• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزری عید کا دوسر ادن، دوست کے گھر کا ڈرائنگ روم، دیوار پر لگی قرآنی پینٹنگ پر نظر پڑنا، پینٹنگ سے آیت کا ترجمہ پڑھنا، بھولے بسرے قصوں کا یا د آجانا اور یاد بھی یوں آنا کہ دو ہفتے گزر جانا مگرقصوں کا ذہن میں اٹکے رہنا لیکن یہ تو ہونا ہی تھا، کیوں، آپ کو آیت، ترجمے اور اس سے جڑے قصے پڑھ کر معلوم ہو جائے گا، لہذا یہ سب پیشِ خدمت، مگر اس ترتیب کے ساتھ کہ قر آنی آیت اور ترجمہ بعد میں، قصے پہلے !
زیورخ کی خنک شام، درختوں میں گھری جھیل، جھیل کنارے کا فی شاپ، کافی شاپ میں بجتا عربی میوزک، اشاروں کی زبان سمجھتے مستعد ویٹرز، سرگوشیوں میں باتیں کرتے لوگ، وقفے وقفے سے بلند ہوتے قہقہے، متواتر چلتی ہوا اور میرے سامنے بیٹھا مسلم دنیا کا وہ بزنس ٹائیکون جسکی ائیر لائن، 40ممالک میں کاروبار، درجن بھر کے قریب سربراہان مملکت سے دوستی، بیسیوں ملکوں میں گھر اوردفاتر، صبح یورپ، شام ایشیا اور دنیا کی ہر نعمت پر دسترس، مگر اس سے باتیں کرتے ہوئے یہ دیکھ کر میں حیران کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود شکن آلود لباس، سرخ آنکھیں، تھکا چہرہ اور ہر بات، حرکت میں بے چینی، ایسا کیوں، میں مسلسل سوچے جارہے تھا، آ خر مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے جھجکتے جھجکتے پوچھ ہی لیا ’’ اتنی کامیابیاں اوراتنا کچھ،مگر پھر بھی یہ تھکاوٹ، اکتاہٹ، بے زاری، بے چینی۔۔ کیوں ‘‘ اس نے ہاتھ میں پکڑاکافی کا مگ میز پر رکھا، کرسی سے ٹیک لگائی، لمحہ بھر کیلئے جھیل کے کنارے بیٹھے سیاحوں کو دیکھا اور پھر تھکی تھکی آواز میں بولا’’ برادر کچھ مِسنگ ہے، لیکن کیا...یہ نہیں معلوم، یا تو اصل زندگی ان چیزوں میں نہیں جو میرے پاس،یا میں زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز بھاگا کہ خوشیاں پیچھے رہ گئیں، یاپھر میرے نصیب میں سکون ہے ہی نہیں ‘‘جیسے ہی بات مکمل کر کے وہ کافی کا مگ اُٹھا کر خالی خالی نظروں سے جھیل میں چلتی کشتیوں کو دیکھنے لگا تو میں نے کہا’’ جو کچھ ہے اس کا شکر ادا کریں، صدقہ، خیرات اور سفید پوش ضرورت مندوں کو تلاش کر کے انکی مدد کریں، سکون مل جائیگا‘‘ وہ زیر لب مسکرا کر بولا’’ یہ تو میں روز کر رہا اور پتا نہیں کب سے کر رہا ‘‘ پھر وہ آگے جھکا اور اگلا ایک گھنٹہ یہ بتاتا رہا کہ دنیا بھر میں وہ کارخیر کے کن کن منصوبوں پر کام کر رہا۔
جاتی گرمیوں کی سہ پہر، نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور، مجھے بٹھا کر نیٹ پریکٹس کیلئے گیا پاکستان کا وہ کرکٹر جو دولت، شہرت، عزت کے عروج پر، جس سے بات کرنا، ہاتھ ملانا،تصویر کھینچوانا اعزاز سے کم نہیں، جو دونسلوں کا آئیڈیل، جو بھارتی فلمی ہیروز کا بھی ہیرو اور جسکے دنیا بھر میں چاہنے والے، دوگھنٹے کی بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ پریکٹس کے بعد وہ پسینے سے شرابور آیا، بنا کچھ کہے سر جھکا کر میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا، جب کافی دیر تک کچھ نہ بولا تو میں نے کہا’’ بھائی جان خیریت، آج اندر سے آؤٹ آف فارم لگ رہے‘‘، مجھ پر ایک نظر ڈال کر مری مری آواز میں ’’ نہیں تو ‘‘ کہہ کر اس نے پھر سے سرجھکا لیا، میں نے مزید کریدا’’ آج صاف لگ رہا کہ اندر کا موسم سوگوار، کوئی پریشانی ہے ضرور ‘‘اس نے سر اُٹھایا، گود میں رکھے تولیے سے چہرے کا پسینہ صاف کیا، کرسی سے ٹیک لگائی اور انتہائی بے زار لہجے میں بولا ’’ یار تھک گیا ہوں، تنگ پڑگیا ہوں، کبھی فٹنس کا مسئلہ، کبھی سلیکشن کامعا ملہ اور کبھی پرفارمنس کا چکر، ہر روز نیا مقابلہ، نئی دوڑ، نئی بک بک، جھک جھک، یہ بھی کوئی زندگی ہے، سکون نہ اطمینان ‘‘ میں نے کہا’’ حضور جو کچھ آپ کے پاس یا جیسی زندگی آپ گذار رہے، لاکھوں، کروڑوں لوگ ایسی زندگی کے روز خواب دیکھتے ہیں اور کیا چاہیے ‘‘ کہنے لگا’’ دور کے ڈھول سہانے، لوگوں کو صرف یہ زندگی اور یہ لش پش نظر آتی ہے، لیکن جو قیمت میں ادا کر رہا ہوں، اس پر کوئی دھیان نہیں دیتا، دیکھا جائے تو میرے پاس سب کچھ، لیکن سوچا جائے تو میرے پاس کچھ نہیں، خدا کی قسم دوگھڑی اطمینان اور دوپل سکون کیلئے ترس گیا ہوں، پھر بتانے لگا کہ کیسے رات کو سوتے وہ اکثر اُٹھ جاتا ہے اور پھر کیسے پوری رات آنکھوں میں کٹتی ہے۔
جہاز کا اسلام آباد سے دبئی کیلئے اڑان بھرنا اور ساتھ والی سیٹ پر اس گلوکار کا ہونا جس کی مقبولیت کا عالم یہ کہ اُس روز ائیر پورٹ پر بھی ہاتھ ملانے، تصویریں کھینچوانے والوں سے سیکورٹی اہلکاروں نے چھڑوا کر اسے بڑی مشکل سے جہاز میں سوار کرایااور اب جہاز کے اندر ائیر لائن عملہ مسلسل یہ درخواستیں کر تا ہوا کہ سب اپنی سیٹوں پر بیٹھیں، راستہ بلاک نہ کریں مگر لوگ تھے کہ مسلسل آرہے، جب رش قدرے کم ہوا تو میں نے کہا’’ ماشاء اللہ لوگ آپ سے بہت پیار کرتے ہیں، د ل سے چاہتے ہیں ‘‘ لیکن اس تعریفی جملے کے جواب میں جب وہ صرف ’’جی ‘‘ کہہ کر اپنے موبائل میسجز پڑھنے لگ گیا تو میں نے قدرے حیرانی سے کہا’’ آپ کو یہ سب اچھا نہیں لگتا ‘‘ بولا’’ بالکل بھی نہیں ‘‘میں نے پریشان ہو کر کہا ’’کیوں ‘‘ جواب آیا’’ اس لئے کہ سب لوگ گلوکار کو ملنے آتے ہیں، کوئی مجھے ملنے نہیں آتا، میں تنگ آگیا ہوں اس گلوکار سے، اس نے میرا سکون تباہ کر دیا ہے، جیتے جی مار دیا ہے اور میری زندگی میں ایک لمحے کا سکون بھی نہیں رہا ‘‘ یہ کہہ کر اس نے موبائل گود میں رکھا،سیٹ بیلٹ باندھی اور منہ کھڑکی کی طرف کر کے آنکھیں بند کر لیں۔
آتی سردیوں کی ابر آلود دوپہر، اسلام آباد کا فائیوا سٹار ہوٹل، اپنے وقتوں کی نامور فلمی ہیروئن سے کھانے کے دوران میں نے کہا ’’ پچھلے دنوں جب یہ پڑھا کہ آپ نے ڈپریشن میں خود کشی کی کوشش کی تو اس من گھڑت خبر پر بہت ہنسی آئی ‘‘، سرجھکا کر چھری کانٹے سے فش اینڈ چپس کھاتی ہیروئن نے اطمینان بھرے لہجے میں یہ کہہ کر کہ ’’ یہ خبر درست اور میں نے خود کشی کی کوشش کی ‘‘ میرے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکال دی، میں نے کھانا چھوڑ کر پوچھا’’ کیسے، مطلب کیوں ‘‘ جواب آیا’’ میں بھی انسان ہوں، میں ڈپریس بھی ہو سکتی اور غلط فیصلہ بھی کر سکتی، لیکن یہ لمبی کہانی، لمبار ونا دھونا، اتنا ہی کہوں گی کہ جب زندگی میں سکون نہ ہو تو گلیمر، شہرت اور دولت بھی کسی کام کے نہیں ہوتے، یہ کہہ کر وہ دوبارہ فش اینڈ چپس کھانے لگی اور میں کن انکھیوں سے اسے دیکھتے ہوئے یہ اندازے لگانے لگا کہ اسے کس چیز کی کمی،کیا پریشانی کہ نوبت خود کشی تک آگئی۔ اب آپ یہ سب ذہن میں رکھتے ہوئے آجائیں دوست کے ڈرائنگ روم کی قرآنی آیت اور ترجمے پر، یہ تیرہویں پارے کی سورہ رعد کی اٹھائیسویں آیت ’’الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب‘‘فرمان الہٰی ’’خبردار اللہ کی یاد ہی وہ چیز جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ‘‘، دوستو! گزشتہ دو دہائیوں میں مجھے یورپ، امریکہ، برطانیہ اور پاکستان کے اپنے اپنے شعبوں میں شہرت، دولت اور عزت کے عروج پر پہنچے دواڑھائی سو افراد سے ملنے، بات کرنے اور ساتھ وقت گزارنے کا اتفاق ہوا، یقین جانیے 10منٹ کی گفتگو کے بعد کامیابیوں کا ہرنا نگاپر بت اندر سے محرومیوں، دکھوں اور غموں کا ماؤنٹ ایورسٹ نکلا اور مجھے اللہ کی رضا پر راضی اور’’ جگ رُسے تے رُسے، رب نہ رُسے ‘‘کے پل صراط پر زندگیاں گزارتے چند ایسے فقیروں سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا، جو دنیا کیلئے کوڈو مگر اصل میں اطمینان، سکون اور خوشیوں کے عالم چنے، یقین جانیے میری زندگی کا نچوڑیہ کہ حقیقی سکون، اطمینان اور کامیابی کی چابی اللہ کی یاد میں، اللہ کی رضا میں اور اللہ سے لگاؤ میں اور جب کوئی اللہ کو مان کر اللہ کی ماننے لگتا ہے آخرت تو سنور ہی جاتی ہے، پروردگار دنیا کی ہر خوشی اور ہر کامیابی بھی لا کر قدموں میں ڈھیر کر دیتا ہے اور وہ بھی اطمینان، سکون کے ساتھ، اگر یقین نہیں آرہا تو آزما کر دیکھ لیں۔

تازہ ترین