• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

21جون محترمہ بے نظیر بھٹو کا یومِ ولادت ہے جو ہر سال جوش و جذبے اور عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ سوسائٹی میں تمام تر کنفیوژن کے باوجود محترمہ کا یہ اعزاز ہے کہ وہ اہل وطن کے لئے غیرمتنا زع لیڈر کی حیثیت یا پہچان رکھتی ہیں جس پر پی پی کے تمام وابستگان کو فخر ہونا چاہئے تھا اور ان کی اس حیثیت کو پی پی کے نظریہ یا سوچ کی مقبولیت کے لئے کماحقہ استعمال کیا جانا چاہئے تھا لیکن قابلِ افسوس امر ہے کہ پی پی کی قیادت میں بشمول ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو کسی کو بھی اس کا احساس ہے نہ ادراک۔ انہوں نے کبھی بی بی کی اس سوچ، نظریے یا مشن کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں جو ان کی اس قدر پاپولیریٹی اور عقیدت مندی کا باعث بنا۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ محترمہ بے نظیر کا وژن یا مشن کیا تھا؟ محترمہ محض مدبر خاتون ہی نہیں تھیں وطن عزیز کی عملیت پسند سیاستدان اور قومی و عوامی لیڈر بھی تھیں۔ ان کی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے تمام تر رشتوں اور عقیدتوں کے علی الرغم، عصری تقاضوں کی مناسبت سے جو کچھ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں تھا وہی کیا۔ وہ بالی عمر میں کارزارِ سیاست میں اتریں تو ان کا پہلا سامنا خلائی مخلوق سے تھا جس کا مقابلہ انہوں نے انتہائی متانت، بردباری، حوصلے اور تدبر کے ساتھ کیا۔ بے وجہ اکڑ دکھائی نہ اپنے حقیقی مشن سے دستبردار ہوئیں۔ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور آزادیوں کے لئے کھڑے ہو جانا ہی بی بی کا مشن تھا۔ ان کی جنگ خلائی مخلوق ہی سے نہیں تھی بلکہ مذہب کا سیاسی استعمال کرنے والے بھی ان کے مقابل تھے، وہ جب تک زندہ رہیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف عوامی و انسانی حقوق اور آزادیوں کی علمبردار بنی رہیں۔ سیاسی مفادات سے بلند تر ہو کر انہوں نے اس حوالے سے کبھی کوئی لغزش نہیں دکھائی اور بالآخر ایک بڑی بارودی سرنگ کو صاف کرتے ہوئے راہی ٔ ملک عدم ہو گئیں لیکن آنے والے جمہوری قائدین کے لئے رول ماڈل بن گئیں۔ مملکت ِ پاکستان میں کون ہے جو بی بی صاحبہ کے اس مشن کی ضرورت و اہمیت سے انکار کر سکتا ہے۔ بی بی کی فکری عظمت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ وہ نواز شریف جو کبھی ضیاء الحق کا پاسدار کہلاتا تھا، ذہنی و شعوری ارتقا یا کایاپلٹ کا وہ منظر نامہ پوری قوم نے دیکھا جب محترمہ کی قبر پر کھڑے ہو کر وہی نواز شریف بہتے آنسوئوں کے ساتھ یہ اعلان کر رہا تھا کہ میں بی بی شہید کے مشن پر چلوں گا اس مشن کی تکمیل کروں گا۔
یہ درویش اپنی قائد کی پارٹی سے وابستہ تمام رہنمائوں اور کارکنوں سے استفسار کرتا ہے کہ آج دو مرتبہ منتخب ہونے والی دنیا سے جاتے جاتے بھی اپنی پارٹی کی جھولی میں کامیابی ڈال کر جانے والی بی بی کی پارٹی اتنی کسمپرسی میں کیوں ہے؟ اس قدر پستی می کیوں ہے کہ آج پورے پنجاب میں اسے کہیں سے ڈھنگ کے امیدواران تک نہیں مل رہے؟ اے بلاول اپنی پنجاب قیادت سے یہ پوچھو کیا آ پ لوگ گھاس کاٹتے رہے ہیں آپ سب لوگوں نے کیا کیا ہے جو اتنی ہر دلعزیزپارٹی کا ٹکٹ ٹکا ٹوکری ہو گیا ہے؟ کہیں ایساتو نہیں کہ بھٹو کا مشن سابق کھلاڑی نے سنبھال لیا ہے اور محترمہ کا فکری و جمہوری وارث نوازشریف بن چکا ہے؟ آپ سب لوگ محض تمسخر، طعنہ زنی اور الزام تراشیوں میں مشغول ہو کر دوسروںکو نیچا دکھانے کے شوق میں خو د نیچے سے نیچے چلے جارہے ہیں۔ بلاول حاسد و طعنہ باز انکلوں کے چنگل میں ہے اور اباجی کسی اور کے دم پر خود کو تیس مار خان خیال کر رہے ہیں جبکہ دوسرے درجے کی قیادت سوائے خورشید شاہ جیسے چند مخلصین کے، الزام تراشیوں میں کامیابیاں ڈھونڈ رہی ہےکہ اگر کوئی شہباز شریف جیسا سیاسی مخالف کسی وجہ سے بھی بی بی کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے تو سب اس کے لتے لینے دوڑ پڑتے ہیں کہ بی بی کے تم کیا لگتے ہو اس کے وارث تو ہم ہیں حالانکہ اگر وارثوں کو قائد کے مشن سے لگائو نہ ہو تو وہ اس کے وارث کہلانے کا حق کھو بیٹھتے ہیں لیکن یہاں کوئی بھی نہیں جس کی سوچ میں بی بی جیسی بڑائی یا وسعت ہو اس کی ایک تازہ مثال پیش ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ن لیگ کے چوہدری جیسے ایک چوہدری پی پی میں بھی براجمان ہیں۔خطاب تو وہ بی بی کے یوم ولادت پر کر رہے ہیں مگر جلی کٹی سوتنوں جیسی ہے۔ فرماتے ہیں کہ بی بی نے اپنا علاج سکھر جیل کی کال کوٹھڑی میں کرایا۔ یہ نہیں ہے کہ مقدمہ چل رہا ہے اور یہ ہارلے اسٹریٹ جارہی ہوں۔ یعنی وہ کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ اگربی بی سے لگائو رکھتے ہو تو پھر علاج بھی جیل کی کال کوٹھڑی میں کرائو۔ بی بی توزندگی بھر ایسے جبرکے خلاف لڑتی رہیں اور آپ اس کی وکالت کررہے ہیں آپ واضح فرمائیں کہ آپ بی بی صاحبہ کی فکر اور سوچ کے نمائندے ہیں یا آمریت اور جبر کی سوچ کے حامل؟ بی بی کی پارٹی کے ایک مرکزی لیڈر کی حاسدانہ اور نفرت انگیز سوچ کا یہ عالم ہے کہ وہ دوسروں کی مائوں، بہنوں اور بیویوں کے متعلق اس اسلوب میں سوچتا ہے۔ گلے کے کینسر میںمبتلا خاتون کی بیماری کا تمسخراڑاتا ہے اور خود کوبی بی کی عوامی پارٹی کارہنما بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ پی پی کی ٹکٹ کیوںٹکا ٹوکری ہوچکی ہے۔ خدا کے بندو کچھ خدا کا خوف کرو۔ ایک دن سب نے مرنا ہے۔ خدا سے ڈرو۔

تازہ ترین