• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جانے وہ کون سا مقدس شہر تھاجہاں لنگڑی بھیڑ دوبارہ پیدا ہو کر اپنے رقص حیات کا جوبن دکھائے بغیر نہ رہتی، ہم نے پاکستان میں نہ ایسی سلیم الفطرت لنگڑی بھیڑوں کو دیکھا نہ ایسے کسی مقدس شہر کو، ہم انتظار حسین کے ’’زرد کتے‘‘ کے وجود سے بھی خراب و خاسر ہوئے، انہوں نے ہم سب کے اندر ایک ’’زرد کتے‘‘ کا پتہ لگا لیا، ہم انتظار ہی کرتے رہے انہیں کیسے پتہ چل گیا، اگر جان گئے ہیں تب اس ’’زرد کتے‘‘ کے لہو و لعب کی رالوں سے کیسے خود کو نجات دلائیں؟، پاکستان میں بھی زندگی نارمل تھی، مقدس شہر ایک ہی نہیں دھرتی کے ہر ذرے پر فطرت کی تقدیس اور روانی کا حسن فروزاں نظر آتا، پھر 16دسمبر 1971ہوا، پھر 4اپریل 1979، چنانچہ سلیم الفطرت لنگڑی بھیڑیں اور ان کے ساتھ ہی مقدس شہر معدوم ہوتے چلے گئے، ہم نے ان دنوں سے نیک جماعتوں اور نیک لوگوں کو غول در غول تقدیر کے آسماں سے اترتے دیکھا کیا، پاکستان میں زندگی نیکی کی ذمہ داری کا عنوان بنی جس کے رکھوالوں میں یہ نیک جماعتیں اور نیک لوگ کمانداروں کا عہدہ جلیلہ رکھتے تھے اور رکھتے ہیں، 16دسمبر 1971ء اور 4اپریل 1979 سے لے کر ہم نیک ذمہ داروں کے ایسے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں جس کے پانی کو انسانوں کے لہو نے سرخ اور ان غول در غول نیک جماعتوں اور لوگوں کی تعبیروں نے میلا کردیا، گو یہاں گنگا نہیں بہتی پھر بھی میل کی کوئی کمی نہیں!
نجی ٹی وی پر مملکت خداداد پاکستان کے نجیب الطرفین اینکر پرسن اور دانشور مجیب الرحمٰن شامی نے مشتاق یوسفی اور عہد مشاق یوسفی کو ملا کر کسی تہذیب و ثقافت کے گم ہونے کا سراغ لگایا۔ تہذیب و ثقافت کے اس باب کی گمشدگی کو انیق صاحب نے ایک تاریخی جملہ میں سمو کر اردو ادب کے گلستان میں نوحہ و مرثیہ کے پرندوں کو آواز دیدی، وہ شامی صاحب سے کہہ رہے تھے، ’’یوسفی صاحب نے مزاح نگاری کی صنف کو بے حد نقصان پہنچایا، وہ اردو ادب کے مزاح نگار گلوب کے باب الاختتام ہیں، اب کیا کریں‘‘، پروگرام میں خیالات کی قوت ابلاغ کی کرشمہ سازیوں کے بجائے علم و تخلیق کی دنیا سے شریفانہ حس کی رخصتی کا وہ ملال تھا جس کے سماجی صدمے کی جھلکیوں کا پر تو صرف شامی صاحب جیسی تاریخی علامتوںمیں نظر آسکتا ہے، چنانچہ یوسفی صاحب کے لئے ان کی دل گرفتگی ہمارے احساس زیاں کو بے کنار کرگئی!
اور پھر عہد مشتاق یوسفی کے یوسفی صاحب، قیام پاکستان سے پہلے وہ باہوش ہو چکے تھے، قیام پاکستان کے بعد ان کی تخلیقی ہوش مندی سے انسانی سفر میں زندگی کا احترام پورم پور مسکراہٹ کا روپ بھرتا گیا۔
مشاق یوسفی، قدرت کے کائناتی نقشے کے مطابق جہاں بھی پیدا ہوئے، انہوں نے زندگی کے صبح و شام کے رنگوں میں جو بھی برتا، جیسا بھی مشاہدہ کیا، آپ ان کی کتابیں پڑھیں، کھوج لگائیں، یہاں تو ہم سب ان زمانوں کی صدائے بازگشت کا لطف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب مشتاق یوسفی صاحب نے مولانا ابوالحسن علی ندوی، زیڈ اے بخاری، شائستہ اختر، سہروردی، شاہد احمد دہلوی، قرۃ العین حیدر، قدرت اللہ شہاب ، غلام عباس، سیماب قزلباش، ایرمارشل (ر) اصغر خاں، فیض احمد فیض، ضیاء محی الدین کے ساتھ اور ان سب نے ان کے ساتھ وقت گزارا، آپ ان لمحوں کی خوبصورتیوں کو لپک کر بھی نہ چھو سکتے ہیں نہ پکڑ سکتے ہیں، ہم مشتاق یوسفی صاحب سے محبت کرتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے ہم سب حضرت جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، عبداللہ حسین اور انتظار حسین کو اپنے خوابوں کی دنیائوں میں رکھتے ہیں، ہمارے پاس ہماری یہ ہستیاں، ہماری دنیا و آخرت کے لئے متاع گراں، پہ ہیں، پاکستان میں ہماری نسل ان سے مستفید ہوئی، ہمارے وژنز نے ان سے وسعت اور طاقت حاصل کی، ہم کبھی غریب نہ تھے، ہم کبھی غریب نہیں ہوسکتے، شعر، افسانے، نثر، مزاح، طنز، نظم، غزل، ناول، خزانوں کے اتھاہ ذخیروں کے ہم وارث ہیں۔
ہماری صحافتی دنیا کے ایک معتبر حوالے حیدر تقی صاحب نے حضرت یوسفی کا ایک قول ٹویٹ کیا ہے، ملاحظہ فرمایئے، ملاحظہ فرما کر ایسے حبس زدہ ماحول میں، ٹھنڈی ہوا کے ایسے جھونکوں سے معطر ہونے پر، ان کے لئے ایصال ثواب کی بابرکت دعا نہ بھولنا، قول یہ ہے!
’’اندرون لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیںکہ اگر ایک طرف سے عورت آرہی ہو اور دوسری طرف سے مرد تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش بچتی ہے‘‘۔اور اب ’’بہ زبان یوسفی ؒ، اختتامیہ ہماری طرف سے پیش خدمت ہے۔’’یونانیوں کے سبھی دیوی دیوتائوں اور خدائوں میں مسلمانوں کی ساری خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ جو قومیں سائنس سے غفلت برتتی ہیں وہ قعرِ مذلت میں اوندھے منہ جا گرتی ہیں، جب کہ خود میں نے تیسری جماعت سے بی اے تک کبھی سائنس نہیں لی تھی‘‘۔’’وقت کی تنگی کے باعث مکمل فہرست پیش نہیں کرسکتا۔ بقول مرزا عبدالودود بیگ ہر درد اور ہر تکلیف کا ذاتی تجربہ ہے، سوائے زچگی کے اور وہ میری شرعی مجبوری ہے‘‘۔’’الحمدللہ، بھری جوانی میں بھی ہمارا حال اور حلیہ ایسا نہیں رہا کہ کسی خاتون کے ایمان میں خلل واقع ہو، اتنا ضرور ہے کہ شادی ہم نے اپنی بیوی کی پسند کی کی مگر اس زمانے میں ان کی نظر ’’6‘‘ تھی اور وہ ضد میں عینک نہیں لگاتی تھیں، اس واقعہ یعنی نکاح کے فوراً بعد وہ عینک لگانے لگیں‘‘۔
’’وہ دن ہے اور آج کا دن، ہم نے اپنے آپ سے صلح کرلی اور جا کے نہ آنے والی چیز کا غم کرنا چھوڑ دیا، ایک چینی کہاوت ہے کہ زندگی میں اداسیاں تمہارے سر پر منڈلاتی رہیں گی، ان کو اپنے بالوں میں گھونسلا نہ بنانے دو‘‘۔ قرۃ نے کسی جگہ حوالہ دے کر لکھا تھا ’’ہم لوگ مگن ہیں اور جو زندگی کی مسافتیں طے کر کے آخری پھاٹکوں تک پہنچ رہے ہیں ان کو ہم سمجھ نہیں سکتے اور یہ لاعلمی ہی بہتر ہے!‘‘
جب انتظارحسین، عبداللہ حسین، ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور مشتاق یوسفی رخصت ہوتے ہیں قانون قدرت کی حقانیت کے باوجود اس لاعلمی کی قدر کا احساس ناقابل حد تک بڑھ جاتا ہے۔ کائنات میں کچھ لمحہ منجمد نہیں ہوتاہاں! لمحوں میں زندگی کی تلاش اصل سفر ہے ان لوگوں نے اس سفر کے ادراک کا شعور فروزاں رکھا۔
کالم کی دم: اثاثے
قومی انتخابات کے تناظر میں اثاثوں کا منظرنامہ پورے عروج پر ہے، اربوں کیش، جائیدادوں کے انبار، سونے کے نرخوں برابر خریدی گئی گاڑیاں، دولت کی چکاچوند نے مملکت خداداد پاکستان کی آنکھیں چندھیا دی ہیں، یہ سب اس انتہا پر نہ ہوتا اگر 7اکتوبر 1958ء کی شب افواج پاکستان کا پہلا کمانڈر انچیف اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہ کرتا۔
باقی تاریخ ہے جس کے ایک سرے پر ووٹ کے قاطع سردار جمال لغاری اور دوسرے سرے پر مولوی صاحبان کھڑے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین