• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا ٹیلی وژن ان دنوں ہمیں جتنی خوشی دے رہا ہے، پہلے کبھی نہیں دی ۔اس چھوٹے سے پردے پر آج کل جو بڑے منظر نظر آرہے ہیں ہماری کچی پکی جمہوریت میں ان آنکھوں نے اس سے پہلے وہ منظر کم ہی دیکھے ہیں۔ منظر یہ ہیں کہ وہی ڈاکوؤں جیسی صورتیں اورچمکتی دمکتی شان و شوکت والی بلٹ پروف کاروں میں بیٹھے وہی کئی بار کے آزمائے ہوئے امیدوار اپنے انتخابی حلقوں کے دورے پر نکلے ہیں ۔اپنی ائر کنڈیشنڈ کاروں کے اندر بیٹھے بیٹھے وہ اپنے ووٹروں کو بقول شخصے ’عزّت دو‘ کے نعرے پر عمل کر رہے ہیں۔منظر یوں ہے کہ امیدوار اپنی کار میں بیٹھے ہیں اور باہر مجمع لگائے ووٹر ان پر سوالات کی بوچھار کررہے ہیں اور پانچ سال تک کچھ نہ کرنے کے تابڑ توڑ الزام لگا رہے ہیں ۔ہم نے سیدھے سادے ووٹروں کو ان نام نہادر ہنماؤں سے اتنے سخت لب و لہجے میں بات کرتے پہلے کبھی نہیں سنا ۔حیرت ہوتی ہے ان بے عمل امیدواروں پر کہ پانچ سال تک پارلیمنٹ لاج میں خر مستیاں کرنے ، حکومت سے ترقیاتی فنڈ کے نام پر کروڑوں وصول کرنے اور پارلیمان کے اجلاس میں مہینوں شامل نہ ہونے کے بعد یہ کون سا منہ لے کر ایک بار پھر منتخب ہونے کی آس پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔مطلب یہ کہ کیا ان کی آنکھوں کا پانی اتنا خشک ہوگیا ہے؟ایک اور غضب یہ کہ اگر اعضا جواب دے گئے ہیں اور اپنا آخری وقت قریب نظر آرہا ہے تو اپنے بیٹے، بھتیجے اور بھانجے تو کہیں نہیں گئے۔ اگر وہ بھی دستیاب نہیں تو خاندان کی عورتیں اگلے محاذ پر بھیجی جارہی ہیں۔مجھے جو سب سے بڑا اعتراض ہے وہ یہ کہ آدمی بڑا لیڈر بنے اور ضرور بنے مگر لازمی ہے کہ صورت شکل سے بھی اس مقام کا اہل نظر آئے۔ میں تو جس کو بھی دیکھتا ہوں، چند ایک کے سوااکثر (یہاں جتنے لفظ ذہن میں آرہے ہیں سارے غیر پارلیمانی ہیں)وڈیرے، سردار، جاگیردار اور اسی قماش کے لوگ نظر آتے ہیں۔ میں ایک بات سوچتا ہوں اور بہت سوچتا ہوں۔ یہ جو ہمارے پڑھے لکھے ، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ڈاکٹر، قانون داں، استاد ، انجینئر اور ایک سے بڑھ کر ایک کامیاب بزنس مین ہوتے ہیں ، یہ منتخب ہوکر پارلیمان میں کیوں نہیں آتے۔ مجھے ایک الیکشن یاد ہے جس میں بے نظیر کامیاب ہوئی تھیں۔ میں ان دنوں میانوالی کے علاقے کمر مشانی میں تھا۔ میرا چونکہ بی بی سی سے تعلق تھا، علاقے سے کھڑے ہونے اور ہار جانے والے دو امیدوار مجھ سے ملنے آئے۔ دونوں اعلی تعلیم یافتہ، ہونہار اور خوش و ضع تھے۔ بتانے لگے کہ ہم نے گھر گھر جاکر ووٹروں سے بات کی اور انہیں قائل کرلیا کہ اب نئی او رذہین قیادت کو آگے آنا چاہئے۔ سب مان گئے۔ ہمارے مقابلے میں مولانا فلاں کھڑے ہوئے تھے جو ہر بار یہ کہہ کر جیت جاتے تھے کہ وہ قائد اعظم سے بہت قریب تھے اور جو ہر مرتبہ پارلیمان میں بات بات پر شعر پڑھنے کی وجہ سے مشہور تھے لیکن کام ایک دھیلے کا نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ اپوزیشن کا آدمی ہوں، میرے پاس اختیارات نہیں۔لوگ مان گئے کہ اب مولانا کو گوشہء عافیت میں بٹھا دیا جائے جہاں وہ عمر کے باقی دن اﷲ اﷲ کرکے گزاردیں۔ یہ سارا بندوبست ہوگیا لیکن پولنگ سے ایک رات پہلے علاقے کے فلاں پیر صاحب نے مولانا کی حمایت کا نہ صرف اعلان کردیا بلکہ اپنے مریدوں کو خبر دار کر دیا کہ مولانا کو ووٹ نہ دیا تو ، اب ٹھیک ٹھیک یاد نہیں، یا تو نکاح ٹوٹ جائے گا یا پیدائش کی تحقیق مشکوک ہوجائے گی ۔ کچھ ایسی ہی دھمکی تھی کہ صبح الیکشن کا پانسہ پلٹ گیا اور شام تک قائد اعظم کی رفاقت کے دعوے دار مولاناکی فتح او رکامرانی کا ڈنکا بج گیا۔یہی پیری مریدی، ذات برادری، مسلک اور عقیدے، بھائی بند لوگ، قبیلے والے ، برادری والے ، یہ ہیں وہ لوگ کہ جمہوریت جن کے ہاتھوں گروی رکھی ہے۔ یہ جسے چاہیں تخت پر بٹھا دیں جس کا چاہیں تختہ کردیں۔ اگرچہ یقین اب بھی نہیں لیکن کچھ کچھ آثار نظر آنے لگے ہیں کہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ ایک امیدوار یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ جس دروازے پر جاؤ، اکیلا ووٹر ہی نہیں ، اس کی آل اولاد بھی ایسے ایسے سوال پوچھتی ہے کہ جواب نہیں بن پڑتا۔ سیاسی جماعتیں بھی اس بار کچھ سیانی ہو چلی ہیں ۔ وہ ہر ایرے غیر ے کو کھڑا نہیں کر رہی ہیں بلکہ ’قابلِ چناؤ‘ امیدواروں کو آگے لارہی ہیں جنہیں الیکشن لڑنے کی ’راکٹ سائنس‘ کا تجربہ ہے اور جو اپنے علاقے میں کام کرچکے ہیں اور جانے پہچانے ہیں۔اس بار انتخابات میں امیدواروں کے حق میں تو ہمیشہ کی طرح پوسٹر لگ رہے ہیں، ان کے خلاف بھی پینا فلیکس لگ رہے ہیںجن پر صاف صاف لکھا ہے کہ فلاں فلاں نا منظور۔
مگر کیا ہے۔ آج ہی سندھ سے ایک دوست نے شہداد کوٹ کے علاقے سے ایک مڈل اسکول کی عمارت کی تصویر بھیجی ہے۔عمارت کیا ہے، لگتا ہے کئی روز پرانی میّت پڑی ہے۔ اس عمارت میں نہ کوئی استاد ہے نہ شاگرد۔ سب اس کو چھوڑ کر چلتے بنے اور یہ بھیانک کھنڈر خالی پڑا سائیں سائیں کر رہا ہے ۔ میں دل ہی دل میں ماتم کناں تھا کہ جگہ جگہ سے احباب کے پیام آنے لگے کہ یہ ایک ہی نہیں ، ایسے ایسے خدا جانے کتنے تعلیمی ادارے موئن جو دڑو کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ بہر حال جس اسکول کو یوں موت آجانے پر میں آنسو بہارہا ہوں ، کسی نے بتایا ہے کہ اب اس علاقے سے بلاول بھٹو الیکشن لڑ رہے ہیں۔ تو کیا اب اس اسکول کی قسمت بدلے گی، کیا اس میں موسم گل لوٹ آئے گا۔ کیا ایک بار پھر بچوں کی آوازیں گونجیں گی اور کیا بار بار اسکول کا گھنٹہ بجے گا؟ کیا اس عمارت سے علم کا نور پھوٹے گا اور کیا علاقے کا مقدر جاگے گا؟
جواب دیتے ہوئے دل کو ایک خوف سا ہے۔ وہ کہتا ہے نہیں۔ عین وقت پر ووٹر دغا دے گا۔ نجات اتنی آسان نہیں، عابدی صاحب۔

تازہ ترین