• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلزپارٹی اس بارسندھ میں ایک مختلف طرح کےالیکشن کا سامنا کرےگی۔ مختلف سیاسی پہلوئوں سےمقابلہ سندھ کے دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں آسان ہےکیونکہ کبھی طاقتوررہنےوالی ایم کیوایم اب موجودنہیں ہے اور کمزور نظرآ ر ہی ہے۔ یہ بدقسمتی ہےلیکن یہ حقیقت کہ الیکشن 2018میں پی پی پی کی موجودگی صرف سندھ میں محسوس کی گئی۔ ایم کیوایم کےدھڑوں میں پھوٹ نےپی پی پی مخالف گروپس کوبھی نقصا ن پہنچایاہے، ماضی کےبرعکس جب ایم کیوایم کے50یازیادہ ایم پی اےاور25سےزائدایم این ایز پی پی پی کےبغیرایک آسان اتحادی حکومت بنانےکا موقع فراہم کرتے تھے۔ اس وقت سندھ کے شہری علاقوں کا مینڈ یٹ مکمل طورپرتقسیم شدہ ہوگااورسب کیلئےمیدان کھلاہوگا۔ دیہی سندھ میں پی پی پی واحدبڑی جماعت بن کرسا منے آئےگی لیکن آصف علی زرداری اوربلاول بھٹو کی زیرِقیادت پی پی پی پی اور پی پی پی کیلئے یہ ایک چیلنج ہوگاکہ وہ 25جولائی کو11مئی 2013 کےانتخابات کےمقابلے میں دیہی سندھ میں زیادہ سیٹیں نکال سکیں۔ زرداری 40سےزائد سیٹیں پرنظررکھےہوئےہیں تاکہ معلق پارلیمنٹ کی صورت میں آزادامیدواران اور چھوٹےگروپس کےساتھ وہ اپنے’ کارڈز‘ اچھے طریقے سےکھیل سکیں۔ کراچی میں چھ سے زائد سیٹوں پر ان کی نظر ہے لیکن انھیں چاریاپانچ ہی ملیں گی جو بہتر ہی ہوں گیں۔ ایم کیوایم میں پھوٹ اورحلقہ بندیوں سےکراچی اورسندھ کےکچھ دیگرحلقوں میں پی پی پی کومددملےگی۔ 1970 کےبعد سےاپنی بنیادی سطح کی سیاست کے باعث پی پی پی سندھ میں کوئی الیکشن نہیں ہاری اور دوسرا اپنے تنظیمی ڈھا نچےکےباعث اورتیسراکسی مضبوط اپوزیشن کی غیرموجودگی کےباعث کیونکہ دیہی سندھ میں کوئی اپوزیشن پارٹی نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ پی پی پی مخالف اتحادکی سیاست رہی ہےجس کےباعث پی پی پی کیلئےمشکل کاباعث بنا۔ یہ بے نظیرکے بغیرپی پی پی کاتیسراالیکشن ہے اوربظاہرزرداری اس سیاست پرمضبوط کنٹرول رکھتےہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے مضبوط گڑھ لاڑکانہ سے کسی بھٹوکوٹکٹ نہیں دیاگیا۔ زرداری اوران کی بہن فریال نےکچھ پی پی پی مخالف گروپس پی پی پی میں لانےکا انتظام کیا جیسے کہ ٹھٹہ کے شیرازی اورسانگھڑمیں فنکشنل مسلم لیگ کےسابق رہنما جام مدد علی۔ خودزرداری صاحب اپنے آبائی قصبےسےلڑرہےہیں اگرالیکشن کےبعدپی پی پی ایک مضبوط کھلاڑی کےطورپرسامنےآئی تو وہ معلق پارلیمنٹ میں ایک امیدوار ہوں گے۔ پی پی پی لیڈرشپ کی جانب سے ان اقدامات کےباوجوداسے نہ صرف اپنےروایتی حریف یعنی فنکشنل مسلم لیگ کےپیرپگارااوران کی زیرقیادت گرینڈڈ یموکریٹک الائنس کی جانب سےمضبوط اپوزیشن کاسامنا ہوگابلکہ پاکستان تحریک انصاف میں سابق گورنر میاں سومرو کی شمولیت کےبعدمشکلات کاسامناہے، سندھ میں ان کی ساکھ اچھی ہے۔ پی ٹی آئی اورجی ڈی اے نےاب ہاتھ ملا لیےہیں اس سےاپوزیشن مزید مضبوط ہوئی ہےکیونکہ ممتاز علی بھٹو اور لیاقت جتوئی بھی اب پی ٹی آئی میں ہیں۔ اس کے علاوہ شاہ محمود قریشی جو پیر بھی ہیں اور پیرو کاروں کی بڑی تعدادوالےتین میں سےدوپیراب ایک پلیٹ فارم پرہیں۔ وہ حُر اور غوثیہ جماعت ہیں جبکہ ہالہ کے مخدوموں کی سروری جماعت تاحال پی پی پی کےساتھ ہے۔ مقابلہ مزید دلچسپ ہوگا اگرجےیوآئی (ف)اورایم ایم اےبھی جی ڈی اےاورپی ٹی آئی اتحاد میں شامل ہوجائےگی۔ دیہی سندھ میں نئےچیلنجز کےپیش نظرپی پی پی کی لیڈرشپ شہری سندھ خاص طورپر سکھر، میرپورخاص، حیدرآباد کے کچھ حصوں اوربالخصوص کراچی سےزیادہ سےزیادہ یاکم ازکم مقابلے کے قابل سیٹیں نکالنےکی کوشش کررہی ہے۔ پی پی پی کے پالیسی ساز اور مشترکہ چیئرمین آصف علی زرداری سندھ سے40سے45سیٹیں چاہتے ہیں، جو بہت مشکل لگ رہاہے لیکن وہ جانتےہیں کہ الیکشن کےبعداس کے بغیروہ اپنےکارڈکھیلنےکےقابل نہیں ہوں گے۔ اگرپی ایم ایل(ن) اورپی ٹی آئی دونوں میں سےکوئی ایک پارٹی نےبھی سادہ اکثریت یا 100سے120 سیٹیں لینےمیں ناکام رہی۔ زمینی صورتحال پی پی پی کیلئے2013جتنی اچھی نہیں لگتی سوائے کراچی کے جو کھلا ہواہےاوراگرپی پی پی شہری سندھ سےکم ازکم 10بشمول کراچی سے 5سے 6سیٹیں نکالنےمیں کامیاب ہوگئی، اس سے پی پی پی کی حالت بہتر ہوجائےگی۔ 2013کے انتخابات مشکل تھے کیونکہ انھیں طالبان اوردیگر گروہوں کی جانب سے دھمکیا ں مل رہی تھیں لیکن دیگرصوبوں کے مقا بلے میں سندھ میں ان کیلئےمہم چلانامشکل نہیں تھا۔ دوسرا، ان کےمخالفین بہت کمزورتھےاورپی پی پی میں بھی زیادہ اندرونی اختلا فا ت نہیں تھے۔ 2018میں بھی پی پی پی کوفائدہ حاصل ہے لیکن اب انھیں اپنے ہی بندوں کی مخالفت کاسامناہے اور حلقوں میں انھوں نےایسےگروپس کوفائدہ دیاہے جو ماضی میں پی پی پی مخالف تھے۔ حتیٰ کہ پی پی پی کی لیڈرشپ نے دبائوکےباعث کئی شہروں اور دسٹرکٹس کو ایک یا دو خاندانوں کے حوالے کردیا۔ مثال کے طورپر سکھر میں پی پی پی رہنما سید خورشید شاہ، انکے بیٹےاور ان کے داماد الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دوسرا خاندان جسے یہاں سےفائدہ پہنچایا گیا وہ جنرل ضیاءدور میں پی پی پی مخالف تھا، وہ اسلام الدین شیخ ہیں، وہ ایک سینٹر ہیں، ان کاایک بیٹاسکھرکامیئرہےاور اب انھوں نے دوسرے بیٹےکیلئے ایک اورٹکٹ لےلیاہے۔ اس سب کےباعث پی پی پی کی مقامی قیادت میں سنجیدہ نوعیت کی پریشانی پائی جاتی ہے اور اسکے نتیجے میں محمد علی شیخ اور ان کا خاندان جن کا یونین کونسل میں اثرورسوخ ہے وہ ان کے خلاف آزادنہیں کھڑے ہورہے۔ شیخ جو زرداری صاحب کے قریبی ساتھی ہیں انھیں گزشتہ سال پی ایم ایل(ن) کے دورمیں ایجنسیوں نے اٹھالیاتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حتٰی کہ خورشید شاہ اور اسلام الدین شیخ کے کبھی اچھےتعلقات نہیں رہے۔ اس کے برعکس جب شیخ فنکشنل مسلم لیگ کے ساتھ تھے تو وہ ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ انھوں نےزرداری صاحب کے ساتھ تعلقات اس وقت بنائے جب وہ جیل میں تھے۔ سابق وزیرداخلہ سندھ ڈاکٹر ذوا لفقا ر مرزا اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بدین میں پی پی پی کو کافی نقصان پہنچایا ہے، یہ لاڑکانہ کے بعد پی پی پی کا گڑھ ہوکرتاتھا۔ انھوں نے اب جی ڈی اے میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور اب پی پی پی کیلئے مشکل ہوگا کہ وہ یہاں دوبارہ کنٹرول حاصل کرسکے کیونکہ پی پی پی کےناظمین کا پرانا گروپ بھی پی پی پی کو چھوڑ چکاہے۔ پارٹی کومیر پور خاص میں علی نوازشاہ اور نوشہروفیروز میں عبداللہ بھرت کی بغاوت کےباعث بھی مشکلات کاسامناہے۔ زرداری صاحب بالخصوص بھرت کےبارےمیں پریشان ہیں کیونکہ ان کاکافی اثرورسوخ ہے۔ حتٰی کہ وہ انھیں قائل کرنےکیلئےان کےگھربھی گئے لیکن ناکام رہے۔ بالآخرپی پی پی نےمحفوظ رہنے کیلئے جامشوروسےملک اسد سکندر کوٹکٹ دےدیا اور اس کے نتیجے میں پی پی پی کےڈپٹی سیکریٹری جنرل ڈاکٹرسکندرشورنےاپنا گروپ بنالیااور قوم پرست رہنما جلال محمد شاہ کے ساتھ ایک اتحاد بنالیاہے، پی پی پی نے انھیں پارٹی سے نہیں نکالا ہے۔ ملک اسد طاقتور ہیں اور مشکل میں تھےکیونکہ ملک کے معروف رئیل اسٹیٹ ٹائیکون کے ساتھ ان کے اختلافات تھے۔ بالآخر مسئلہ حل ہوگیا ہے اور اسد کو ٹکٹ جاری کردیا گیاہے۔ اس کے باعث پی پی پی میں بے چینی پیداہوئی اور شوروکےعلاوہ پی پی پی کے دیگروفادارساتھی جیسے کہ ڈاکٹرواحدسومرونے پارٹی چھوڑ دی۔ جیکب آباد میں بھی پی پی پی کو مشکلات کاسامان ہےکیونکہ پی ٹی آئی وہاں سے سابق گورنر میاں سومروکوساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئی، ان کی ساکھ کافی بہترہے۔ امین فہم کے برعکس زرداری صاحب کیلئے مخدوم جمیل الزمان کوسنبھالنا بھی آسان نہیں ہے، اگر پی پی پی مٹیاری ان کے حوالےنہ کرتی تووہ بھی ’پیر‘اتحاد کے ساتھ ہاتھ ملانے کیلئے تیارتھے، یعنی شاہ محمود اورپیرپگارو۔ جبکہ پی پی پی لاڑکانہ میں محفوظ ہےلیکن فریال تالپور اور ممتاز بھٹو کے بیٹےعامر بخش بھٹو کےدرمیان صوبائی اسمبلی کی نشست پردلچسپ مقابلہ ہوگا۔ لہذاجی ڈی اےاورپی ٹی آئی اتحاد کی صفوں میں کچھ اہم لوگ شامل ہیں، اُن میں سے بہت سے لوگوں نے ماضی میں اپنی سیٹ جیتی تھی لیکن ایک شعلہ بیان خطیب اور مرحوم رسول بخش پلیجو کے نوجوان بیٹےایاز پلیجوکیلئےیہ ایک امتحان ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایاز ایک اچھا انتخاب ہے لیکن انھیں ایک مشکل مقابلے کا سامنا ہوگا۔ جبکہ زرداری خاندان بشمول بلاول بھٹواورفریال تالپور، قائم علی شاہ اور خورشید شاہ کاخاندان، ہالہ کے مخدوم، اسلام الدین شیخ کاخاندان، شیرازی خاندان محفوظ لگتے ہیں، پی پی پی کوکئی وجوہات کےباعث 2013کے مقابلے میں 2018میں مشکل مقابلے کا سامناہوگا۔ کراچی میں بلاول لیاری میں محطوظ ہیں لیکن ان کےووٹ کاتعداددیکھنا دلچسپ ہوگا۔ عام طورپر یہ کم ہی ہوا ہے سوائے جب نبیل گبول نے یہ سیٹ جیتی تھی۔ انھیں دوبارہ ٹکیٹ ملنے کا امکان ہےاگر بلاول یہ سیٹ جیت جائیں اور اسے خالی کردیں۔ انھیں عزیرگروپ کی جانب سےمشکلات کاسامنا ہوسکتا ہے جیسے 2013میں ہواتھا اس کے باعث وہ ایم کیوایم میں شامل ہوگئےتھے۔

تازہ ترین