• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قطر نے اپنے خلاف ہونیوالے زمینی، فضائی اور سمندری محاصرے کا ایک سال مکمل کر لیا- جون 2017ء کے اوائل میں سعودی قیادت میں چار خلیجی ممالک بشمول مصر، متحدہ عرب امارت اور بحرین نے اچانک قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو منقطع کرنیکا اعلان کیا اور فوراََ تمام قسم کی نقل و حمل اور آمد و رفت کے ذرائع پر مکمل پابندی عائد کردی- ان ممالک نے قطر پر داعش اور دیگر دہشت گردوں کی امداد کرنے کیساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک میں حکومت مخالف عناصر کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزامات عائد کئے- اسکے علاوہ انھوں نے قطری حکومت کے وسائل پر چلنے والے ٹیلی وژن نیٹ ورک الجزیرہ پر الزام لگایا کہ وہ نہ صرف انکے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ میں مصروف عمل ہے بلکہ باغی عناصر کو ہوا دیکر خطّے میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنا چاہتا ہے- اگرچہ قطر نے بار بار ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے بات چیت کی پیشکش کی مگر انہوں نے اسے در خور اعتنا نہیں سمجھا اور قطر کو مطالبات کی فہرست تھما کر فوری تسلیم کرنے پر زور دیا- ان میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ الجزیرہ کو مستقل بنیادوں پر بند کردیا جائے اور یہ کہ ملک میں موجود ان ممالک کے وہ شہری جنہیں باغی قرار دیا جاچکا ہے کو ان کے حوالے کردیا جائے- مزید براں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کی حکومت پر الزام لگایا گیا کہ وہ فلسطین کی سیاسی اور عسکری مزاحمتی تنظیم حماس کی مدد کرکے پورے علاقے میں دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے- ان الزامات کا ایک نرالا پہلو یہ بھی ہے کہ قطر کو بیک وقت دو متضاد فکر کی حامی تنظیموں داعش اور حزب اللہ پر امداد دینے کے الزامات عائد کردیئے گئے-
سفارتی تعلقات کے منقطع ہونے سے پہلے قطر کی سرکاری خبر رساں ادارے قطر نیوز ایجنسی کو ہیک کرکے اس پر قطری حکّام سے منسوب جھوٹی خبریں لگائی گئیں جنکے ذریعے مصنوئی اشتعال کو فروغ دیا گیا تاکہ تعلقات کو ختم کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکے- اسکے علاوہ کئی حکومتی عہدیداروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی چرا لئے گئے جن کے توسط سے مزید اشتعال انگیز مواد کی ترویج و اشاعت کی گئی- اگرچہ قطری حکومت نے فوراََ اس مواد کو جھوٹا قرار دیکر اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا مگر یہ ممالک اپنی ضد پر ڈٹے رہے اور قطر کے خلاف دھمکی آمیز اور نا مناسب الفاظ استعمال کرتے رہے- شروع میں امریکہ نے سعودی اتحاد کا ساتھ دیکر بحران کو مزید بڑھاوا دیا یہاں تک کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی قطر کو "دہشت گردوں کی مدد" کرنے پر آڑے ہاتھوں لیا- اس اہم موقع پر اپنے مخالفین کے حق میں امریکیوں کا جھکاؤ قطریوں کیلئے ایک صدمہ جانکاہ سے کچھ کم نہ تھا کیونکہ انکی سرزمین پر دنیا کی واحد سپر پاور کا ایک بہت بڑا فوجی اڈہ تھا جس میں دس ہزار سے زائد فوجی موجود تھے اور قطریوں نے انکو کافی سہولت بہم پہنچائی ہوئی تھی- صدر ٹرمپ کے اس عجیب و غریب طرزعمل سے قطر میں خوف کی شدید لہر دوڑ گئی کہ شاید ان پر حملہ کرکے موجودہ امیر حماد الثانی کی حکومت کو ہی ختم نہ کردیا جائے- اگر ترک صدر ایردوان بروقت میدان میں نہ آتے اور قطر کیساتھ یکجہتی کا اظہار نہ کرکے انہیں فوجی مدد کی یقین دہانی نہ کرتے تو شاید وہ زد میں آگئے ہوتے- ترکی کے مناسب وقت پر ساتھ اور فوجی امداد نے حالات کو سنبھالا دیا اور بعد میں امریکہ نے بھی حالات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنیکی کوششوں پر زور دینا شروع کردیا-
اپنے ہمسایوں کے عائد کردہ سخت ترین محاصرے کا مقصد اس چھوٹے سے جزیرہ نما ملک پر جبراََ بیرونی سرپرستی عائد کرنے کیساتھ ساتھ موجودہ امیر کی فرمانروائی اور آزادی کو ختم کرنا تھا تاکہ قطریوں کو زیردست کیا جاسکے- اس تناظر میں قطر کیلئے ایسے حالات انتہائی سخت اور بڑے صبر آزما تھے کیونکہ انہیں اپنی روزمرہ کی غذائی ضروریات کا 80 فیصد حصّہ پابندی لگانے والے ہمسایوں سے درآمد کرنا پڑتا تھا- باقیماندہ ضروریات اگرچہ دیگر ممالک سے پوری کی جاتی تھیں مگر انکی ترسیل بھی ہمسایہ بندرگاہوں یا خشکی کے واحد اس راستے سے ہوتی تھی جو سعودی عرب کیساتھ منسلک تھا- ان حالات میں اگر قطری امیر بروقت اور دیدہ دلیری سے فیصلے نہیں کرتے تو ملک ایک بہت بڑے بحران سے دوچار ہوتا- انہوںنے بڑی تندہی سے علاقائی اور عالمی سطح پر موافق طاقت کے میزانوں کا استعمال کرکے فی الفور نئے اتحاد بنائے جن سے ملکی حالات انکے قابو میں رہے- یہ ملک کے موجودہ امیر ہی ہیں جنھوں نے دو دہائی قبل اپنے ملک کی ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے ازسرنو تشکیل کی تھی جس سے اسکی ساکھ میں بے پناہ اضافہ ہوا اور چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اسکے سافٹ پاور کا چرچا عالمی سطح پر ہونے لگا۔
اچانک محاصرے کے فوراََ بعد ملک میں بےیقینی کی سی صورتحال پیدا ہو گئی تھی اور لوگ اسقدر خوفزدہ ہوگئے کہ انھوں نے سپر مارکیٹس سے کھانے پینے کی تمام چیزیں اٹھا لیں- حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حکومت نے چوبیس گھنٹے کے قلیل عرصے میں ایران اور ترکی سے کارگو جہازوں کے ذریعے غذائی اجناس کی ترسیل بحال کرائی- ملک کیخلاف جنگ کے خطرات کو بھانپتے ہوئے امیر الثانی نے امریکہ اور ترکی کیساتھ کئی دفاعی اور سیکورٹی معاہدے کئے تاکہ آنے والے حالات کا بہتر طریقہ سے مقابلہ کیا جاسکے- اسی قسم کا ایک اور معاہدہ اب روس کے ساتھ طے پایا ہے جسکی رو سے قطر کو جدید قسم کا فضائی دفاعی نظام فراہم کیا جائے گا- برادر ملک کے سخت احتجاج کے باوجود روس نے حال ہی میں تصدیق کی کہ وہ یہ دفاعی نظام قطر کو فراہم کرے گا- دفاعی شراکت داری کیساتھ ساتھ قطر نے سفارتی سطح پر بھی امریکہ اور یورپی یونین کیساتھ اپنے تعلقات کو مزید وسعت دیکر انہیں مزید مضبوط بنایا ہے- اسکے علاوہ قطر نے اپنی ہمسائیگی میں خلیجی تعاون کونسل کے ممبران عمان اور کویت کیساتھ بھی اپنے تعلقات کو گہرا کردیا ہے- ان دونوں ممالک نے بحران کے شروع سے ہی قطر کیخلاف محاصرے کی مخالفت کرتے ہوئے معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیا تھا- اگرچہ یہ دونوں ممالک چار ملکی اتحاد کے مقابلے میں کافی کمزور ہیں مگر انکی حمایت سے قطر کو نہ صرف اخلاقی برتری حاصل ہوئی بلکہ نفسیاتی سپورٹ بھی فراہم ہوئی-
بارہ ماہ کے قلیل عرصے میں خود کفالت کی جانب حکومتی کوششوں کی وجہ سے اب قطر میں ڈیری اور مچھلی فارم قائم ہوئے ہیں اور صحرا میں سبزیاں بھی اگائی جانے لگی ہیں- یہی وجہ ہے کہ اب غذائی ضروریات کا 40 فیصد ملک سے ہی پیدا کیا جارہا ہے جسے حکومت اگلے سال تک 90فیصد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے- اسی طرح سمندری اور ہوائی رابطوں پر قدغنوں کے مدنظر نئی بندرگاہیں اور ہوائی روٹس متعارف کرائے گئے ہیں جو مستقبل قریب میں کسی بھی بحران سے بہ آسانی نمٹ سکتے ہیں- پابندی کی پہلی سالگرہ پر دو دہائیوں سے دارالحکومت دوحہ میں مقیم صحافی حسین احمد نے مجھے بتایا: ’’پابندیوں سے کامیابی سے نبرد آزما قطر کے شہری اور رہائشی مستقبل کےبارے میں کافی پر امید ہیں کیونکہ اب وہ خود کفالت کی طرف گامزن ہیں اور انہیں اب کوئی بھی پابندیوں سے نہیں ڈرا سکتا‘‘-
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین