• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان اپنی اہلیہ کے ساتھ بابا فرید کے مزار پر گئے۔ اُن کی چوکھٹ کو بوسہ دیا۔ قبر پرچادر چڑھائی اور تبرکات تقسیم کئے۔ عمران خان کو طالبان خان کہنے والوں کو یاد دلانا چاہ رہا ہوں کہ دو ہزار دس میں اِسی مزارپر بم دھماکہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ انہی دنوں میں داتا دربار پر بھی ایک خود کش حملہ ہوا تھا اور ثابت ہوا تھا کہ داتا دربار پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کےلئے رہائش اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی کا کام ایک کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے نے کیا ہے۔ پھر وہ شخص بیرون ملک فرار ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعددبئی سے گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن مہنگے وکیلوں کی کوششوں سے ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ دوہزار بارہ میں پرویز مشرف پر حملے کرنے کے جرم میں پھر گرفتار ہوا مگر دوہزار چودہ میں پھر ضمانت ہو گئی۔ یہ تو اُس کے خلاف درج ہونے والےچھوٹے چھوٹے مقدمات ہیں۔ اسے تو چھ افراد کے قتل میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزائے موت دی گئی تھی۔ بعد میں خوف زدہ لواحقین کوقصاص اداکیا گیا اور صلح ہو گئی۔ اس وقت بھی تقریباً سولہ ایف آئی آر ز میں اس کانام شامل ہے اورمسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر ایم این اے کا امیدوار ہے۔ حیرت ہے اس کے کاغذاتِ نامزدگی پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوا مگر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تا حیات نا اہل قرار دے دیئے گئے۔ وہ تو جو ہوا سو ہوا مگر فیصلے پر اُن کا ردعمل سن کر بہت دکھ ہوا۔ میڈیا کے سامنے شاہد خاقان کا لہجہ دانیال عزیز جیسا تھا۔ دانیال عزیز بھی آج پانچ سال کےلئے نا اہل ہو گئے ہیں۔ نواز شریف نے بھی نااہل ہوجانے کے بعد اتنی سخت گفتگو نہیں کی تھی جتنی جناب ِ خاقان نے کی۔ پہلی بار لگا کہ صرف ان کا نام ہی خاقان نہیں ہے۔ وہ مزاجاً بھی خاقان ہی ہیں۔ خاقان کا لفظی مطلب ’’خانوں کا خان‘‘ کے ہیں۔ چین میں شہنشاہوں کےلئے یہ لقب استعمال ہوتا تھا۔ پہلی بار چنگیزخان کو خاقان کہہ کر پکارا گیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی کو دراصل غصہ اس بات پر بہت آیا ہوا تھا کہ فاضل جج نے انہیں بھی مافیا کا حصہ قرار دیا ہے۔ وہی مافیا جس کا ذکر پانامہ کیس کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اختلافی نوٹ میں تھا۔ اُس فیصلے کی پہلی سطر ہی1969 میں ماریو پوزو کے مشہور زمانہ ناول گاڈ فادر کے اِس جملےسے کی گئی تھی کہ ہر بڑی کامیابی کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو اس بات کا بھی دکھ تھاکہ وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے سب سے زیادہ سرکاری پیسہ اپنے حلقے میں خرچ کرایا تھا اور انہیں یقین تھا کہ اب ان کی دوتین نسلیں بڑی آسانی سےیہاں سے ایم این اے بنتی رہیں گی مگر بیچارے ابھی تک خود تاحیات نا اہل ہیں۔ دیکھئےآگے کیا ہوتا ہے۔
شاہد خاقان کے داد اکا نام عجب خان تھا۔ وہ رینج فارسٹ آفیسر تھے۔ ان کے والدخاقان عباسی ایئرکموڈور تھے اردن کی رائل ایئر فورس میں ایڈوائز ہوا کرتے تھے۔ وہیں اُن کےجنرل ضیا سے تعلقات بنے۔ ضیاء الحق1967 ء سے1970 ء تک اردن میں رہے تھے اس وقت وہ بریگیڈیئر ہوا کرتے تھے۔اردن میں قیام کے دوران انہیں اردن کے سرکاری اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے اردن کی آرمی کو تربیت دی تھی۔ اردن نے1970 میں فلسطینی فدائیان کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا تھا توجنرل ضیاء الحق نے فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے آپریشن میں اردن کے سپاہیوں کی قیادت کی تھی۔ فلسطینی اس آپریشن کو ’’کالے ستمبر‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ اوجڑی کیمپ کے واقعہ میں خاقان عباسی ہلاک ہو ئے تھے۔ شاہد خاقان عباسی کی بہن سعدیہ عباسی بھی سینیٹر ہیں۔ ان کے پٹرولیم کے کسی بزنس میں عابدہ حسین کی بیٹی کے ساتھ شرکت داری بھی ہے۔ شریف فیملی کی طرح خاقان فیملی کی سیاست بھی جنرل ضیاء الحق کے تعلق سےشروع ہوتی ہے۔ یوں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ انہیں مارشلائی سیاست ورثے میں ملی ہے۔ وہ اس کے گھوڑے پر سوار ہوئے ہیں اُسے چابکیں بھی ماری ہیں اور سیدھی طرح چلنا بھی سکھایا ہے۔ ان کے تا حیات نا اہل ہوجانے کے بعد ان کی سیاست کا وارث اُن کا بیٹا عبداللہ خاقان عباسی ہوگا‘۔ پاکستان کےامریکہ میں سفیر علی جہانگیر صدیقی بھی اصل میں عبداللہ خاقان کے دوست ہیں۔
بات شروع کی تھی عمران خان کے بابا فرید کے مزار پر حاضری سے ۔درباروں پر باقی رہنما بھی جاتے رہتےہیں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز بھی کئی بار داتا دربار جا چکے ہیں حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمٰن بھی وہاں جا چکے ہیں مگر جس عقیدت و احترام کے ساتھ عمران خان بابا فرید کے مزار پر گئے ہیں اُس کے رنگ ڈھنگ ہی اور تھے۔ اس کاعمران خان کو کچھ اور فائدہ ہو نہ ہو لیکن یہ طے ہے کہ عمران خان کے بارے میں طالبان خان ہونے کا جو خیال تھا وہ باطل ہوگیا ہے۔ پاکستان میں وہ لوگ جو سواد اعظم ہیں انہیں یقین آ گیا ہےکہ عمران خان کا تعلق اِس ملک کے عوام کے اجتماعی عقیدے سے ہے۔ ان کا طالبان کے نظریات سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ یقیناً اب تحریک ِ لبیک پی ٹی آئی کے ووٹ نہیں خراب کر سکے گی۔ وہ نون لیگ کا ہی سب سے زیادہ نقصان کرے گی۔ فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کا شمار اُن بزرگوں میں ہوتا ہے جن کا عوامی طور پر بہت زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔ اُن کی زندگی میں بھی اُن پرایک دہشت گرد حملہ آور ہوا تھا۔ ماضی کا وہ حملہ آور چمڑے کا لباس اور کان میں بالی پہن کر آیا تھا۔ اُس وقت بابا فرید سجدے کی حالت میں تھے۔ اِس سے پہلے کہ وہ حملہ کرتا بابا فرید نے کہا کہ ’’میں نے تمہیں معاف کردیا ہے۔‘‘ اس بات پر وہ کانپنے لگا اور حملہ کئے بغیر بھاگ نکلا۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ اِس حملہ آور کو جس شخص نے بھیجا تھا جو خود کو مذہب کا بہت بڑا ٹھیکے دار سمجھتا تھا اور کہتا تھا کہ بابا فرید گنج شکرؒ خلاف شریعت کام کرتے ہیں۔ آج تاریخ میں اُس شخص کا نام و نشان بھی نہیں ہے مگر بابا فرید گنج شکرؒ کے نام کا ڈنکا ہر جگہ بج رہا ہے۔ سلطان باہو نے فرمایا تھا؎
نام فقیر تنہاں دا باہو
قبر جنہاں دی جیوے ہُو
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین