• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھی جائے تو دیوار کتنی ہی بلند کیوں نہ اٹھا دی جائے، رہے گی ٹیڑھی۔ اس کجی سے بچنے کا ایک ہی طریقہ سمجھ میں آتا ہے کہ نئی بنیاد رکھی جائے، نئی دیوار اٹھائی جائے۔
پاکستان میں پہلے انتخابات 1951ء میں صوبہ پنجاب میں منعقد ہوئے اور ہماری سیاسی لغت میں ایک نئی اصطلاح جُھرلُو کا اضافہ کر گئے۔ سادہ لفظوں میں، نوزائیدہ مملکت کی مقتدر قوتوں نے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ان انتخابات میں بدترین دھاندلی کا ارتکاب کیا اور اس وقت پنجاب کی مقبول ترین سیاسی جماعت ’’جناح عوامی مسلم لیگ‘‘ کو الیکشن ہرا دیا گیا، یعنی اکثریت کا حقِ حکمرانی تسلیم نہ کیا گیا۔ یہ تھا ہمارا پہلا انتخاب، یہ تھا ہمارے سفر کا آغاز۔ اسی طرح اکثر معاملات میں خشت ِاول ٹیڑھی رکھی گئی اور نتیجہ یہ ہے کہ ’’تا ثریا می رود دیوار کج‘‘ کی تفسیریں آج ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔
1951 کے بعد ملک میں جتنے انتخابات منعقد کروائے گئے انہیں کم یا زیادہ دھاندلی کے الزامات کا سامنا رہا۔ یاد رہے کہ ہماری انتخابی تاریخ کے نسبتاً صاف انتخابات انتخابی نظام کی شفافیت کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ مقتدر حلقوں کے اس یقین کا پرتو تھے کہ مطلوبہ نتائج ’ہلکی پھلکی موسیقی‘ سے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ تقریباً تریسٹھ برس کی صحرا نوردی کے بعد سیاسی قوتیں اس نتیجے پر پہنچیں کہ انتخابی نظام کی پہلی اینٹ دوبارہ رکھنی پڑے گی اور سیدھی رکھنے پڑے گی کہ اسی میں تمام سیاسی قوتوں کا بھلا ہے، لہٰذا 2010میں آئین میں اٹھارویں ترمیم کی گئی جسے پاکستان میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ممکنہ قصر کی پہلی، نئی اور سیدھی اینٹ قرار دیا گیا۔
آج اس بنیاد پر دیوار اٹھانے کا مرحلہ درپیش ہے۔ ہم جیسے سادہ دلوں کا خیال تھا کہ اب کسی اور ’’دریا کا سامنا‘‘ نہیں کرنا پڑے گا، دو ہاتھ ماریں گے اور اُس پار۔ (حضرتِ غالب کا’ ’ہزاروں خواہشیں‘‘ والا شعر بھی یاد آ رہا ہے) بات یہ ہے کہ ہر مزار کے کچھ مجاور ہوتے ہیں، دربار کے چڑھاوے ان کے درمیان بٹتے ہیں، نذر نیاز پر ان کا حق ہوتا ہے، ایسے میں اگر کوئی انہیں بے دخل کرنے آ جائے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ دربار کے مجاور کسی سادہ اور پُروقار تقریب کا اہتمام کریں گے جس میں غلہّ کی کنجیاں نئے متولی کو Hand Overکر دی جائیں گی؟ ایسا نہیں ہوتا، ہر نظام کے مجاور جان دے دیتے ہیں، اپنا غلہّ نہیں دیتے۔
ملک میں عام انتخابات کا ڈول ڈالا جا چکا ہے، بر وقت انتخابات کے بارے تشویش بھی کافی ماند پڑ چکی ہے، کے پی کے سے طلوع ہونے والی چٹھی اور بلوچستان سے ظہور میں آنے والی قرارداد بھی داخل دفتر ہو چکی ہے، حلقہ بندیوں اور انتخابی امیدواروں کے فارم والے قضیے بھی نمٹ گئے۔ اہل وطن کو یقین ہو چلا ہے کہ انتخابات پچیس جولائی کو ہی ہوں گے۔ اب فقط ایک سوال باقی ہے، کیا انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے؟ الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں کئی مثبت اقدامات اٹھائے ہیں، ترقیاتی کاموں اور نئی بھرتیوں پر پابندی عائد کی گئی، بیورو کریسی کو تبدیل کیا گیا، آج سے بیلٹ پیپر چھاپنے والے پرنٹنگ پریسوں کی سیکورٹی بھی فوج کے حوالہ کر دی جائے گی، شفاف اور پر امن انتخابات کے لئے ساڑھے تین لاکھ فوجیوں کی خدمات بھی حاصل کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم تو شفاف انتخابات کے لئے بظاہر بڑے اچھے اقدامات اٹھا رہے ہیں مگر یہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کیا کہہ رہے ہیں اور کیوں کہہ رہے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز سے اکانومسٹ تک، دنیا کے بڑے بڑے اخبار و جرائد یہ الزام لگا رہے ہیں کہ پاکستان میں بدترین پری پول رگنگ کی جا رہی ہے، میڈیا میں حبس اور مسلم لیگ نون کی مبینہ توڑ پھوڑ سے یکطرفہ عدالتی کیسز تک درجنوں مثالیں دی جا رہی ہیں۔ کیا یہ باتیں درست ہیں؟ یا یہ پاکستان کے انتخابی عمل کو گدلانے کی کوئی بین الاقوامی سازش ہے؟ ملک کے سرد و گرم چشیدہ سیاستدان چوہدری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے ایک انٹرنیشنل سازش ہو رہی ہے، چند عالمی قوتیں پچیس جولائی کے انتخابات میں دھاندلی کروا کے الزام ریاستی اداروں پہ دھرنا چاہتی ہیں۔ چوہدری صاحب نے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں قوم کو اعتماد میں لیں، کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بھی کچھ دن قبل لگ بھگ یہی بات کی تھی۔ یہ انتہائی تشویشناک صورتِ حال ہے۔ ایک طرف تو پوری قوم ذوق و شوق سے انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف انٹرنیشنل پریس پہلے ہی آئندہ انتخابات پر سوالیہ نشان لگا چکا ہے۔
نواز شریف کے ناقدین اس بین الاقوامی سازش کی تشریح کچھ یوں کرتے ہیں کہ اس وقت مقامی اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ خطہ کے تزویراتی معاملات پر ہم خیال نہیں جبکہ موخر الذکر اور نواز شریف اس ضمن میں ایک نقطہ نظر رکھتے ہیں، اور انتخابات کو متنازع بنانے سے وہ ریاستی ادارے بھی متنازع اور کمزور ہو جائیں گے جن کی نگرانی میں انتخابات ہو رہے ہیں، اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ دھاندلی زدہ انتخابات کسی بھی قوم کو انتشار کے گڑھے میں گرانے کا آزمودہ نسخہ ہوا کرتے ہیں جس سے دشمن کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ کیا یہ کانسپریسی تھیوری درست ہے؟ ہم آج تک اکثر قومی سانحوں کی لگ بھگ ایسی ہی تشریحات کرتے رہے ہیں، ہماری کوئی غلطی نہیں ہوتی، ساری شرارت باہر والے کر جاتے ہیں۔
اس معاملے سے نمٹنے کا ایک آسان طریقہ تو یہ ہے کہ ہم ان الزامات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں جو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اٹھا رہے ہیں۔ کچھ تیر تو کمان سے نکل چکے ہیں، باقی فی الحال ترکش میں رکھ لئے جائیں۔ محتسب کی خیر ہو اس نے ستر برس صبر کیا ہے، بس ایک ماہ اور کر لے۔ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں شرپسند عناصر نے مسلم لیگ نون کے کارکنان اغوا کئے اور الزام ریاستی اداروں پہ دھرنے کی کوشش کی، ایسی کوئی حرکت شفاف انتخاب کے چہرے پہ تارکول ملنے کے مترادف ہو گی، اس حوالے سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ عالمی جریدے کچھ واٹس ایپ کالز کا بھی ذکر کرتے ہیں، ریاستی اداروں کو ان شرارتی عناصر پہ بھی نظر رکھنا ہو گی جو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر ہم یہ حفاظتی تدابیر کر لیں تو کوئی بین الاقوامی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی، کوئی ہمارے انتخابات کو متنازع نہیں بنا سکتا، اور اگر خدانخواستہ ہم یہ حفاظتی بند نہ باندھ سکے تو ’’دُشمن‘‘ اپنا کام دکھا جائے گا، ’’بین الاقوامی سازش‘‘ کامیاب ہو جائے گی، ایک اور ملکی انتخابات مذاق بن جائیں گے، یعنی ہم مذاق بن جائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین