• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں انتخابات کا سفر بھی لوکل روٹ پر چلنے والی بس جیسا ہوتا ہے ،انتخابی شیڈول کا اعلان ہوتے ہی پیشہ ور منجن فروش آجاتے ہیں اور پھر چند روز ایسی دھماچوکڑی مچاتے ہیں کہ کان پڑی آواز سننا دشوار ہو جاتا ہے۔اگرچہ ابھی ٹکٹوں کی تقسیم پر ہونے والے جھگڑوں کے باعث بھیڑ کچھ کم ہے مگر کئی نیم حکیم اوربزعم خود ڈینٹل سرجن اپنی سحر انگیز اور لچھے دار گفتگو سے لوگوں کو اپنی طرف مائل اور خریداری پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان پھیری والوں میں سے ہر ایک کی دل لُبھانے والی تقریروں کا خلاصہ یہ ہے کہ جادوئی خصوصیات اور حیرت انگیز اثرات کی حامل جو ڈبی وہ سستے داموں بیچنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں وہ ان کے زندگی بھر کے تجربے کا نچوڑ ہے اور اگر اسے حاصل کرنے کا موقع آپ نے گنوا دیا تو زندگی بھر پچھتانا پڑے گا۔آپ ان کے ہاتھ میں رنگ برنگی چوسنیاں ،انواع و اقسام کے منجن ،نت نئے چورن اور بیک وقت کئی امراض کا شافی علاج کرنے والی گولیاں دیکھ رہے ہونگے۔ان میں سے کئی منجن فروش تو بالکل نئے ہوتے ہیں جو محض اس بنیاد پر اپنا سُرمہ بیچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہیں موقع ضرور ملنا چاہئے لیکن جو پرانے منجن فروش ہوتے ہیں اور سالہا سال سے اس روٹ پر مسافروں کی خدمت میں پیش ہو رہے ہوتے ہیں، انہیں یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی اور یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ اگر کبھی کسی مسافر نے ان کی پروڈکٹ خریدی ہو اور کسی قسم کی کوئی شکایت ہو تو آواز دیکر پیسے واپس لئے جا سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پرانے منجن فروش کی بات سابقہ مصنوعات مقبول ہونے پر سنی جاتی ہے یا پھر اسے کوئی نئےآئٹم پیش کرنا پڑتےہیں ۔پیپلز پارٹی نے 40سال قبل ’’روٹی کپڑا اور مکان ‘‘ کے نام سے جو شربت فولاد پیش کیا اب اس میں ملاوٹ اور جعلسازی کے باعث لوگ تنگ آچکے ہیں اور حالات اس نہج پہ آگئے ہیں کہ ان کا مارکیٹنگ اسٹاف بھی پرانی تنخواہوں پر کام کرنے کے بجائے مارکیٹ میں متعارف ہونے والے نئے نویلے منجن بیچتا پھرتا ہے۔رضوی مارکہ کیپسول نئے ہیں اس لئے منی بیک گارنٹی کیساتھ بیچے جا رہے ہیں ۔حافظ سعید لیبارٹریز کی اینٹی بائیوٹک بیشک رجسٹر ڈ نہیں ہو سکی مگر انہوں نے اگلے سیزن کا انتظار کرنے کے بجائے اسے ایک اور کمپنی کے ذریعے متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔متحدہ مجلس عمل بھی اسلامی جڑی بوٹیوں سے تیار کیا گیا ’’سفوفِ اسلامی انقلاب‘‘پیش کر رہی ہے جو 2002ء کی نسبت اب ایک نئی پیکنگ میں ہے۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اس بار اصل مقابلہ رائے ونڈ مارکہ شیر کے نشان والی پھکی اور بنی گالہ برانڈ بلے کے نشان والے چورن کے درمیان ہے۔مسلم لیگ (ن) کا منشور اور ایجنڈا بہت واضح ہے ،گزشتہ انتخابات میں کئے گئے وعدوں میں سے بیشتر پورے ہوئے ،لوڈ شیڈنگ تقریباً ختم ہو گئی ،سی پیک کے ذریعے معاشی سرگرمیوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ،شہبازشریف اپنی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹیں گے ،کراچی ،پشاور اور کوئٹہ جا کر ان شہروں کو لاہور بنانے کا وعدہ کریں گے اور بنیادی نکتہ یہ ہو گا کہ جو کمی رہ گئی ہے وہ آئندہ دورِحکومت میں پوری ہو جائے گی۔اس کے متوازی نوازشریف اور مریم نواز ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ لیکر چلیں گے۔مگر تحریک انصاف کیا بیچے گی ؟ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان خیبر پختونخوا کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے ،پاکستان بھر کے ووٹروں کو بتایا جاتا کہ جس طرح نیا خیبر پختونخوا تعمیر کیا ہے اسی طرح نیا پاکستان بنائیں گے ،جس طرح وہاں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے اسی طرح عمران خان کی حکومت آنے کے بعد ملک بھر میں تعمیر و ترقی کا نیا سفر شروع ہو گا ۔لیکن عمران خان وہی پرانا منجن پیکنگ تبدیل کئے بغیر مارکیٹ میں لارہے ہیں اور توقع یہ کی جا رہی ہے کہ اس بار یہ منجن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جائے گا ۔پانچ برس قبل تو ایک لہر اٹھی کہ آزمائے ہوؤں کو آزمانے کے بجائے نئے منجن فروشوں کو ایک موقع دینا چاہئے اس لئے تبدیلی کی پھکی آزمائش کی شرط پر خرید لی گئی لیکن اگر اس پھکی سے افاقہ ہونے کے بجائے پیٹ مزید خراب ہو گیا ہے اور ہر جگہ سے شکایات موصول ہو رہی ہیں تو مزید گاہک یہ خطرہ مول لینے پر کیسے تیار ہونگے ؟جہاں تجربے اور آزمائش کی خاطر آپ کو حکومت دی گئی وہاں نا تجربہ کاری،ناکامی،نااہلی اوروعدہ خلافی کی ان گنت مثالیں رقم ہوئیں ۔تکلف برطرف کیا خیبر پختونخوا میں 90دن کے دوران کرپشن کا قلع قمع کر دیا گیا؟ 350ڈیم بنانے کا وعدہ یاد ہے؟کیا خیبر پختونخوا سے پورے ملک کو بجلی فراہم ہورہی ہے؟کیا ترقی یافتہ ممالک سے خیبر پختونخوامیں ملازمتیں لینے کے خواہشمند افراد کا تانتا بندھا ہوا ہے؟ آپ نے کہا ترقیاتی کاموں کے لئے قرض نہیں لیں گے مگر کیا خیبر پختونخوا کی حکومت نے پانچ سال کے دوران کوئی قرض نہیں لیا؟چلیں صحت اور تعلیم آپ کی ترجیح تھی تو پورے صوبے میں لیڈی ریڈنگ اسپتال جیسا کوئی ایک بھی بڑا اسپتال بن سکا ؟پانچ سال کے دوران کتنی یونیورسٹیاں بنیں ؟یہ وعدے تو ایک طرف تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے بی آر ٹی پشاور منصوبے کو ناقص منصوبہ بندی سے اپنے سیاسی تابوت کی آخری کیل بنا ڈالا۔میں نے 19مارچ کو لکھے گئے کالم میں ناقابل تردید حقائق کیساتھ اس منصوبے کودنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیا تو مغلظات کا سیلاب اُمڈ پڑا مگر اب یہ عالم ہے کہ برابھلا کہنے والے پی ٹی آئی کے ورکر خود اپنی قیادت پر تنقید کر رہے ہیں۔بی آر ٹی منصوبے کو چلانے والی ٹرانس پشاور کمپنی جس کے اعلیٰ عہدیداروں نے نان پروفیشنل طریقہ کار پراعتراضات اٹھاتے ہوئے استعفیٰ دیدیا تھا، اس کمپنی میں سی ای او، چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز، چیف فنانشل آفیسر اورجی ایم آپریشنزجیسے اہم عہدے تاحال خالی ہیں اور عارضی چارج دیکر کام چلایا جا رہا ہے۔اس منصوبے پر ہونے والی پیشرفت سے آگاہ کرنے کے لئے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف ایشئن ڈویلپمنٹ بینک کو ماہانہ جو رپورٹ بھیجی جاتی ہے اس میں مئی 2018کی رپورٹ کے دوران خود پی ڈی اے نے اعتراف کیا ہے کہ اس منصوبے کے باعث یونیورسٹی روڈ پر حادثات معمول بن چکے ہیں، کھدائی کے دوران پائپ پھٹ جانے سے گیس کی لوڈ شیڈنگ عام ہے، پی ٹی سی ایل کی تاریں کٹ جانے سے انٹرنیٹ کی سروس معطل رہتی ہے، پانی کے پائپ ٹوٹ جانے سے علاقہ مکینوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور تعمیراتی کام کے باعث بجلی کی فراہمی بھی متاثر ہورہی ہے۔اب تو بی آر ٹی منصوبے کے تباہ کن اثرات سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے مسلم لیگ(ن) کی سازش قرار دیدیا جائے اور عمران خان لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہہ دیں کہ شہباز شریف نے پرویز خٹک کو بہلا پھسلا کر یہ منصوبہ شروع کروایا۔
بیچاری تحریک انصاف ایسی ناگفتہ بہ صورتحال میں کسی نئے نعرے کے بجائے تبدیلی کا پرانا منجن نہ بیچے تو کیا کرے ؟جن کو یہ اعتراض ہے کہ پی ٹی آئی اپنی کارکردگی کے بجائے نئے پاکستان کا پرانا چورن کیوں بیچ رہی ہے تو وہ خود ہی بتا دیں، آخر پی ٹی آئی بیچاری کیا بیچے ؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین