• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت دنوں بعد میرے ساتھ میری پوری بہتر یعنی شریک حیات بھی ووٹ دینے چلیں تو پولنگ کے راستے میں پوچھا ’’ رکن کانگریس جوزف کرائولی کا انتخابی نشان کیا ہے؟‘‘ پھر ہم دونوں کو یاد آیا کہ ہم پاکستان میں انتخابی پولنگ پر نہیں امریکی پولنگ پر ہیں یہاں پولنگ اسٹیشن کے اندر یا پولنگ اسٹیشن کے باہر دور دور تک نہیں لگتا کہ نیویارک میں ڈیموکریٹک پرائمریز انتخابات ہو رہے ہیں۔ انتخابات کا نہ ہلا گلا تھا، نہ دھوم دھڑکا، نہ بینر نہ نعرہ۔ پولنگ میرے محلے کے ایلیمنٹری اسکول جہاں میرے بیٹے نے چوتھی اور پانچویں جماعت پڑھی ہے میں ہورہی تھی۔ پولنگ کے اندر بس کونے میں ایک پولیس والا ہر آتے جاتے ووٹر کی حرکات و سکنات کا سرسری کن اکھیوں سے یا کئی میرے جیسوں کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ پولنگ کے اندر کسی بھی پارٹی کا کوئی پولنگ ایجنٹ نہیں تھا۔ بس سٹی یعنی بلدیہ کے دفتر برائے انتخابات یا الیکشنز آفس کا عملہ جو عمر رسیدہ لوگوں یا پکی عمر کے مرد و خواتین رضاکارانہ یا عارضی و مستقل ملازموں پر مشتمل آپ کی مدد کو تیار تھا۔ آپ کے تصویری شناختی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس پر ووٹر فہرستوں سے نام ڈھونڈ کر آپ کو بیلٹ پیپر تھما کر اس تخلیے والی ڈیسک کی طرف رجوع کر رہے تھے جہاں بندہ نہ بندے کی ذات۔ بیلٹ پیپر پر نہ کوئی تیر تلوار بلا بلی نہ شیر چیتا، موٹر کار ہاتھی، نہ پھول نہ کتاب بس امیدواروں کے نام وہدایات لکھے تھے۔ انگریزی و ہسپانوی میں تو تھے ہی پر بنگالی، اور ہندی میں بھی عبارت تھے۔ جبکہ فقط اردو اور ہندی سمجھنے والوں کیلئے مترجم بھی مقرر تھے۔ ’’ہم آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں‘‘ ایک جنوبی ہند یا گجراتی شخص نے خود سے جبر کرنے والی اردو بولنے کی مشق میں پوچھا۔ میں نے سوچا اردو اور سندھی میں بھی ہونے چاہئیں۔ خیر زبانوں کا نہ یہاں تعصب ہے نہ مسئلہ اتنا بڑا کہ کسی کی زندگی جائے یا اعضا یا نوکری۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں مدد طلب کرنے کو کوئی بھی زبان بولنے والا اگر ایک فرد بھی ہو تو کوشش کی جاتی ہے کہ اسی کی زبان میں مترجم مہیا کیا جائے۔ پھر انسانی کہ سوفٹ ویئر والا۔
پرچی پر کوئی برچھی نہیں چلتی۔ پرچی پر اپنی پسند کے امیدوار کے نام کے سامنے بنے بیضوی خال کو بال پوائنٹ سے پر کرو اور پھر براہ راست اپنا بیلٹ پیپر لیے مشین پر جائو اور ووٹ کمپیوٹرائزڈ مشین میں ڈالو جسطرح فیکس کیا جاتا ہے۔ یہ ہے ڈیجیٹل ڈیموکریسی جو تین سو سال سے مختلف طریقہ ہائے انتخابات طے کرتی یہاں تک پہنچی ہے۔
ہم اپنے گھر میں تین ووٹر ہیں۔ میں پکا ڈیموکریٹ لیکن آخری وقت تک سوچنے والا۔ نہ جانے کس طرف پانسہ پلٹ جائے۔ باقی ہمارے گھر میں دو ووٹر تو وہ کبھی مجھ سے متفق اور کبھی نہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی والوں کی طرح یہاں بھی ڈیموکریٹس کا کوئی متبادل نہیں۔ سب کرونی کیپٹل ازم یا سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کرتے ہیں۔ دونوں پارٹیاں پھر وہ ری پبلکن ہوں کہ ڈیمو کریٹس بقول امریکہ کے ضمیر نوم چومسکی کے کہ عراق و شام پر بم برسانے پر دونوں پارٹیاں اتفاق رکھتی ہیں۔ لیکن ڈیموکریٹس اور ری پبلکنزمیں واقعی وہ فرق ہے جو آج سے دس بارہ سال قبل پاکستان میں پی پی پی اور مسلم لیگ میں ہوا کرتا تھا۔ اب تو پی پی پی فنکشنل لیگ سے بھی زیادہ ’’فنکشنل بنی‘‘ ہوئی ہے۔ کسی من چلے نے سوشل میٖڈیا پر لکھا کہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرنے والا زرداری اب فوجی فرٹیلائزر کی کھاد کی خالی بوری کو بھی سیلوٹ کرتا نظر آتا ہے۔
تو خیر۔ منگل کا دن نیویارک میں کانگریس کے ڈیموکریٹس پرائمریز کے انتخاب کی پولنگ کا دن تھا۔ پرائمریز وہ ابتدائی انتخابات ہیں جن میں دونوں پارٹیوں کے ووٹر امیدواروں کو اگلے انتخابات کیلئے بذریعہ ووٹ چنا کرتے ہیں۔ پھر وہ میونسپل کا خزانچی ہو کہ امریکی عہدہ صدارت کیلئے امیدوار انکو پارٹیاں ٹکٹ نہیں جاری کرتیں بلکہ ووٹر چنتے ہیں۔ یہی ووٹ کا کرشمہ تھا کہ ریپبلکن پارٹی کی طرف سےامریکہ کے منصب صدارت کیلئے ووٹروں نے پرائمریز میں ڈونلڈ ٹرمپ کو چنا تھا جسے اب امریکہ سمیت پوری دنیا بھگت رہی ہے۔ عزیز ہموطنواگر آپ کے پاس عمران خان ہے تو ہمارے پاس بھی ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ جسے اب سب سے زیادہ لاطینی امریکہ کے تارکین وطن معصوم بچے اور انکے والدین بھگت رہے ہیں۔ بچے انکے والدین کو واپس کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ والدین رضاکارانہ طورپرامریکہ چھوڑ کر چلے جائیں ٹرمپ کا نیا فرمان ہے۔ امریکی براعظم میں رہنے والے لاطینی امریکی لوگ امریکہ کی سرزمین پر پہنچنے میں کتنی جان جوکھم میں ڈالتے ہیں یا تو وہ جانتے ہیں یا پھر دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے جبر سے بھاگے ہوئے یہودی یا پھر ہمارے ہموطن ہزارہ برادری کے لوگ کہ ’’آزاد ہوا کیا ہوتی ہے‘‘۔ امریکہ جو دنیا بھر سے مہاجروں کا ایک مثالی ملک تھا۔ جہاں کل تک میکسیکو بارڈر کے ساتھ والی امریکی ریاستوں اور شہروں کی موٹر ویز اور ہائی ویز پر بھاگتی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کیلئے بورڈ لگے ہوتے تھے اور اب بھی لگے ہیں ’’خبردار، رفتار آہستہ کہ آگے سے ہو سکتا سرحد پار کرتے تارکین وطن شاہراہ عبور کر رہے ہوں۔‘‘ ایسے بورڈوں پر گٹھڑیاں لادے تارکین وطن کے خاکوں کے ساتھ انکے ہمراہ قطار میں بچوں کی شکلیں بھی بنی ہوئی ہوتی ہیں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ ہم نے پولنگ میں ووٹ ڈالے شام کو اسکے نتائج کی خبر سی این این پر سنی۔ انہی لاطینی امریکی تارکین وطن کی بچی جو محض اٹھائیس برس کی ہے نے کل کے پرائمریز میں گھاگ رکن کانگریس جوزف کرائولی (جس کا اسکے دونوں اضلاع یا بوروز میں واقعی بہت قابل ستائش کام بھی تھا) کو شکست دیکر تاریخی طور ایک چونکا دینے والی خبر بنائی۔ نیویارک کی تاریخ میں پہلی بار، گزشتہ دس برسوں میں نو بار چنے جانے والے وال اسٹریٹ کے مخصوص گروپوں کی مدد اور رابطے رکھنے والے رکن کانگریس کو ایک مزدور پیشہ اور سوشلسٹ خیالات کی حامل الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز ہرا کر کر آئی ہے۔ سب کو ششدر کردیا ہے اس لڑکی نے۔ سی این این نے بھی اس لڑکی کی جیت کو ’’اسٹننگ‘‘ کہا۔ ایک تارکین وطن لاطینی خاندان کی لڑکی جس نے اپنی تعلیم جاری رکھنے کو بار ٹینڈری کی یا اور بھی اردو رومانوی شاعرانہ بیانیہ کہ شراب خانے میں ساقی گری کے فرائض بھی سرانجام دئیے۔ پچھلے انتخابات میں اگربرنی سینڈر جیسا بڑا چراغ ماند ہوگیا تو ننھے چراغوں کے لو کی لگن پھر سے روشن ہونے لگی ہے۔ ٹرمپ کے امریکہ میں اب آندھی نہیں چل رہی۔ تاریخ کروٹ لینے لگی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین