لاکھ فوج چپے چپے پر کھڑی ہے۔ مجھے ایک دفعہ شاہد محمود ندیم نے جس کے آبائو اجداد کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں بتایا کہ وہ ایک دفعہ اپنا آبائی گھر دیکھنے کشمیر گیا وہ مختلف مناظر کی تصاویر لینا چاہتاتھا مگر کوئی فریم ایسا نہیں تھا جس میں انڈین فوج نظر نہ آتی ہو، چودھری صاحب نے جو کلپس بھیجے ان میں سے ایک کلپ تو بہت حیران کن تھا، یہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینکڑوں کی تعداد پر مشتمل طالب علموں کا تھا جو انڈیا سے آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے اور ایک ٹی وی اینکر چلا چلا کر کہہ رہی تھی کہ ان بے شرموں کو دیکھو اور ان سے پوچھو کہ وہ پانی انڈیا کا پیتے ہیں یا پاکستان کا، یہ انڈیا کا دیا کھاتے ہیں یا پاکستان کا، مگران طالب علموں کی گھن گرج میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ آزادی۔ انڈیا سے آزادی۔ 

ایک کلپ میں نوجوان کشمیری لڑکیاں شیرنیوں کی طرح مسلح انڈین فوجیوں کے سامنے بے خوف کھڑی تھیں۔ان میں سے ایک لڑکی کشمیری زبان میں انڈیا سے نفرت کا اظہار کررہی تھی، میری پھوپھیاں کشمیری بولتی ہیںاور ابا جی اور امی جی نے ہم سے کوئی بات چھپانا ہوتی تو وہ کشمیر ی میں بات کرتے۔ میں نے اس بچی کو کشمیری میں گرجتے دیکھا تو مجھے یوں لگا میری بیٹی اپنے خون کا حق ادا کر رہی ہے۔ انڈین فوج اب تک ستر ہزار کے قریب کشمیری نوجوانوں کو شہید کر چکی ہے، وہ دو نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلتی ہے تو اس کی جگہ دو اور نوجوان لے لیتے ہیں۔ اسی طرح سینکڑوں خواتین کو یہ ’’نطفۂ بے تحقیق‘‘ اپنی ہوس کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ مگر جنگ آزادی کی جنگ ٹھنڈی ہونے کے بجائے مزید بھڑکنا شروع ہو جاتی ہے۔ اب انڈیا سے بھی کچھ انسانی آوازیں اس غاصبانہ قبضے کے خلاف اٹھنا شروع ہوچکی ہیں، مگر وہ اتنی کمزور ہیں کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند ہیں۔ کچھ آوازیں مغربی ممالک سے بھی سنائی دیتی ہیں مگر یہ بے عمل آوازیں ہیں، مغربی ممالک کی حکومتیں اگر سنجیدگی سے کشمیر ی مسلمانوں کی نسل کشی کی کوششوں کو روکنا چاہیں تو وہ انڈیا کو دہشت گرد ملکوں کی فہرست میں شامل کرکے انڈیا کو سیدھے رستے پر ڈال سکتی ہیں، مگر وہ تو خود مسلم ممالک کو تباہ کرنے میں لگی ہوئی ہیں، ان کی پراکسی وار داعش بھی لڑ رہی ہے اور وہ خود بھی مسلم ممالک کو آگ اور خون کے کھیل میں دھکیلنے میں لگے ہوئے ہیں۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں کیا کردار ادا کرے کہ مظلوموں کی داد رسی ہوسکے اور غاصبوں سے کشمیری قبضہ چھڑایا جا سکے، کشمیر پاکستان کا ہے اور اسے حاصل کرکے ہی دم لینا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں، جس کے نتیجے میں ہم آدھا پاکستان بھی گنوا بیٹھے۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ ہوا وہ کشمیریوں کے مفاد میں نہیں گیا بلکہ الٹا ان کی جنگ آزادی کو نقصان پہنچا۔ چنانچہ جنگ تو کسی صورت بھی اس مسئلے کا حل نہیں۔ میری نظروں میں اس کے صرف دو حل ہیںایک تو پاکستان ہر بین الاقوامی فورم پر کشمیر کا مسئلہ اٹھائے اور اس کے علاوہ ہمارے سفارت خانے سب کاموں پر اولیت کشمیر کے مسئلے کو دیں اور جہاں جہاں ہمارے سفیر متعین ہیں وہ مختلف ملکوں کے سفیروں سے اس حوالے سے مستقلاً رابطے میں رہیں اور ان کو احساس دلائیں کہ دو ایٹمی ممالک کے درمیان مستقل کھچائو سے بہت خوفناک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے اور امن عالم خطرے میں پڑ سکتا ہے۔میں جب ناروے میں پاکستان کا سفیر متعین ہوا تو میں نے ایک کمرے پر مستقل تالا لگا دیکھا۔ میں نے کمرہ کھلوایاتو وہاں کتابوں کا انبار تھا جو ہمارا ایکسٹرنل ونگ سفارت خانوں کو بھیجتا ہے اور اس میں مختلف معاملات پر پاکستان کا نقطہ نظر بیان کیا گیا ہوتا ہے، یہ کتابیں ان ملکوں کے فارن آفس کے اہم افراد اور دوسرےممالک کے سفیروں میں تقسیم کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ میں نے یہ سب کتابیں نکلوائیں، ان پر جمی گرد جھاڑی اور ان کے مختلف بنڈل بنا کر سفیروں کو پیش کیں، جو کتابیں بچ گئیں وہ ویزہ سیکشن میں رکھوا دیں تاکہ ویزہ کے حصول کے لئے آنے والے استفادہ کر سکیں، اسی طرح تھائی لینڈ میں کشمیر پر مذاکرات کرائے جس میں تھائی دانشوروں نے اظہار خیال کیا، ایک بہت بڑے جلوس نے یو این او کےدفتر کے سامنے مظاہرہ بھی کیا۔
معافی چاہتا ہوں میرا مقصد اپنی کارکردگی بیان کرنا نہیں تھا بلکہ یہ بتانا تھا کہ ہمارے کچھ سفیر باہر صرف گولف کھیلنے اور پارٹیاں اٹینڈ کرنے پر اپنا زیادہ وقت صرف نہ کریںبلکہ اپنے ان کولیگز کے نقش قدم پر چلیں جو پاکستان کی نمائندگی کا صحیح حق ادا کرتے ہیں اور آپ یقین کریں ہمارے فارن آفس کے پاس اور ہمارے سفارت خانوں میں پاکستان سے عشق کرنے والے آج بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ان کو آگے لائیں اور کشمیر پر فوکس کریں۔ کشمیر کے مسئلے کا ایک حل تو یہ ہے ،دوسرا حل یہ ہے کہ کشمیری نوجوان ظلم وستم سہنا بند کریں، انڈین فوجیوں کو گولی کے جواب میں پتھر مارنے کی بجائے مسلح جنگ کا آغاز کرنا چاہیے اور اس کے لئے پاکستان سمیت کسی ملک سے مدد نہ لیں، یہ مدد ان کی جدوجہد کے لئے نقصان دہ ہوگی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس صورت میں انڈیا ہی نہیں مغربی ممالک بھی مسئلے کے حل بارے سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
انڈیا مکمل طور پر پاگل ہو چکا ہے اور اب اس کے پاگل پن کا جواب دینا ضروری ہوگیا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین